تعلیمی دائرہ کار شعور اور ترقی کا راز
حقیقی استاد ہیرے تراشنے کا ماہر اور ماہر نفسیات ہوتا ہے جو بچے کی نفسیات و مزاج کو سمجھ کر اسکی منزل کا تعین کرتا ہے
کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیم، نظام تعلیم اور استاد کے جذبے اور جنون میں چھپا ہے اور میرے نزدیک استاد اس نظام کا سب سے اہم ستون ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ استاد کا کردار معاشرے کےلیے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضمن میں یہ بات خاص طور پر مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیچر محض معلومات کا خزانہ ہے اور نہ ہی معلومات کو منتقل کرنے کا کوئی آلہ؛ اور نہ ہی تعلیم ایک ایسی واردات کا نام ہے کہ ایک شخص سامنے کھڑا ہو کر بولتا رہے اور دوسرا چپ چاپ سنتا رہے یا نوٹ کرتا رہے اور نوٹ کرتے کرتے 90 فیصد نمبر حاصل کرکے بھی اپنی عملی زندگی میں ناکامی کا سامنا کرے یا ڈپریشن کا شکار ہو کر معاشرے پر بوجھ بن جائے۔ دراصل یہ ایک غلامانہ نظام تعلیم ہے جس میں فاعل و مفعول یعنی استاد اور شاگرد، دونوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔
بلا شبہ ٹیچرمعاشرے کا اتنا مضبوط کردار ہے کہ اگر یہ چاہے تو نسلوں کو بدل کر رکھ دے۔ دوسری جنگ عظیم کا ایک واقعہ مشہور ہے، ہٹلر کو بتایا گیا کہ ہمارے قیمتی ترین لوگ جنگ میں ضائع ہو رہے ہیں تو اس موقع پر اس نے یہ تاریخی جملہ کہا: ''اگر ہوسکے تو میری قوم کے اساتذہ کو کہیں چھپا لو۔ اگر اساتذہ سلامت رہیں گے تو قیمتی لوگ پھر سے تیار ہوجائیں گے۔''
حقیقی استاد محض پڑھانے کا نہیں بلکہ ہیرے تراشنے کا ماہر ہوتا ہے، وہ ایک ماہر نفسیات اور روحانی ماں/ باپ ہوتا ہے جو بچے کی نفسیات اور مزاج کو سمجھ کر اس کی منزل کا تعین کرتا ہے۔ دورحاضرمیں اس بات پر بہت بحث ہورہی ہے کہ تعلیمی معاملات میں بچے کے فطری رحجان کو سمجھے بغیر والدین اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اپنی تعلمی منازل طے کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً انہیں اپنی معاشی اور معاشرتی زندگی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس ضمن میں برہان الدین زرنوجی اپنی کتاب ''تعلیم المتعلم'' میں آج سے تقریباً ساڑھے سات سو سال پہلے اس مسئلے کا حل دے چکے ہیں کہ بچے کے مضامین کا تعین اساتذہ اس کے مزاج اور استعداد کو سامنے رکھ کر کریں۔ یعنی مضامین کا تعین اساتذہ، بچے کے ساتھ مشاورت سے کریں گے۔ اس طرح کیے ہوئے انتخاب سے معلم اور متعلم، دونوں مطمئن ہوں گے اور حقیقی کامیابی کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
آج محض 90 فیصد نمبروں والی تعلیم نہیں بلکہ فکر انگیز تعلیم کی ضرورت ہے، عملی طور پر کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا کرنے والی تعلیم کی ضرورت ہے۔ بحث، مکالمہ اور تنقیدی صلاحیت پیدا کرنے والی تعلیم کی ضرورت ہے، تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے والی تعلیم کی ضرورت ہے، اپنے لیے واضح منزل کے تعین اور اس کے حصول کےلیے منصوبہ بندی کی صلاحیت پیدا کرنے والی تعلیم کی ضرورت ہے، مجرد علم کی بجائے ادراک یعنی مستقل آگاہی والی تعلیم کی ضرورت ہے؛ اور اس مقصد کا حصول موجودہ نظام تعلیم میں بھی ممکن ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ استاد حقیقی شعور بانٹنے کے جذبے سے سرشار ہوجائے۔ اگر استاد، طالب علم کے اندر شعور کا بیج بونے اور تعلیمی مقاصد کا ادراک کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو طالب علم کو زندگی کے کسی بھی امتحان میں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
گاندھی جی اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ میرے والد کی اسکول کی تعلیم کوئی قابل ذکر نہیں تھی مگر وہ پیچیدہ ترین مسائل کو سلجھانے اور ایک وقت میں لوگوں کی بہت بڑی ٹیم سے کام لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ اسی طرح ایک معروف انڈین ٹرینر کا کہنا ہے کہ میری روایتی تعلیم صرف انٹرمیڈیٹ ہے مگر میں دنیا کے نوے ملکوں کے کالجز اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کو تربیت دیتا ہوں، دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیوں کی مینجمنٹ کو ٹریننگز دیتا ہوں۔ مطلب یہ کہ اگر کسی کو کامیابی کا شعور، ادراک اور جنون مل جائے تو وہ ہر صورت میں کامیاب ہو کر رہے گا۔
بالفاظ دیگر، قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کےلیے نظام تعلیم میں تبدیلیوں کے بجائے اساتذہ کے کردار پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر استاد طلبہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ جھوٹ کا نتیجہ تباہی اور سچ کا کامیابی کے سوا کچھ نہیں۔ قرآن کی زبان میں طعنہ زنی، غیبت، حسد، بغض اور دوسرے رذائل تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے اور کامیابی اس کے برعکس عمل میں پوشیدہ ہے۔ تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی یا یوں کہہ لیجیے کہ طالبعلم کو ابراہام لنکن کے خط کے مطابق (جو اس نے اپنے بیٹے کے اساتذہ کو لکھا تھا) یہ باور کرادیا جائے کہ دھوکے اور فریب سے حاصل کی ہوئی کامیابی سے ناکامی کہیں بہتر ہے، اس نے مزید لکھا کہ میرے بیٹے کے کردار میں وہ عظمت اور قوت اجاگر کردیجیے کہ وہ بھیڑ چال سے محفوظ رہے جب لوگ ابھرتے دیوتا کے رتھ میں سوار ہونے کےلیے بے تاب ہوں۔ اس میں ہر بات کو سننے کا حوصلہ ہو مگر تمام باتوں کو صداقت کی چھلنی میں چھان کر صرف سچ کو سینے سے لگانے کی صلاحیت بدرجہ اتم پیدا کردیجیے۔ مزید لکھا کہ میرے بیٹے کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے مگر لاڈ پیار سے نہیں۔ اس میں بے قرار ہونے کی تڑپ اور حوصلہ ہونا چاہیے۔ خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر اس کے اندر بھر دیجیے، تبھی اسے بنی نوع انسان پر اعتماد کرنا نصیب ہو گا اور یہی حقیقی تعلیم کا حاصل ہے۔
بس آج بھی یہی کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے حصول کےلیے استاد کے جذبے اور جنون کی اشد ضرورت ہے۔ ملک، قوم اور اقبال کے شاہینوں کو بلندی اور ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنے کا جنون۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بلا شبہ ٹیچرمعاشرے کا اتنا مضبوط کردار ہے کہ اگر یہ چاہے تو نسلوں کو بدل کر رکھ دے۔ دوسری جنگ عظیم کا ایک واقعہ مشہور ہے، ہٹلر کو بتایا گیا کہ ہمارے قیمتی ترین لوگ جنگ میں ضائع ہو رہے ہیں تو اس موقع پر اس نے یہ تاریخی جملہ کہا: ''اگر ہوسکے تو میری قوم کے اساتذہ کو کہیں چھپا لو۔ اگر اساتذہ سلامت رہیں گے تو قیمتی لوگ پھر سے تیار ہوجائیں گے۔''
حقیقی استاد محض پڑھانے کا نہیں بلکہ ہیرے تراشنے کا ماہر ہوتا ہے، وہ ایک ماہر نفسیات اور روحانی ماں/ باپ ہوتا ہے جو بچے کی نفسیات اور مزاج کو سمجھ کر اس کی منزل کا تعین کرتا ہے۔ دورحاضرمیں اس بات پر بہت بحث ہورہی ہے کہ تعلیمی معاملات میں بچے کے فطری رحجان کو سمجھے بغیر والدین اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اپنی تعلمی منازل طے کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً انہیں اپنی معاشی اور معاشرتی زندگی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس ضمن میں برہان الدین زرنوجی اپنی کتاب ''تعلیم المتعلم'' میں آج سے تقریباً ساڑھے سات سو سال پہلے اس مسئلے کا حل دے چکے ہیں کہ بچے کے مضامین کا تعین اساتذہ اس کے مزاج اور استعداد کو سامنے رکھ کر کریں۔ یعنی مضامین کا تعین اساتذہ، بچے کے ساتھ مشاورت سے کریں گے۔ اس طرح کیے ہوئے انتخاب سے معلم اور متعلم، دونوں مطمئن ہوں گے اور حقیقی کامیابی کا حصول ممکن ہو سکے گا۔
آج محض 90 فیصد نمبروں والی تعلیم نہیں بلکہ فکر انگیز تعلیم کی ضرورت ہے، عملی طور پر کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا کرنے والی تعلیم کی ضرورت ہے۔ بحث، مکالمہ اور تنقیدی صلاحیت پیدا کرنے والی تعلیم کی ضرورت ہے، تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے والی تعلیم کی ضرورت ہے، اپنے لیے واضح منزل کے تعین اور اس کے حصول کےلیے منصوبہ بندی کی صلاحیت پیدا کرنے والی تعلیم کی ضرورت ہے، مجرد علم کی بجائے ادراک یعنی مستقل آگاہی والی تعلیم کی ضرورت ہے؛ اور اس مقصد کا حصول موجودہ نظام تعلیم میں بھی ممکن ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ استاد حقیقی شعور بانٹنے کے جذبے سے سرشار ہوجائے۔ اگر استاد، طالب علم کے اندر شعور کا بیج بونے اور تعلیمی مقاصد کا ادراک کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو طالب علم کو زندگی کے کسی بھی امتحان میں کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
گاندھی جی اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ میرے والد کی اسکول کی تعلیم کوئی قابل ذکر نہیں تھی مگر وہ پیچیدہ ترین مسائل کو سلجھانے اور ایک وقت میں لوگوں کی بہت بڑی ٹیم سے کام لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ اسی طرح ایک معروف انڈین ٹرینر کا کہنا ہے کہ میری روایتی تعلیم صرف انٹرمیڈیٹ ہے مگر میں دنیا کے نوے ملکوں کے کالجز اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کو تربیت دیتا ہوں، دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیوں کی مینجمنٹ کو ٹریننگز دیتا ہوں۔ مطلب یہ کہ اگر کسی کو کامیابی کا شعور، ادراک اور جنون مل جائے تو وہ ہر صورت میں کامیاب ہو کر رہے گا۔
بالفاظ دیگر، قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کےلیے نظام تعلیم میں تبدیلیوں کے بجائے اساتذہ کے کردار پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر استاد طلبہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ جھوٹ کا نتیجہ تباہی اور سچ کا کامیابی کے سوا کچھ نہیں۔ قرآن کی زبان میں طعنہ زنی، غیبت، حسد، بغض اور دوسرے رذائل تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے اور کامیابی اس کے برعکس عمل میں پوشیدہ ہے۔ تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی یا یوں کہہ لیجیے کہ طالبعلم کو ابراہام لنکن کے خط کے مطابق (جو اس نے اپنے بیٹے کے اساتذہ کو لکھا تھا) یہ باور کرادیا جائے کہ دھوکے اور فریب سے حاصل کی ہوئی کامیابی سے ناکامی کہیں بہتر ہے، اس نے مزید لکھا کہ میرے بیٹے کے کردار میں وہ عظمت اور قوت اجاگر کردیجیے کہ وہ بھیڑ چال سے محفوظ رہے جب لوگ ابھرتے دیوتا کے رتھ میں سوار ہونے کےلیے بے تاب ہوں۔ اس میں ہر بات کو سننے کا حوصلہ ہو مگر تمام باتوں کو صداقت کی چھلنی میں چھان کر صرف سچ کو سینے سے لگانے کی صلاحیت بدرجہ اتم پیدا کردیجیے۔ مزید لکھا کہ میرے بیٹے کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے مگر لاڈ پیار سے نہیں۔ اس میں بے قرار ہونے کی تڑپ اور حوصلہ ہونا چاہیے۔ خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر اس کے اندر بھر دیجیے، تبھی اسے بنی نوع انسان پر اعتماد کرنا نصیب ہو گا اور یہی حقیقی تعلیم کا حاصل ہے۔
بس آج بھی یہی کرنے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے حصول کےلیے استاد کے جذبے اور جنون کی اشد ضرورت ہے۔ ملک، قوم اور اقبال کے شاہینوں کو بلندی اور ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنے کا جنون۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔