ترسیلات زر میں اضافہ کیسے 

’’مالیاتی شمولیت‘‘ کے لیے حکومت کو بینکاری نظام میں بڑی اصلاحات لانا ہوں گی جس کے لیے سخت اقدامات درکار ہیں۔


اکرام سہگل December 22, 2018

عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2018 میں بھارت میں آنے والی ترسیلات زر22.5فی صد اضافے کے ساتھ80ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، اور بھارت نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والے ملک کی حیثیت برقرار رکھی ہے۔

گزشتہ تین برسوں سے ان میں مسلسل اضافہ ہوا، بھارت میں بیرون ملک سے ہونے والی ترسیلاتِ زر 2016میں 62.7ارب اور 2017میں 65.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ بیرون ملک سے ترسیلات موصول کرنے والے دس بڑے ممالک میں چین67ارب ڈالر، میکسیکواور فلپائن 34، 34ارب ڈالر، مصر26ارب ڈالر کے ساتھ شامل ہے، جب کہ پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔

جنوبی ایشیاء میں ترسیلات زر میں 2018کے دوران 13.5فی صد اضافہ دیکھنے مییں آیا، اضافے کی یہ شرح 2017میں 5.7فی صد رہی تھی۔ اس غیر معمولی اضافے کے اسباب میں صرف ترقی یافتہ ممالک کے معاشی حالات شامل نہیں بلکہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور خلیجی ممالک سے سرمائے کی منتقلی بھی اس کی وجوہ میں شامل ہے۔

سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں روزگار کے مواقعے میں کٹوتی کے باعث پاکستان میں ترسیلات زر کے اضافے کی شرح صرف 6.2فی صد رہی جس کا بنیادی سبب ان ممالک سے آنے والے سرمائے میں واضح کمی ہے۔ سعودی عرب نے اپنے شہریوں کو ملازمتوں میں ترجیح دینے کی پالیسی اختیار کی جس کے نتیجے میں 39ہزارپاکستانیوں کو ملک سے بے دخل کیا گیا۔ 2018 میں ترسیلات زر20.9ارب ڈالر رہیں، سمندر پار پاکستانی ورکرز میں41فی صد کمی آئی۔

(2016میں یہ آٹھ لاکھ اور 2017میں 5لاکھ رہی) گزشتہ دہائی میں بہتر تربیت یافتہ اور سستی بھارتی اور بنگلہ دیشی افرادی قوت نے پاکستانیوں کی جگہ لے لی۔ اس وقت 80لاکھ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہے جس کا مطلب ہے کہ ملک کو موصول ہونے والی ترسیلات زر میں اضافے کے امکانات روشن ہیں۔ برآمدات کے بعد تقریباً 2ارب ڈالر تک موصول ہونے والی ترسیلات زر روز بہ روز کم ہوتے ہوئے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کا دوسرا بڑا سہارا ہیں۔ جاری کھاتوں کے خسارے کے باعث ترسیلات زر پر پاکستان کے انحصار میں مزید اضافہ ہوا۔

روایتی بینکاری یا مالیاتی نظام سے ہٹ کر بیرون ملک سے رقوم کی منتقلی کے لیے ''ہنڈی'' یا ''حوالہ'' کا متوازی نظام کام کررہا ہے۔ رقم کی منتقلی باقاعدہ نظام کے برخلاف ہنڈی میں رقم بھیجنے اور وصول کرنے والے گم نام ہوتے ہیں، اسی وجہ سے یہ طریقہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کے لیے موزوں ہے۔ غیر قانونی طور پر رقم کی منتقلی کے اس طریقے میں درحقیقت رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہی نہیں ہوتی ، اس کے لیے بینک اکاؤنٹ درکار نہیں اور ایک فرد سے دوسرے فرد کو ملنے والی رقم کا دستایزی ریکارڈ بھی نہیں ہوتا۔ کرپٹ عناصر ملک سے باہر جائیداد کی خریداری کے لیے لوٹ کا مال انھی ذرایع سے منتقل کرتا ہے، تبھی ''ہنڈی مافیا'' نظام میں بھی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ 2014میں ہنڈی کے ذریعے 14سے 15ارب ڈالر منتقل ہوئے اور ہنڈی مافیا نے سال میں 1.3ارب روپے کمائے۔

بھارت نے ''ہنڈی سسٹم'' کو غیر قانونی قرار دیا جس کے چار بنیادی اسباب تھے۔ سب سے پہلے اس پر پابندی سے کالے دھن کی نقل و حرکت کو روکا گیا، دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے اور منشیات کی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے بھی یہ پابندی کار آمد ہے، اس کی روک تھام سے غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پانے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ 1975میں جب سویلین آمر اندرا گاندھی نے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کی تو ساتھ ہی ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیا، ان کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹ ضبط کرلیے گئے اور جو رقوم ابھی ترسیل کے مرحلے میں تھیں وہ بھی ضبط کرلی گئیں۔ 2004میں بیرون ملک بھارتیوں نے فی کس اوسطاً 4ہزار ڈالر بینکوں کے ذریعے اپنے ملک بھجوائے۔

2004 میں بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تعداد 80سے 90لاکھ بتائی جاتی ہے اس حساب سے یہ رقم 30سے 35ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے۔ آج یہ 80ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے باوجود پاکستان میں ہنڈی کا دھندہ جاری و ساری ہے۔ ہنڈی کا دھندہ پاکستانی معیشت کو بری طرح متاثر کررہا ہے، اس کی وجہ سے ملکی خزانہ ٹیکسوں اور قیمتی زر مبادلہ سے محروم ہوجاتا ہے۔

پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور فلپائن میں 2004 میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 2003میں بیرون ملک برسر روزگار فلپائنی شہریوں کی تعداد 32لاکھ شمار کی گئی ، جن میں 82فی صد خواتین تھیں۔ فلپائن کے مرکزی بینک نے ایک خاص سافٹ ویئر پر سرمایہ کاری کرکے اسے بلا معاوضہ بینکوں کو فراہم کیا، جس کی مدد سے 24گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن رقوم کی منتقلی ممکن ہوئی، یہ سہولت متعدد بینکوں کی متعدد شاخوں میں دستیاب کی گئی۔ اس منصوبے کے نتیجے میں 2003 میں بینکاری ذرایع سے 8.6ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں اور بیرون ملک مقیم فلپائنی شہریوں کی ترسیلات فی کس 2700ڈالر سالانہ تک پہنچ گئیں۔

ان اصلاحات کی وجہ سے ہنڈی کے بجائے بینکاری نظام رقوم کی منتقلی کا بڑا ذریعہ بن گیا اور اس سے باہر اگر رقوم منتقل ہوئیں بھی تو وہ انتہائی معمولی تھیں۔ 2003میں بیرون ملک مقیم 23لاکھ بنگلہ دیشی شہریوں نے اپنے ملک سال میں 80کروڑ ڈالر بھیجے اور فی شہری کی ترسیلات 350ڈالر فی کس رہیں۔ اگرچہ بنگلہ دیش میں ہنڈی کا دھندہ عروج پر ہے لیکن پاکستان میں صورت حال اس سے بھی بدترین رہی۔ 2003میں بھارت سے باہر مقیم اس کے شہریوں نے اوسطاً 4ہزار ڈالر فی کس حساب سے اپنے ملک رقم بھیجی جب کہ پاکستان میں یہ 300ڈالر فی کس رہی۔

''مالیاتی شمولیت'' کے لیے حکومت کو بینکاری نظام میں بڑی اصلاحات لانا ہوں گی جس کے لیے سخت اقدامات درکار ہیں۔ ہنڈی کا دھندہ کرنے والے اب جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ غیرملکی ٹیلکوز کو رقوم کی منتقلی کے الیکٹرانک پلیٹ فورم مہیا کردیے گئے ہیں جو لکھت پڑھت کے فرسودہ نظام کے مقابلے میں بڑی آسانی سے رقم منتقل کردیتے ہیں۔ ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کو متوازی بینکاری نظام کے قیام سے روکنا ہوگا۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی کڑی نگرانی ہونی چاہیے۔ ہنڈی کی روک تھام اور ملک میں ترسیلات زر کے لیے جدید ذرایع فراہم کرکے بیرون ملک سے رقوم کی منتقلی کو فلپائن اور بھارت کی طرح 20سے 25فی صد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں