صارف کب ازخود نوٹس لے گا
یہ تصویر بدل سکتی ہے اگر صارف اپنے حقوق سے آگاہ ہو اور جو دعوی عقل سے ماورا لگے اسے چیلنج کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو۔
بی بی سی کے مطابق برطانیہ کی ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی نے تازہ ترین پابندی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی ٹوتھ پیسٹ کے ایک اشتہار پر لگائی ہے جس کے استعمال سے خراب دانتوں کی فوری مرمت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
اتھارٹی نے اس دعویٰ کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمپنی پابند ہے کہ ایسے کسی بھی دعویٰ کا ٹھوس سائنسی ثبوت فراہم کرے۔ایک اور اشتہار پر اس لیے پابندی لگائی گئی کیونکہ جو ماڈل گرل اشتہار میں بطور نرس ٹوتھ پیسٹ کی خوبیاں بیان کر رہی ہے وہ نرس نہیں اداکارہ ہے۔اتھارٹی نے گذشتہ سات برس میں مختلف وجوہات کی بنا پر اس ملٹی نیشنل کمپنی کے نو اشتہارات پر صارفین کی توجہ دلاؤ شکایات کے سبب پابندی عائد کی ہے۔
اگلے برس جون کے بعد سے برطانیہ میں کوئی ایسا اشتہار شایع یا نشر نہیں ہوگا جس سے کسی جنس کو روایتی انداز میں کمتر دکھایا جائے جیسے کہ عورت مرد کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے کار پارک نہیں کر سکتی یا کسی اشتہار میں مرد کھانا تیار کرنے سے انکار کر دے اور صرف عورت کو ہی کچن میں دکھایا جائے وغیرہ وغیرہ۔
حال ہی میں امریکی ریاست میسوری کی ایک عدالتی جیوری نے جانسن اینڈ جانسن کے بے بی ٹالکم پاؤڈر میں ازبسٹاس کی موجودگی سے ممکنہ طور پر بیضہ دانی کے سرطان سے متاثر بائیس خواتین کے دعوے پر فیصلہ سناتے ہوئے کمپنی کو چار اعشاریہ چھ ارب ڈالر سے زائد ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔اس فیصلے کے سبب اسٹاک مارکیٹ میں جانسن اینڈ جانسن کے شئیرز کی قیمت میں دس فیصد کی فوری کمی دیکھنے میں آئی۔
بھارت میں دو ہزارپندرہ میں نیسلے انڈیا کے انسٹنٹ میگی نوڈلز کو فوری طور پر شیلف سے ہٹانا پڑا جب کمپنی کے دعوؤں کے برعکس نوڈلز میں سیسے کی منظور شدہ مقدار سے کئی گنا زائد سیسے کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔اپنے پرکشش اشتہارات کے سبب جن میں بالی وڈ کے چوٹی کے اداکار لیے جاتے تھے۔ان کے سبب بچوں میں مقبول میگی نوڈل کی فروخت منفی خبر آتے ہی اسی فیصد تک کم ہوگئی۔دو برس کی تگ و دو کے بعد میگی نوڈلز نے رفتہ رفتہ صارفین کا کھویا ہوا اعتماد حاصل تو کر لیا ہے البتہ اس اسکینڈل کے بعد بھارت میں مرکزی و ریاستی فوڈ اینڈ پروڈکٹس اسٹینڈرڈ اتھارٹیز اور انڈین ایڈورٹائزنگ کونسل نے جانچ پڑتال کے نظام اور قواعد و ضوابط کو مزید بہتر بنانے کے لیے کنٹرولز متعارف کروائے ہیں۔
ہم صارفین نوے فیصد اشیا خریدنے کا فیصلہ قیمت کے علاوہ اشتہار ، برانڈ اور کمپنی کا نام دیکھ کر کرتے ہیں۔ مگر ان مصنوعات کے معیارات کے بارے میں طبع شدہ اور زبانی دعوؤں کو جانچنا چونکہ ایک عام صارف کے بس سے باہر ہے لہذا توقع کی جاتی ہے کہ یہ ذمے داری ریاستی و مقامی قوانین اور متعلقہ ادارے پوری کریں۔امریکا،یورپی ممالک،خلیجی ریاستوں میں روزمرہ مصنوعات کا معیار اور اشتہاری دعوؤں کو جانچنے والے ادارے خاصے بااختیار و باوسیلہ ہیں۔کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے ؟
پیمرا نے اگست دو ہزار پندرہ میں جو نشریاتی ضابطہِ اخلاق نافذ کیا۔اس کے سیکشن چودہ کے تحت اشتہاری ضابطہِ اخلاق سے یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ فحاشی ، تشدد ، غیرقانونی و ممنوعہ اشیا، جوئے ، لاٹری ، نشہ آور مشروبات ، سگریٹ ، جادو ٹونے ، توہمات اور مذہبی و قومی منافرت پھیلانے والے اشتہارات نشر کرنا منع ہے نیز بچوں کی مصنوعات کے اشتہارات میں بچوں کو براہ راست مخاطب کر کے انھیں یہ مصنوعات خریدنے کی ترغیب نہیں دی جا سکتی۔مگر جن مصنوعاتی خوبیوں کے دعوے اخباری و نشریاتی اشتہارات میں کیے جاتے ہیں ان کی سائنسی صداقت اور معیار جانچنے کا کام کون سا ادارہ کرتا ہے ؟ اس بابت الگ سے کوئی بااختیار و خود مختار ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی موجود ہے تو اس فقیر کے علم میں بھی اضافہ کیا جائے۔
مثلاً کالے کو گورا کرنے والی کریم یا لوشن کے بارے میں اگر کوئی اشتہار شایع یا نشر ہوتا ہے تو اس کی اجازت کون سا ادارہ کس چھان پھٹک کے بعد دیتا ہے ؟ میں اکثر ایک مشہور بین الاقوامی کمپنی کی جانب سے بالوں کو لمبا کرنے کا دعوی کرنے والے شیمپو کا اشتہار دیکھتا ہوں جس میں سفید گاؤن پہنے ایک خاتون (اللہ جانے یہ ڈاکٹر ہیں یا ماڈل یا بیوٹیشن ) فرما رہی ہے کہ مڈل ایسٹ میں ہونے والی ایک کانفرنس کے ننانوے فیصد شرکا نے تصدیق کی ہے کہ مذکورہ شیمپو میں فلاں فلاں خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ کانفرنس کب اور مڈل ایسٹ میں کہاں ہوئی اور اس میں کن کن سرکردہ یا غیر سرکردہ ماہرین نے شرکت کی ؟ کوئی پوچھنے والا نہ بتانے والا۔
اسی طرح ٹوتھ پیسٹ کے اشتہار میں سفید گاؤن پہنے جو ڈاکٹر صاحب یا لیڈی ڈاکٹر صاحبہ مسوڑھے مضبوط کرنے کے لیے صرف اور صرف راکٹ لمیٹڈ کا پگڈنڈی ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنیکا مشورہ دے رہے ہیں۔کیا کسی متعلقہ مجاز ادارے نے پوچھا کہ یہ ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کہاں کام کرتے ہیں اور ان کی اہلیت کیا ہے؟ بہت سے صابن یہ کہہ کے فروخت کیے جا رہے ہیں کہ ان سے ننانوے فیصد جراثیم ختم ہو جاتے ہیں؟ کیا کوئی بتائے گا کہ وہ ہڈ حرام ایک فیصد جراثیم کون سے ہیں جو کسی صابن سے بھی ختم نہیں ہوتے۔اور یہ ننانوے فیصد جراثیم ختم کرنے کا فتوی کس سائنسی و طبی ادارے سے لیا گیا ہے ؟ کیا مجھ جیسے خبطی یہ فتوی دیکھ سکتے ہیں ؟
اور یہ دعوی کہاں سے آیا کہ کھلا دودھ لازماً مضرِ صحت ہے اور ڈبہ پیک دودھ لازماً صحت مند اور خالص ہے ؟یاچمتکاری ڈیٹرجنٹ پاؤڈر کس طرح وہ سارے ناممکن داغ دھو دیتا ہے جو اس کے علاوہ کوئی ڈیٹرجنٹ پاؤڈر نہیں دھو سکتا؟ کپڑے دھونے کا جو مقابلہ اشتہار میں دکھایا جاتا ہے یہ مقابلہ کہاں منعقد ہوا؟ کیا اس میں صرف اشتہاری ماڈل ہی شریک تھے یا عام شہری اور ناظر بھی اس تماشے میں شامل تھے ؟ اگلا مقابلہ کب ہے ؟
مانا کہ ہمارے ہاں کھلم کھلا مضرِ صحت اشیائے خور و نوش فروخت ہو رہی ہیں،مارکیٹ میں جعلی ادویات کی بھرمار ہے ، کون سی سبزی ، پھل یا گوشت کی کوالٹی کیا ہے اس بابت کچھ کہنا مشکل ہے۔مگر بڑی بڑی اور معروف کمپنیاںاپنی مصنوعات کے بارے میں جو اشتہاری دعوے کر رہی ہیں ؟ کیا وہ سب درست ہیں ؟ ہاں وہ سب درست ہیں؟ اگر ایک بھی دعوی غلط ہوتا تو کبھی تو پکڑ ہوتی۔جب کروڑوں روپے کے اشتہارات کا معاملہ ہو تو ایسے الٹے سیدھے سوالات نہیں اٹھانے چاہئیں ؟ سب اچھا ہے سب خالص ہے۔
یہ تصویر بدل سکتی ہے اگر صارف اپنے حقوق سے آگاہ ہو اور جو دعوی عقل سے ماورا لگے اسے چیلنج کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو۔کوئی جج یا عدالت آخر کتنے ازخود نوٹس لے سکتے ہیں؟ کچھ ازخود نوٹس صارف کو بھی تو لینے چاہئیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)