رئیل اسٹیٹ سیکٹرکے مسائل حل ہونے چاہئیں
اس نکتے کو اتنا گھسیٹاگیاکہ لوگوں نے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کوکم کرنا شروع کردیا۔
ادھیڑعمرشخص بڑی تہذیب سے میرے دفترمیں داخل ہوا۔چہرے پربشاشت اورشرافت کادائرہ تھا۔ ایک قریبی دوست کے حوالے سے ملنے آیاتھا۔نام نہیں لکھ سکتا۔ دریافت کیاکہ صاحب، فرمائیے، آپکی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ یہ وہ روایتی سافقرہ ہے جوسول سروس نے میرے وجدان پر تحریرکردیاہے۔
میزکے اس طرف مسائل ہیں اور دوسری طرف میرے جیسے بابو ہیں، جو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جوبھی بابو، سائلین سے درشتی سے بولتا ہے۔انھیں رولز دکھادکھا کر تڑپاتا ہے۔اسے انتہائی اچھااور قابل افسر سمجھا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے جوبھی سرکاری ملازم، اس منفی روش کو ترک کرکے، عام لوگوں کے مسائل ایمانداری سے حل کرنے کی کوشش کرتاہے۔اس کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اسے نکما ثابت کیا جاتا ہے۔تجربے نے مجھے یہ سکھایاہے کہ جوبھی آپکے پاس آئے اس کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے۔یہی سرکاری ملازمت کاجوہری نکتہ ہے اوریہی انسان دوستی کاواضح ثبوت۔
دفترمیں داخل ہونے والے شخص نے کہاکہ مجھے دس پندرہ منٹ تنہائی میں بات کرنی ہے تاکہ ایک مسئلہ پرتفصیل سے بات کرسکوں۔گفتگوشروع ہوئی۔کہنے لگا میں لاہور میں ریئل اسٹیٹ کے شعبہ سے وابستہ ہوں۔گزشتہ پچیس برس سے جائیدادکی خریدوفروخت کا کام کررہاہوں۔گھربھی بناتا ہوں اورجائزمنافع پر فروخت کردیتاہوں۔جب جنوبی پنجاب سے لاہور آیا تو اوائل عمری کازمانہ تھا۔مگرلاابالی نہیں تھا۔آتے ہی پوش ایریا میں کام شروع کردیا۔آج الحمدللہ پورے لاہورمیں میرے دس کے قریب دفاترہیں۔روزانہ لاکھوں بلکہ کروڑوں کالین دین ہے۔مگراب تھک چکا ہوں۔
تمام دفاتربندکرکے کوئی اورکام شروع کرناچاہتاہوں۔میں نے سوال کیاکہ چلیے،یہ توتعارف ہوگیا۔فرمائیے آنے کی زحمت کیسے کی۔ مہمان،متانت سے کہنے لگاکہ بات کرنے دیجیے۔ابھی مسئلہ کی طرف بھی آتاہوں۔مسئلہ یہ ہے کہ جائیدادکی خریدوفروخت کے شعبہ کی کوئی آواز نہیں۔ مقتدر طبقے تک پہنچنے کاکوئی جائز راستہ بھی موجود نہیں ہے۔اس شعبہ سے لاکھوں نہیں،کروڑوں لوگوں کا روزگاروابستہ ہے۔ مگرکوئی بھی حکومت،اس اہم ترین شعبے کے مسائل پرتوجہ نہیں دیتی۔اسے ایک ایسی گائے سمجھ لیا گیاہے جوچارے کے بغیربھی دودھ دینے پر مجبور ہے۔
دوبارہ سوال کیا۔آپ درست فرمارہے ہیں۔ مگر ان تمام معاملات سے میرا تودور دورکاکوئی واسطہ نہیں۔مہمان دوبارہ کہنے لگاکہ آپکے پاس صرف اس اُمیدسے آیاہوں کہ اگرمیری بات جائز لگے تو اسکوقلمبندضرورکیجیے گا۔بات چیت جاری رہی۔ریئل اسٹیٹ سیکٹرکواصل ترقی پرویزمشرف کے دورمیں ملی تھی۔ عام لوگوں نے بھی جائیدادخریدنے اورفروخت کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔
اندرونی سرمایہ کاری توتھی ہی مگر بیرون ملک سے پاکستانیوں نے اس شعبہ میں بہت انوسٹ کیاتھا۔جنرل مشرف کے دورمیں حقیقی طورپریہ شعبہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی بن چکاتھا۔ملک میں اگرکسی شعبہ نے کروڑوں لوگوں کا چولہا جلایاتھا،تووہ صرف اور صرف یہی شعبہ تھا۔کافی کادورچلنے لگا۔ جب جمہوری دورآیا،تووزیراعظم اوروزراء اعلیٰ کے پاس اس شعبہ کی معلومات نہ ہونے کے برابرتھیں۔ویسے بھی جنرل مشرف کے دورکونفسیاتی طورپرغلط ثابت کرنے کی دھن بھی تھی۔یہ گرداناگیاکہ اس شعبہ نے توڈکٹیٹرکے زمانے میں ترقی کی ہے۔اسلیے ہمارااس سے کیا لینا دینا۔
بدقسمتی سے،پنجاب میں توریئل اسٹیٹ سیکٹرکومکمل طورپر نظر انداز کر دیاگیا۔سابقہ وزیرخزانہ جواب لندن میں مقیم ہیں۔صوبے کے مالی معاملات،مرکزکی سطح پرجانے سے پہلے بھی وہی چلاتے تھے۔ان سے بات چیت ہوتی تھی تووہ تمام معاملے کوکسی اور طرف لیجاتے تھے۔ جنکا ذکر کرنامناسب نہیں سمجھتا۔ چندبرس پہلے،ایک اورعجیب و غریب سرکاری بحث کا آغاز کردیا گیا۔ انکم ٹیکس کے فائلراورنان فائلرکامسئلہ ایک ایسی نہج پر پہنچایا گیا کہ تمام شعبہ میں خوف کی فضاچھاگئی۔
ریئل اسٹیٹ سے وابستہ لوگوں نے ہرجگہ بات کرنے کی کوشش کی کہ جناب جب جائیدادکی خریدوفروخت کی جاتی ہے تو فائلر کوکم انکم ٹیکس دینا پڑتاہے اورنان فائلرکواس سے دگناٹیکس لگتاہے اوروہ دونوں فریقین اسے پیشگی ادا کرتے ہیں۔ لہذا فائلراورنان فائلر ہونے سے عملی طور پرکوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔مگراس نکتے کو اتنا گھسیٹاگیاکہ لوگوں نے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کوکم کرنا شروع کردیا۔
ایف۔بی۔آرنے جائیدادخریدنے والوں کا ڈیٹا نکلوا کرلوگوں کو نوٹس بھیجنے شروع کردیے۔کسی نے یہ غورنہیں کیا کہ اس شعبہ سے اربوں روپے کاپیشگی ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے۔انھیں مکمل اوربھرپورحکومتی اعتماد ملنا چاہیے۔سابقہ وزیر خزانہ نے ایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت اس شعبہ کو تنقیدکا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ان کی ذاتی شہہ پرسرکاری عمال نے اس شعبہ میں حددرجہ دخل اندازی شروع کردی۔
ہم لوگوں نے منت سماجت کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی مگربات نہ بن پائی۔ کیونکہ اصل معاملہ کچھ اورتھا۔خیرالیکشن ہوا۔خیال تھاکہ نئی جمہوری حکومت ہمارے مسائل حل کریگی۔ہمیں سنے گی۔ مگر یہاں تواس قدرکنفیوژن ہے کہ ہرطرف اعتماد کا فقدان صاف نظرآرہاہے۔چندہفتوں کے لیے،بڑی دانشمندی سے کام لے کر فائلراورنان فائلرکی تمیزکوختم کیا گیا۔معاملات کچھ بہتری کی طرف آنے لگے۔
لوگوں نے اس اُمیدپرسرمایہ کاری کرنی شروع کردی،کہ چلو، اب حکومتی فیصلہ آچکا ہے۔ مگرتعجب کی بات یہ کہ صرف چندہفتے بعد،بعینہ وہی پالیسی لاگوکردی گئی جو سابقہ وزیرخزانہ کے دورکی تھی۔یعنی صرف فائلرہی جائیداد خرید سکتاہے۔نان فائلرکوتواس شعبے سے ویسے ہی دور کردیا گیا۔ چندماہ سے حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے صرف اسی وجہ سے آنا چھوڑدیاہے۔خوف اورڈرکی وجہ سے ساراپیسہ باہر جا رہا ہے۔
ڈالرمیں سرمایہ کاری نہیں بلکہ سٹہ چل رہا ہے۔جس شخص کے پاس تھوڑے سے بھی پیسے ہیں، وہ ڈالرخریدنے میں جُتا ہوا ہے۔یعنی عملی طورپرلوگ سرمایہ کاری کے بجائے ایک ایسی طرف چلنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جسے آپ مہذب زبان میں جوا بھی کہہ سکتے ہیں۔اب تویہ صورتحال ہوچکی ہے،کہ لاہور کے پوش علاقے میں درجنوں گھرمکمل ہوکرفروخت ہونے کاانتظارکررہے ہیں۔کسی قسم کا کوئی خریدار،کسی بھی سطح پر موجود نہیں ہے۔
ہاں،ایک اور بات،پراپرٹی سے منسلک اچھے دفاتر اب اپنے اسٹاف کو نکالنے پرمجبور ہوچکے ہیں کیونکہ اندرونی اخراجات پورے کرنے بھی ناممکن ہیں۔آپ لاہور میں ایک بڑے رئیل اسٹیٹ کے ادارے کے دفترچلے جائیں۔جہاں ماضی میں ڈیڑھ دوسو،پلاٹس یاگھر،مجموعی طورپرٹرانسفرہوتے تھے۔ اب یہ تعدادکم ہوکر،بیس پچیس تک آچکی ہے۔کہنے لگا، کہ پراپرٹی کاسیکٹر،پورے پاکستان کو چلاتا تھا۔ چند غیر دانش مند لوگ اس پورے شعبہ کوبربادکرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ ضرورلکھیں کہ اس شعبہ پرحکومتی توجہ دی جائے اور ان کے مسائل حل کیے جائیں۔
تھوڑی دیرکی گفتگوکے بعد،وہ شخص توواپس چلا گیا۔ مگرمجھے ایک سوچ دے گیاکہ آخرہم معاملات کواسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مفاہمت کے ساتھ طے کیوں نہیں کرتے۔ کیاوجہ ہے کہ اتنااہم شعبہ زوال کا شکار ہے۔ لیکن اس تصویر کادوسرارخ بھی ہے۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں لوگوں نے کھربوں روپے کالین دین کیا۔متعددلوگ حیرت انگیز حد تک متمول ہوگئے۔مگرکسی نے بھی اس اہم ترین شعبے میں افرادی قوت کی استطاعت بڑھانے پرکسی قسم کی انوسٹمنٹ نہیں کی۔
آپ کسی پراپرٹی ڈیلرکے پاس چلے جائیں۔ آپکا واسطہ تقریباًاَن پڑھ لوگوں سے پڑیگا۔ان لوگوں کی اکثر تعداد، آپکوبیوقوف بناکرمنافع درمنافع کماناچاہتی ہے۔ انکو یقین ہوتاہے کہ آپ سے توقع سے زیادہ فائدہ اُٹھائے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ لوگ خریدوفروخت میں وہ اعتماد اور شفافیت نہیں لاسکے،جسکی ایک سرمایہ کارکوضرورت ہوتی ہے۔ بڑے انویسٹرسے لے کرنچلے طبقے کے کسی ڈیلرسے بات کریں آپکوحیرت انگیزحدتک اکثرایسے لوگ نظر آئینگے، جو تہذیب اورشائستگی کے دائرے سے قدرے باہر ہیں۔ اسکو بھی چھوڑدیجیے۔
اربوں روپے کے گھربنانے کی انڈسٹری میں تربیت یافتہ مزدوراورراج ملنے ناممکن ہیں۔ اس نکتے پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی کہ ہم جدید طریقے سے گھر بنانے شروع کریں۔مشینوں کے ذریعے کام لینا سیکھیں۔ اگر مزدورچاہیے،مستری چاہیے، ٹھیکیدار چاہیے توان کی افرادی طورپرتربیت کوفروغ دیں۔ کام کرنے کی استطاعت بڑھائیں۔ عملی طورپر ہمارے راج مزدور، ٹھیکیداراسی قدیم طریقے سے اینٹیں جوڑ رہے ہیں جوصدیوں پہلے ہوتاہے۔
ہماری ورک فورس انتہائی غیرمعیاری ہے۔بہرحال شعبے میں اگر حکومتی تعاون نہیں مل سکاتواس کے اندر دولت کمانے والے لوگوں نے بھی تربیت اورجدیدتحقیق کواپنے شعبہ میں آنے کی اجازت نہیں دی۔عملی طورپرپورے شعبہ کی ساکھ ہی دائو پرلگادی گئی۔مگرمیں اب بھی اس شخص کی کہی ہوئی بات سوچ رہاہوں،کہ رئیل اسٹیٹ کاشعبہ وہ واحد سیکٹر ہے، جو پورے ملک کو چلاتا ہے۔ خدارا سے برباد نہ کیجیے۔
میزکے اس طرف مسائل ہیں اور دوسری طرف میرے جیسے بابو ہیں، جو لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جوبھی بابو، سائلین سے درشتی سے بولتا ہے۔انھیں رولز دکھادکھا کر تڑپاتا ہے۔اسے انتہائی اچھااور قابل افسر سمجھا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے جوبھی سرکاری ملازم، اس منفی روش کو ترک کرکے، عام لوگوں کے مسائل ایمانداری سے حل کرنے کی کوشش کرتاہے۔اس کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اسے نکما ثابت کیا جاتا ہے۔تجربے نے مجھے یہ سکھایاہے کہ جوبھی آپکے پاس آئے اس کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے۔یہی سرکاری ملازمت کاجوہری نکتہ ہے اوریہی انسان دوستی کاواضح ثبوت۔
دفترمیں داخل ہونے والے شخص نے کہاکہ مجھے دس پندرہ منٹ تنہائی میں بات کرنی ہے تاکہ ایک مسئلہ پرتفصیل سے بات کرسکوں۔گفتگوشروع ہوئی۔کہنے لگا میں لاہور میں ریئل اسٹیٹ کے شعبہ سے وابستہ ہوں۔گزشتہ پچیس برس سے جائیدادکی خریدوفروخت کا کام کررہاہوں۔گھربھی بناتا ہوں اورجائزمنافع پر فروخت کردیتاہوں۔جب جنوبی پنجاب سے لاہور آیا تو اوائل عمری کازمانہ تھا۔مگرلاابالی نہیں تھا۔آتے ہی پوش ایریا میں کام شروع کردیا۔آج الحمدللہ پورے لاہورمیں میرے دس کے قریب دفاترہیں۔روزانہ لاکھوں بلکہ کروڑوں کالین دین ہے۔مگراب تھک چکا ہوں۔
تمام دفاتربندکرکے کوئی اورکام شروع کرناچاہتاہوں۔میں نے سوال کیاکہ چلیے،یہ توتعارف ہوگیا۔فرمائیے آنے کی زحمت کیسے کی۔ مہمان،متانت سے کہنے لگاکہ بات کرنے دیجیے۔ابھی مسئلہ کی طرف بھی آتاہوں۔مسئلہ یہ ہے کہ جائیدادکی خریدوفروخت کے شعبہ کی کوئی آواز نہیں۔ مقتدر طبقے تک پہنچنے کاکوئی جائز راستہ بھی موجود نہیں ہے۔اس شعبہ سے لاکھوں نہیں،کروڑوں لوگوں کا روزگاروابستہ ہے۔ مگرکوئی بھی حکومت،اس اہم ترین شعبے کے مسائل پرتوجہ نہیں دیتی۔اسے ایک ایسی گائے سمجھ لیا گیاہے جوچارے کے بغیربھی دودھ دینے پر مجبور ہے۔
دوبارہ سوال کیا۔آپ درست فرمارہے ہیں۔ مگر ان تمام معاملات سے میرا تودور دورکاکوئی واسطہ نہیں۔مہمان دوبارہ کہنے لگاکہ آپکے پاس صرف اس اُمیدسے آیاہوں کہ اگرمیری بات جائز لگے تو اسکوقلمبندضرورکیجیے گا۔بات چیت جاری رہی۔ریئل اسٹیٹ سیکٹرکواصل ترقی پرویزمشرف کے دورمیں ملی تھی۔ عام لوگوں نے بھی جائیدادخریدنے اورفروخت کرنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔
اندرونی سرمایہ کاری توتھی ہی مگر بیرون ملک سے پاکستانیوں نے اس شعبہ میں بہت انوسٹ کیاتھا۔جنرل مشرف کے دورمیں حقیقی طورپریہ شعبہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی بن چکاتھا۔ملک میں اگرکسی شعبہ نے کروڑوں لوگوں کا چولہا جلایاتھا،تووہ صرف اور صرف یہی شعبہ تھا۔کافی کادورچلنے لگا۔ جب جمہوری دورآیا،تووزیراعظم اوروزراء اعلیٰ کے پاس اس شعبہ کی معلومات نہ ہونے کے برابرتھیں۔ویسے بھی جنرل مشرف کے دورکونفسیاتی طورپرغلط ثابت کرنے کی دھن بھی تھی۔یہ گرداناگیاکہ اس شعبہ نے توڈکٹیٹرکے زمانے میں ترقی کی ہے۔اسلیے ہمارااس سے کیا لینا دینا۔
بدقسمتی سے،پنجاب میں توریئل اسٹیٹ سیکٹرکومکمل طورپر نظر انداز کر دیاگیا۔سابقہ وزیرخزانہ جواب لندن میں مقیم ہیں۔صوبے کے مالی معاملات،مرکزکی سطح پرجانے سے پہلے بھی وہی چلاتے تھے۔ان سے بات چیت ہوتی تھی تووہ تمام معاملے کوکسی اور طرف لیجاتے تھے۔ جنکا ذکر کرنامناسب نہیں سمجھتا۔ چندبرس پہلے،ایک اورعجیب و غریب سرکاری بحث کا آغاز کردیا گیا۔ انکم ٹیکس کے فائلراورنان فائلرکامسئلہ ایک ایسی نہج پر پہنچایا گیا کہ تمام شعبہ میں خوف کی فضاچھاگئی۔
ریئل اسٹیٹ سے وابستہ لوگوں نے ہرجگہ بات کرنے کی کوشش کی کہ جناب جب جائیدادکی خریدوفروخت کی جاتی ہے تو فائلر کوکم انکم ٹیکس دینا پڑتاہے اورنان فائلرکواس سے دگناٹیکس لگتاہے اوروہ دونوں فریقین اسے پیشگی ادا کرتے ہیں۔ لہذا فائلراورنان فائلر ہونے سے عملی طور پرکوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔مگراس نکتے کو اتنا گھسیٹاگیاکہ لوگوں نے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کوکم کرنا شروع کردیا۔
ایف۔بی۔آرنے جائیدادخریدنے والوں کا ڈیٹا نکلوا کرلوگوں کو نوٹس بھیجنے شروع کردیے۔کسی نے یہ غورنہیں کیا کہ اس شعبہ سے اربوں روپے کاپیشگی ٹیکس وصول کرلیا جاتا ہے۔انھیں مکمل اوربھرپورحکومتی اعتماد ملنا چاہیے۔سابقہ وزیر خزانہ نے ایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت اس شعبہ کو تنقیدکا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ان کی ذاتی شہہ پرسرکاری عمال نے اس شعبہ میں حددرجہ دخل اندازی شروع کردی۔
ہم لوگوں نے منت سماجت کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی مگربات نہ بن پائی۔ کیونکہ اصل معاملہ کچھ اورتھا۔خیرالیکشن ہوا۔خیال تھاکہ نئی جمہوری حکومت ہمارے مسائل حل کریگی۔ہمیں سنے گی۔ مگر یہاں تواس قدرکنفیوژن ہے کہ ہرطرف اعتماد کا فقدان صاف نظرآرہاہے۔چندہفتوں کے لیے،بڑی دانشمندی سے کام لے کر فائلراورنان فائلرکی تمیزکوختم کیا گیا۔معاملات کچھ بہتری کی طرف آنے لگے۔
لوگوں نے اس اُمیدپرسرمایہ کاری کرنی شروع کردی،کہ چلو، اب حکومتی فیصلہ آچکا ہے۔ مگرتعجب کی بات یہ کہ صرف چندہفتے بعد،بعینہ وہی پالیسی لاگوکردی گئی جو سابقہ وزیرخزانہ کے دورکی تھی۔یعنی صرف فائلرہی جائیداد خرید سکتاہے۔نان فائلرکوتواس شعبے سے ویسے ہی دور کردیا گیا۔ چندماہ سے حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے صرف اسی وجہ سے آنا چھوڑدیاہے۔خوف اورڈرکی وجہ سے ساراپیسہ باہر جا رہا ہے۔
ڈالرمیں سرمایہ کاری نہیں بلکہ سٹہ چل رہا ہے۔جس شخص کے پاس تھوڑے سے بھی پیسے ہیں، وہ ڈالرخریدنے میں جُتا ہوا ہے۔یعنی عملی طورپرلوگ سرمایہ کاری کے بجائے ایک ایسی طرف چلنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جسے آپ مہذب زبان میں جوا بھی کہہ سکتے ہیں۔اب تویہ صورتحال ہوچکی ہے،کہ لاہور کے پوش علاقے میں درجنوں گھرمکمل ہوکرفروخت ہونے کاانتظارکررہے ہیں۔کسی قسم کا کوئی خریدار،کسی بھی سطح پر موجود نہیں ہے۔
ہاں،ایک اور بات،پراپرٹی سے منسلک اچھے دفاتر اب اپنے اسٹاف کو نکالنے پرمجبور ہوچکے ہیں کیونکہ اندرونی اخراجات پورے کرنے بھی ناممکن ہیں۔آپ لاہور میں ایک بڑے رئیل اسٹیٹ کے ادارے کے دفترچلے جائیں۔جہاں ماضی میں ڈیڑھ دوسو،پلاٹس یاگھر،مجموعی طورپرٹرانسفرہوتے تھے۔ اب یہ تعدادکم ہوکر،بیس پچیس تک آچکی ہے۔کہنے لگا، کہ پراپرٹی کاسیکٹر،پورے پاکستان کو چلاتا تھا۔ چند غیر دانش مند لوگ اس پورے شعبہ کوبربادکرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ ضرورلکھیں کہ اس شعبہ پرحکومتی توجہ دی جائے اور ان کے مسائل حل کیے جائیں۔
تھوڑی دیرکی گفتگوکے بعد،وہ شخص توواپس چلا گیا۔ مگرمجھے ایک سوچ دے گیاکہ آخرہم معاملات کواسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مفاہمت کے ساتھ طے کیوں نہیں کرتے۔ کیاوجہ ہے کہ اتنااہم شعبہ زوال کا شکار ہے۔ لیکن اس تصویر کادوسرارخ بھی ہے۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں لوگوں نے کھربوں روپے کالین دین کیا۔متعددلوگ حیرت انگیز حد تک متمول ہوگئے۔مگرکسی نے بھی اس اہم ترین شعبے میں افرادی قوت کی استطاعت بڑھانے پرکسی قسم کی انوسٹمنٹ نہیں کی۔
آپ کسی پراپرٹی ڈیلرکے پاس چلے جائیں۔ آپکا واسطہ تقریباًاَن پڑھ لوگوں سے پڑیگا۔ان لوگوں کی اکثر تعداد، آپکوبیوقوف بناکرمنافع درمنافع کماناچاہتی ہے۔ انکو یقین ہوتاہے کہ آپ سے توقع سے زیادہ فائدہ اُٹھائے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ لوگ خریدوفروخت میں وہ اعتماد اور شفافیت نہیں لاسکے،جسکی ایک سرمایہ کارکوضرورت ہوتی ہے۔ بڑے انویسٹرسے لے کرنچلے طبقے کے کسی ڈیلرسے بات کریں آپکوحیرت انگیزحدتک اکثرایسے لوگ نظر آئینگے، جو تہذیب اورشائستگی کے دائرے سے قدرے باہر ہیں۔ اسکو بھی چھوڑدیجیے۔
اربوں روپے کے گھربنانے کی انڈسٹری میں تربیت یافتہ مزدوراورراج ملنے ناممکن ہیں۔ اس نکتے پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی کہ ہم جدید طریقے سے گھر بنانے شروع کریں۔مشینوں کے ذریعے کام لینا سیکھیں۔ اگر مزدورچاہیے،مستری چاہیے، ٹھیکیدار چاہیے توان کی افرادی طورپرتربیت کوفروغ دیں۔ کام کرنے کی استطاعت بڑھائیں۔ عملی طورپر ہمارے راج مزدور، ٹھیکیداراسی قدیم طریقے سے اینٹیں جوڑ رہے ہیں جوصدیوں پہلے ہوتاہے۔
ہماری ورک فورس انتہائی غیرمعیاری ہے۔بہرحال شعبے میں اگر حکومتی تعاون نہیں مل سکاتواس کے اندر دولت کمانے والے لوگوں نے بھی تربیت اورجدیدتحقیق کواپنے شعبہ میں آنے کی اجازت نہیں دی۔عملی طورپرپورے شعبہ کی ساکھ ہی دائو پرلگادی گئی۔مگرمیں اب بھی اس شخص کی کہی ہوئی بات سوچ رہاہوں،کہ رئیل اسٹیٹ کاشعبہ وہ واحد سیکٹر ہے، جو پورے ملک کو چلاتا ہے۔ خدارا سے برباد نہ کیجیے۔