زرعی اصلاحات کی ضرورت
ہمارے ملک میں جمہور کا مطلب سیاسی جماعتوں کے وہ وفادار کارکن ہیں جو ہمیشہ اقتدارکے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے چند ان جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے جہاں عوام کے مستقبل کے فیصلے اشرافیہ کے چند اکابرین کرتے آرہے ہیں ، یہ سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ دور خواہ جمہوری ہو یا آمرانہ ، ہر دور میں اس ملک کی اشرافیہ ہی قوم کی قسمت کے فیصلے کرتی ہے اور بے چارے عوام سر جھکا کر ان فیصلوں کو مانتے ہیں۔
عوام کی ذہنیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام اس حقیقت کو نہ سمجھ سکے کہ جمہوری ملکوں میں ملک و قوم کی قسمت جمہور سے بندھی رہتی ہے لیکن جن ملکوں میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے ملک و قوم کی قسمت اشرافیہ کی مٹھی میں بند رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہور کا مطلب سیاسی جماعتوں کے وہ وفادار کارکن ہیں جو ہمیشہ اقتدارکے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں ۔ غیر تربیت یافتہ کارکنوں کو اشرافیہ اپنی سیاسی ضرورتوں کے ہر موقعے پر استعمال کرتی ہے اور باور یہ کراتی ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں۔
پاکستان میں عوام کی تعداد بائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور سیاستدان اپنے جلسوں جلوسوں میں بہت محنت کرکے بہت بڑا سرمایہ خرچ کرکے مشکل سے 50-40 ہزار دہاڑی دار سیاسی کارکنوں کو جمع کرکے یہ پروپیگنڈا کرتی ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں اور میڈیا کے خصوصی کارکن اپنی فنی مہارت سے 10 ہزار حاضرین کو دس لاکھ میں بدل دیتے ہیں ۔
یہ ہماری منظم اور تربیت یافتہ اشرافیہ کا وہ کھیل ہے جو بڑے منظم طریقے سے کھیلا جارہا ہے عوام کے ذہنوں میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہی مخصوص اشرافیہ انتخابات کیسے جیتتی ہے اور اقتدار میں کیسے آتی ہے ، اس کھیل میں کئی موڑ آئے لیکن کسی نہ کسی سیاسی ٹیکنالوجی کے ذریعے وہی چند خاندان برسر اقتدار آئے جو سیاست پر حاوی ہیں۔ ہماری دیہی آبادی زرعی معیشت سے جڑی ہوئی ہے اور زرعی معیشت پر اب بھی جاگیرداروں وڈیروں کا قبضہ ہے اور یہ قابض زرعی اشرافیہ اپنے کالے جادو سے ہر انتخابات میں انھی خاندانوں کو کامیابی دلاتی ہے جو عملاً زرعی غلام بنے ہوتے ہیں۔
پاکستان کے عوام اپنی دن رات کی محنت سے جو دولت پیدا کرتے ہیں وہ ایک سرمایہ دارانہ آٹومیٹک طریقے سے اشرافیہ کے بینکوں میں چلی جاتی ہے اور دن رات محنت کرنے والا کسان نان جویں سے محتاج رہتا ہے۔ دیہی علاقوں کو تو چھوڑیے وہاں وڈیرے اور جاگیردارکھلی غنڈہ گردی کرتے ہیں ۔ اب شہری علاقوں میں بھی دیہی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے بھتے کی پرچیوں سمیت دھونس دھڑلے کے بے شمار طریقے ہیں۔ جن کے ذریعے معصوم اور غریب عوام کو ڈرا کر رکھا جاتا ہے ، اس سونے پر سہاگہ یہ کہ انتظامیہ وڈیروں اورجاگیرداروں کے غلاموں کا کردار ادا کرتی ہے، اگرکوئی بندہ اشرافیہ کے آگے سر نہیں جھکاتا تو اس کا سر غائب کردیا جاتا ہے، لاش کھیتوں کھلیانوں میں پھینک دی جاتی ہے۔
یہ سارا کھڑاک اس لیے پھیلا ہوا ہے کہ 71 سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں ابھی تک مکمل زرعی اصلاحات نہیں ہوسکیں جس ملک میں زرعی اصلاحات نہیں کی جاتیں اس ملک میں جاگیردار طبقہ مغل امپائر کی طرح ہاریوں کسانوں کے گلے پر سوار رہتا ہے۔ سندھ میں یہی صورتحال ہے۔ وڈیرے اور جاگیردار شاہ جہاں اور بہادر شاہ ظفر بنے ہوئے ہیں اور ہاری اور کسان غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں اب بھی اتنی بڑی بڑی جاگیریں ہیں کہ ایک ایک جاگیردار کی جاگیر میں تین تین ریلوے اسٹیشن آتے ہیں۔ عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ زرداری کے پاس اب بھی ایک لاکھ ایکڑ زمین موجود ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ زرعی اصلاحات سے کیوں بھاگتا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے ہاری اورکسان جو دیہی آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ ہے لیکن وہ وڈیروں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے وہ اپنی زمین سے محرومی کی وجہ سے نفسیاتی طور پر سخت احساس کمتری کا شکار ہے ، وڈیرے اور جاگیردار ہاریوں اور کسانوں کو نفسیاتی دباؤ میں رکھنے کے لیے ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کرتے ہیں۔ جب تک انسان علم سے محروم رہتا ہے نفسیاتی طور پر وہ خود کو وڈیروں کی رعیت سمجھتا ہے اور رعیت ہی کی طرح ان سے سلوک کرتا ہے ان کے غلامانہ اور ظالمانہ سلوک کی وجہ سے دیہی آبادی شدید احساس کمتری میں مبتلا رہتی ہے۔
دیہی علاقوں کے عوام اب اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں لیکن حصول تعلیم کے لیے عوام آزاد نہیں۔ دیہی علاقوں کی نئی نسلوں کو احساس خودی سے محروم رکھنے کے لیے ایک تو وڈیرے اسکولوں کو مویشی خانے بناکر نوجوان نسلوں کو جاہل رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں دوسرے ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کرکے انھیں احساس کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں ، دیہی علاقوں میں وڈیروں کی ملکیت جو لاکھوں ایکڑ زمین ہے وہ زمین ان کی خریدی ہوئی نہیں بلکہ عام طور پر وراثت میں ملی ہوئی ہے۔ یہ وراثت میں ملی ہوئی لاکھوں ایکڑ زمین ان وڈیروں اور جاگیرداروں کو مغل امرا اور بادشاہوں کی طرف سے ان کی خدمات کے عوض ملی ہے۔
میڈیا میں آج کل یہ خبریں لگ رہی ہیں کہ میرٹ پر پورے اترنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نظرانداز کرکے نان میٹرک نوجوانوں کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے ۔ اس کے دو مقاصد نظر آتے ہیں ایک یہ کہ میرٹ پر پورا نہ اترنے والا ہمیشہ حکمرانوں کا غلام بنا رہتا ہے ، دوسرے یہ کہ میرٹ پر آنے والوں اور میرٹ پر پورے نہ اترنے والے نوجوان اصل سازشیوں کو بھول کر آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ نسلوں تک جاری رہتا ہے اور اس پس منظر میں وڈیرہ شاہی نسلوں تک حکمران رہتی ہے۔
عوام کی ذہنیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام اس حقیقت کو نہ سمجھ سکے کہ جمہوری ملکوں میں ملک و قوم کی قسمت جمہور سے بندھی رہتی ہے لیکن جن ملکوں میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے ملک و قوم کی قسمت اشرافیہ کی مٹھی میں بند رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہور کا مطلب سیاسی جماعتوں کے وہ وفادار کارکن ہیں جو ہمیشہ اقتدارکے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں ۔ غیر تربیت یافتہ کارکنوں کو اشرافیہ اپنی سیاسی ضرورتوں کے ہر موقعے پر استعمال کرتی ہے اور باور یہ کراتی ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں۔
پاکستان میں عوام کی تعداد بائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور سیاستدان اپنے جلسوں جلوسوں میں بہت محنت کرکے بہت بڑا سرمایہ خرچ کرکے مشکل سے 50-40 ہزار دہاڑی دار سیاسی کارکنوں کو جمع کرکے یہ پروپیگنڈا کرتی ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں اور میڈیا کے خصوصی کارکن اپنی فنی مہارت سے 10 ہزار حاضرین کو دس لاکھ میں بدل دیتے ہیں ۔
یہ ہماری منظم اور تربیت یافتہ اشرافیہ کا وہ کھیل ہے جو بڑے منظم طریقے سے کھیلا جارہا ہے عوام کے ذہنوں میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہی مخصوص اشرافیہ انتخابات کیسے جیتتی ہے اور اقتدار میں کیسے آتی ہے ، اس کھیل میں کئی موڑ آئے لیکن کسی نہ کسی سیاسی ٹیکنالوجی کے ذریعے وہی چند خاندان برسر اقتدار آئے جو سیاست پر حاوی ہیں۔ ہماری دیہی آبادی زرعی معیشت سے جڑی ہوئی ہے اور زرعی معیشت پر اب بھی جاگیرداروں وڈیروں کا قبضہ ہے اور یہ قابض زرعی اشرافیہ اپنے کالے جادو سے ہر انتخابات میں انھی خاندانوں کو کامیابی دلاتی ہے جو عملاً زرعی غلام بنے ہوتے ہیں۔
پاکستان کے عوام اپنی دن رات کی محنت سے جو دولت پیدا کرتے ہیں وہ ایک سرمایہ دارانہ آٹومیٹک طریقے سے اشرافیہ کے بینکوں میں چلی جاتی ہے اور دن رات محنت کرنے والا کسان نان جویں سے محتاج رہتا ہے۔ دیہی علاقوں کو تو چھوڑیے وہاں وڈیرے اور جاگیردارکھلی غنڈہ گردی کرتے ہیں ۔ اب شہری علاقوں میں بھی دیہی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے بھتے کی پرچیوں سمیت دھونس دھڑلے کے بے شمار طریقے ہیں۔ جن کے ذریعے معصوم اور غریب عوام کو ڈرا کر رکھا جاتا ہے ، اس سونے پر سہاگہ یہ کہ انتظامیہ وڈیروں اورجاگیرداروں کے غلاموں کا کردار ادا کرتی ہے، اگرکوئی بندہ اشرافیہ کے آگے سر نہیں جھکاتا تو اس کا سر غائب کردیا جاتا ہے، لاش کھیتوں کھلیانوں میں پھینک دی جاتی ہے۔
یہ سارا کھڑاک اس لیے پھیلا ہوا ہے کہ 71 سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں ابھی تک مکمل زرعی اصلاحات نہیں ہوسکیں جس ملک میں زرعی اصلاحات نہیں کی جاتیں اس ملک میں جاگیردار طبقہ مغل امپائر کی طرح ہاریوں کسانوں کے گلے پر سوار رہتا ہے۔ سندھ میں یہی صورتحال ہے۔ وڈیرے اور جاگیردار شاہ جہاں اور بہادر شاہ ظفر بنے ہوئے ہیں اور ہاری اور کسان غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں اب بھی اتنی بڑی بڑی جاگیریں ہیں کہ ایک ایک جاگیردار کی جاگیر میں تین تین ریلوے اسٹیشن آتے ہیں۔ عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ زرداری کے پاس اب بھی ایک لاکھ ایکڑ زمین موجود ہے۔
ہمارا حکمران طبقہ زرعی اصلاحات سے کیوں بھاگتا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے ہاری اورکسان جو دیہی آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ ہے لیکن وہ وڈیروں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے وہ اپنی زمین سے محرومی کی وجہ سے نفسیاتی طور پر سخت احساس کمتری کا شکار ہے ، وڈیرے اور جاگیردار ہاریوں اور کسانوں کو نفسیاتی دباؤ میں رکھنے کے لیے ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کرتے ہیں۔ جب تک انسان علم سے محروم رہتا ہے نفسیاتی طور پر وہ خود کو وڈیروں کی رعیت سمجھتا ہے اور رعیت ہی کی طرح ان سے سلوک کرتا ہے ان کے غلامانہ اور ظالمانہ سلوک کی وجہ سے دیہی آبادی شدید احساس کمتری میں مبتلا رہتی ہے۔
دیہی علاقوں کے عوام اب اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں لیکن حصول تعلیم کے لیے عوام آزاد نہیں۔ دیہی علاقوں کی نئی نسلوں کو احساس خودی سے محروم رکھنے کے لیے ایک تو وڈیرے اسکولوں کو مویشی خانے بناکر نوجوان نسلوں کو جاہل رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں دوسرے ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کرکے انھیں احساس کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں ، دیہی علاقوں میں وڈیروں کی ملکیت جو لاکھوں ایکڑ زمین ہے وہ زمین ان کی خریدی ہوئی نہیں بلکہ عام طور پر وراثت میں ملی ہوئی ہے۔ یہ وراثت میں ملی ہوئی لاکھوں ایکڑ زمین ان وڈیروں اور جاگیرداروں کو مغل امرا اور بادشاہوں کی طرف سے ان کی خدمات کے عوض ملی ہے۔
میڈیا میں آج کل یہ خبریں لگ رہی ہیں کہ میرٹ پر پورے اترنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نظرانداز کرکے نان میٹرک نوجوانوں کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے ۔ اس کے دو مقاصد نظر آتے ہیں ایک یہ کہ میرٹ پر پورا نہ اترنے والا ہمیشہ حکمرانوں کا غلام بنا رہتا ہے ، دوسرے یہ کہ میرٹ پر آنے والوں اور میرٹ پر پورے نہ اترنے والے نوجوان اصل سازشیوں کو بھول کر آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ نسلوں تک جاری رہتا ہے اور اس پس منظر میں وڈیرہ شاہی نسلوں تک حکمران رہتی ہے۔