معاشی صورتحال سے نمٹنے کی ضرورت

یہ درست ہے کہ سکوک بانڈزکے اجرا سے قومی معیشت کو سہارا ملے گا۔

یہ درست ہے کہ سکوک بانڈزکے اجرا سے قومی معیشت کو سہارا ملے گا۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے مشکل معاشی صورتحال سے نمٹنے،گردشی قرضوں کے خاتمے اور زرمبادلہ کے گرتے ذخائرکو سہارا دینے کے لیے تین سو ارب روپے کے اسلامی سکوک بانڈزجاری کرنے کا فیصلہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمرکی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا، جس میں اسلامک بینکوں کے نمایندوں نے شرکت کی ۔

توانائی کے شعبے کے لیے سکوک بانڈز جاری کیے جائیں گے اور ان سے حاصل شدہ رقم سے گردشی قرضوں کی ادائیگیاں کی جائیں گی ۔وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تیرہ سو ارب کا سرکلر ڈیٹ موجود ہے۔ اس وقت ملکی معیشت کے حوالے سے اہم ترین مسئلہ سرکلر ڈیٹ کے خاتمے کا ہے ۔گزشتہ حکومت نے صرف آخری گیارہ ماہ میں نو ارب اٹھانوے کروڑ ڈالرکا بیرونی قرضہ جب کہ کمرشل بینکوں سے ساڑھے تین ارب ڈالر قرضے کا بوجھ ڈال کر گئی ہے۔ توانائی کے شعبے میں گیارہ کھرب سے زائد گردشی قرضے واجب الادا ہیں۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق توانائی کے شعبے میں دور رس اصلاحات اور توانائی کے شعبے کی خامیوں کو دورکرکے پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان میں 8 ارب 40 کروڑ ڈالرکی کمی کی جاسکتی ہے اور اس کے ساتھ انفرادی سطح پر ہونے والی مجموعی آمدنی کو 4 ارب 50 کروڑ ڈالر تک بڑھایا جاسکتا ہے۔


سچ تو یہ ہے کہ اس وقت ملک کو جس فوری نوعیت کے سنگین مسئلے کا سامناہے وہ دگرگوں معیشت ہے،اکتیس جولائی یعنی گزشتہ حکومت کے آخری مالی سال کے آغاز تک ان گردشی قرضوں کا حجم چھ سو ارب تک پہنچ گیا تھا جب کہ صرف آخری ماہ میں اس میں تیس ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ اس سے قبل یہ قرض چکانے کے لیے بینکوں سے 582 ارب روپے کی ادائیگیاں پاور پلانٹس کو کی گئیں جو اب بینکوں کو واپس کرنی ہیں۔اس طرح مجموعی طور پہ ان گردشی قرضوں کی مالیت 11 کھرب 88 ارب روپے ہوگئی ہے۔

ان آئی پی پیز یا بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو حکومت نے صرف بینکوں سے ہی قرض لے کے ادائیگی نہیں کی بلکہ نوٹ بھی چھاپے اور آئی ایم ایف سے قرضے بھی لیے کہ یہ آسان اور فوری حل تھا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان قرضوں کا شرح سود اور بجلی چوری کا نقصان تمام صارفین کو بجلی کے بل میں اضافے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے، حالانکہ جس نے پہلے بل نہیں دیاوہ اب کیوں دینے لگا۔ یوں بھی نادہندگان کوئی ہما شما نہیں ہوتے بڑے بڑے مگرمچھ ہوتے ہیں اس لیے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوتا ۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے نام پہ ملک کو سرمایہ کار کمپنیوں کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا گیا۔ بجلی بنانے والی ان کمپنیوں کو معاہدے کے تحت بیس فیصد ادائیگی کرنی تھی جب کہ باقی اسی فیصد حکومت کے ذمے تھی جو بینکوں سے قرض لے کر ادا کیا گیا۔یہ پرائیویٹ کمپنیاں ہر قسم کے کارپوریٹ ٹیکس،کسٹم ڈیوٹی اور سیل ٹیکس سے مکمل طور پہ مستثنیٰ تھیں۔

یہ درست ہے کہ سکوک بانڈزکے اجرا سے قومی معیشت کو سہارا ملے گا تاہم دوسری جانب وزیر اعظم نے حکومتی اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کے اقدامات کے تحت وزارتوں کو اپنے اخراجات دس فیصد کم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ گردشی قرضوں سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ حکومت پاکستان بجلی بنانے کے لیے ڈیم اور کڑی نگرانی میں ایسی پبلک سیکٹر کمپنیاں بنائے جن کے شیئر اسٹاک مارکیٹ میں لسٹ کیے جائیں اور جوکم ترین اخراجات پہ بجلی پیدا کریں۔
Load Next Story