سیرتِ نبویؐ
جس ذاتِ اقدس کی یہ مقدس محفل اپنے رنگ پر ہے وہ ذاتِ مبارک لقد من اللہ ہے۔ نور من نور اللہ ہے۔
''اے ہمارے پروردگار! ان (آلِ اسماعیل) میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر ان کو سنائے اور کتاب و حکمت ان کو سکھائے اور (ان کے دلوں کو شرک سے) پاک کردے۔ بے شک تو غالب صاحب حکمت ہے۔'' (البقرہ129)
''اور جب مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ ؑ نے کہاکہ اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور مجھ سے پہلے جو کتاب یعنی توریت آچکی ہے اس کی تصدیق کرتاہوں اور ایک رسول کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد آئیں گے ان کا نام احمد ہوگا'' (صف 6)
سورۂ بقرہ اور سورۂ صف کی ان آیاتِ مبارکہ میں بھی صاف سنائی دیتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا '' میں اپنے جد امجد ابراہیم ؑکی دعا اور عیسیٰ ؑ کی بشارت ہوں'' باالفاظ دیگر میں دعائے خلیل ؑ اور نوید مسیحا ہوں۔
جس ذاتِ اقدس کی یہ مقدس محفل اپنے رنگ پر ہے وہ ذاتِ مبارک لقد من اللہ ہے۔ نور من نور اللہ ہے۔ نور اولیٰ ہے سب سے اعلیٰ و اولیٰ ہے۔ خلق کی ابتدا ہے، خُلق کی انتہا ہے، صادقِ یکتا ہے، مصدق کتب سما ہے ایمان کی بنا ہے۔ اسلام کی ضیا ہے۔ اللہ کی رضا ہے۔
وہ ہے ایسا ہمدرد بشرکہ قوم نے ٹھکرا دیا۔ شہر سے نکال دیا۔ سائیں سائیں کرتی فضا بے آب و گیاہ جگہ درد کی تصویر بنا، ایک شجر سے ٹیک لگائے تنہا ہے بیٹھا۔ خون، پائوں سے ہے رس رہا جوتوں سے ابل رہا ضرب درد سنگ سے جسم کا جوڑ جوڑ ہے اکڑ رہا، اپنے غم سے بے غم، قوم کے غم میں مدغم سوچ رہا ''کیسی میری قوم ہے ناداں'' دیکھا ! تو ہوئے حیران، جبرائیل امین سامنے ہے کھڑا۔ عرض کی اللہ کی رضا، جانِ رحمتؐ نے جو سنی اللہ کی رضا تڑپ اٹھا، لرز اٹھ، آنکھوں سے ہوگئے آنسو رواں، از طرف آسمان دست بہ دعا '' میری قوم ہے مولا، فنا نہیں، تباہ نہیں، معاف فرما ! ہدایت عطا فرما !'' اللہ نے جو سنی اپنے حبیبؐ کی دعا، اپنی رضا کو بدل لیا آتی بلا کو ٹال دیا۔
وہ ہے ایسا بشر حبیب جس سے خدا خود پوچھے محبت میں بتا تیری رضا کیا ہے۔ واقعہ طائف گواہ ہے۔ وہ ہے ایسا بشر قوم کے درد سے جس کا جگر ہے تر بتر، چشم زمین زبان بد د دعا سے نا آشنا، عقل ناقصاں ہے، حیران یہ کیسا ہے انسان وہ ہے ایسا بشر امین جبرائیل امین جس کا بنا ہم سفر، پہنچے جب دونوں ایک مقام پر، تو جبرائیل امین نے رک کر عرض کی اے خیر البشر یہاں تک ہے میری حدِ سفر اس سے آگے اگر میں چلا اے میرے ہم سفر! تو جل جائیںگے پر۔ وہاں سے شروع ہوا ہوا اس بشر کا سفر، سفر بنا وسیلۂ ظفر جب رہے گیا دوکمانوں یا اس سے بھی کم فاصلے کا سفر تو دو بہ دو، رو برو، حسن نے عشق سے، عشق نے حسن سے کی گفتگو دل بھر کر، پھر لوٹا یہ بشرؐ عرش بریں سے فرشِ زمین پر روحانی انعام و اکرام لے کر واقعہ معراج گواہ ہے۔
وہ ہے ایسا بشر قریب جس کی دعا میں ایسا اثرگویا آئی بہار جس کی مدد کو آسمان سے فوراً چلے فرشتے ہزار، واقعہ بدر گواہ ہے۔ وہ ہے ایسا منیر بشیر جس نے کیا اشارہ تو ہوگیا شقِ قمر، سورۂ قمر گواہ ہے۔
وہ ہے ایسا بشر جو صورتِ انسان، مگر سیرت قرآن ہے، زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ ام المومنین کا قول مبین کان خلقۃ القرآن گواہ ہے۔
وہ ہے ایسا بشر جس کا دردِ جگر دیکھ کر کہا اے میرے پیارے مدثر ''نہ دوںگا کفارِ مکہ کو ان کے گناہوں کی سزا جب تک آپؐ موجود ہیں ان کے درمیان'' سورۂ انفال گواہ ہے۔
وہ ہے ایسا بشر منیب جس نے کی دعا ''اے میرے مولا عمر کو مشرف بہ اسلام فرما'' دلِ انسان جو ہے اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ، سن کر اپنے حبیب کی صدا عمر کا دل کفر سے الٹ کر ایمان کی طرف پلٹ کر قوتِ اسلام کا بازو بنا دیا، اللہ اکبر سے گونج اٹھی فضا، کافروں نے جب سنا یہ ماجرا، سکتہ سا چھا گیا ''عمر نے سوچا تھا کیا، کہا تھا کیا، یہ کیا ہو گیا، گیا تھا شکار کرنے خود شکار ہو گیا'' دنیائی کفر میں تہلکہ مچ گیا۔
وہ ہے ایسا بشر حفیظ جس کی حفاظت کی خاطر اللہ کے حکم پر مکڑی اور کبوتری اور کبوتر نے بنا لیا غارکے منہ پر اپنا گھر، اہل کفرکو غارکے دہانے پر کھڑا دیکھ کر گھبراگئے صدیق اکبر اور بولے ''اے خیر البشرؐ! اگر یہ آگئے اندر تو ہم ہیں صرف دو ہی بشر'' تو کہا آپؐ نے مسکراکر ''فکر نہ کرکفر سے نہ ڈر، اے میرے پیارے ہم سفر! ہم دو ہیں اور تیسرا ہے اللہہو الاکبر، جس کی راہ میں نکلے ہیں ہم سفر پر وہ بھی تو گویا ہے شریک سفر'' واقعہ غار ثور گواہ ہے۔
وہ ہے ایسا صاحب جمال بشر جس پر اللہ جمیل خود فدا ہے۔ سورۂ احزاب کی یہ آیت گواہ ہے جس میں صلوٰۃ وتسلیم بحق رسول کریمؐ حکم ہوا ہے۔
''بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پو صلوٰۃ بھیجو اور سلامتی کی دعا کرتے ہوئے اس کے فرمانبردار بنو'' (الاحزاب 56)
قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ میں اللہ عظیم نے اپنے رسول کریمؐ کی شان کو بیان فرمایا ہے اور اہل ایمان کو صلوٰۃ النبیؐ کا وضاحت اور صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے۔ صلوٰۃ اللہ تو ساری کائنات اپنے اپنے فطری انداز میں ادا کرتی ہے لیکن صلوٰۃ النبیؐ وہ صلوٰۃ ہے جو خالقِ کائنات خود اور اس کے فرشتے ادا کرتے ہیں۔ اس آیت میں عشق الٰہی کا گوہر پنہاں ہے اور اس آیت مبارکہ کے مجاز میں جو حقیقت پنہاں ہے وہ اس پر عیاں ہو جاتی ہے کہ ''فقط محمدؐ ہے، محمود کی نگاہ کا مقصود حسن ہے خدا کا رسولؐ حسن ہے دل مصطفیٰ عشق ہے دم جبرائیل عشق ہے خدا کا کلام خدا تک بندے کی رسائی ہے ناتمام، اگر اس کی نگاہ سے پوشیدہ ہے مرتضیٰؐ کا مقام اس کی نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال، عشق مجتبیٰ ؑ نہ ہو اگر اس کی نماز کا امام''۔
اسمِ محمدؐ وہ پاک نام ہے جس کے اندر سیرت پاک کا سمندر بند ہے وہ ایسا مبارک نام ہے جس پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے سے بگڑے ہوئے کام سنورتے ہیں۔ الجھے ہوئے مسائل کے لیے سائل پیدا ہوتے ہیں۔ فرشِ زمین سے صلوٰۃ و سلام کے مہکتے گجرے جاتے ہیں۔ عرش بریں سے تحفتاً محبت و رحمت بھرے سلام و انعام آتے ہیں یوں جانے آنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
ان کی یادوں میں غیر مسلم روتے تھے کیونکہ اللہ نے ان کی دلوں میں مسلمانوں کے لیے محبت ڈال دی تھی ان کی نیک شہرت دن کی روشنی کی طرح چار سو پھیلادی تھی۔ زمانہ انھیں باکردار، کردار ساز پاک دل، پاک باز کے نام سے یاد کرتا تھا۔ یہ سب کچھ اللہ کی رحمت اور نعمت تھی جو اس نے اپنے حبیبؐ کی محبت اور اطاعت میں استقامت دیکھ کر قوم رسولِ ہاشمیؐ کو عطا کی سوچ اے مسلمان! اللہ نے تجھے کیا کیا نہ دیا۔ اس لیے میری یہی ہے التجا دامن نبیؐ کا نہ چھوڑ مسلمان۔
بروایت دل بصیر حضرت عمر فاروقؓ دل خبیر حضرت علیؓ حیدر کرار مسلمان کی دعا رہتی ہے معلق ارض و سماء کے درمیان اور پہنچتی نہیں از طرف آسمان جب تک کہ اول و آخر صلوٰۃ النبیؐ اس کی قوتِ پرواز کا نہ بنے سامان۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی، اپنی رحمت سے ہمارے عقل کے دریچے کھول دے اور مقامِ مصطفیؐ ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا۔ سمجھنے اور عشقِ مرتضیٰؐ کی شمع دل میں فروزاں کردے، تاکہ ہمارے لیل و نہار قرونِ اولیٰ کی طرح باغ و بہار ہوجائیں۔( آمین)