ہتھکڑیوں میں جکڑے معلم کی لاش اور زنجیروں میں جکڑا سماج

ایک معلم کی لاش پر بین کرنے سے کسی کو کیا فائدہ؟ اب تو نوحے بھی سود و زیاں دیکھ کر پڑھے جاتے ہیں

ایک معلم کی لاش پر بین کرنے سے کسی کو کیا فائدہ؟ اب تو نوحے بھی سود و زیاں دیکھ کر پڑھے جاتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ وہ بدنصیب سماج ہے جسے اپنے قاتل اور مسییحا کے درمیان فرق بھی معلوم نہیں۔ یہاں جہل ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے اور علم و شعور کوچہ کوچہ آبلہ پا پھرتا ہے۔ نیب کی حراست میں سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر میاں جاوید کی ہتھکڑی لگی لاش اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہمارا سماج آج بھی ایک چار بائی چار کی کوٹھڑی میں ہتھکڑیوں سمیت قید، اپنے ہی تعفن کی بدبو سے متلی کر رہا ہے۔

شاید خبروں میں کچھ دیر ایک معلم کی ہتھکڑی لگی لاش دکھائی دے گی، اس پر تبصرے ہوں گے اور پھر کسی نئے سانحے یا نئی خبر کی تلاش اور اس پر تبصرے شروع ہوجائیں گے۔ البتہ اس معلم کی ہتھکڑیوں میں لپٹی لاش ایک اور بدنما خراش بن کر سماج کے اس مصنوعی چہرے کے میک اپ تلے موجود رہے گی جسے ناخداؤں نے انتہائی محنت سے اس زخم خوردہ چہرے کو چھپانے کےلیے سماج پر تھوپا ہے۔ امید ہے کہ پروفیسر میاں جاوید کی لاش تک کو نہ بخش کے راؤ انوار جیسے اجرتی قاتل اور پرویز مشرف جیسے غاصب کی ''بے حرمتی'' کا بدلہ سماج سے لے کر ناخداؤں کے دل میں ٹھنڈک پڑگئی ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماج میں اس قدر بے حسی کیوں کر سرایت کرچکی ہے کہ یہاں ایک معلم کے اس قدر بھیانک انجام پر بھی قبرستان جیسا سناٹا جاری ہے؟ کہتے ہیں کہ زندگی بعض اوقات صدائیں دیتی رہتی ہے، اپنی نغمگی اور حلاوتوں کی جانب بلاتی ہے، لیکن سماعتوں سے محروم افراد اور سماج اس کی صداؤں کو سننے سے محروم رہتے ہیں۔

کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ بطور سماج ہم بھی بصارت اور سماعتوں سے محروم، بس ناک کی سیدھ میں چلنے کو زندگی تصور کیے بیٹھے ہیں۔ اپنی اپنی اناؤں کی قید میں مقید اور اپنے اپنے خداؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی لگن میں اس سماج کو شاید ہم سب نے مل کر جہنم میں تبدیل کر ڈالا ہے۔ ایسا جہنم جہاں نفرت کے الاؤ پر ہاتھ سینکے جاتے ہیں اور برف سے سرد جذبات میں منجمد احساس کو تیاگ کر دوسروں کو کچل کر آگے نکلنے کے مواقع نکالے جاتے ہیں۔ ایسے مفاد پرست سماج کو بھیڑ بکریوں کی مانند ایک مخصوص سمت میں جھونک کر اپنے مفادات حاصل کرنا ہمیشہ سے ہی ناخداؤں کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔ کبھی وردی میں ملبوس آمر اس بٹے ہوئے سماج کو ڈنڈے کے زور پر اپنی مرضی کی سمت میں دھکیلتا ہے تو کبھی جمہوریت کے نام پر کوئی کٹھ پتلی آکر سماج میں بسنے والے افراد کو ایک سراب کے تعاقب میں مصروف کروا دیتی ہے۔ گزشتہ اکہتر برسوں سے سماج کو شب کی تاریکی سے ڈرا کر اس پر ایک طویل اور ظلمت پر مبنی شب مسلط کر دی گئی ہے اور اس کے اندھیروں کو روشنی کا نام دے دیا گیا ہے۔

اب اس تاریکی شب کو بحکم سرکار سحر کہنے والوں کےلیے تو سماج میں پنپنے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس شب کی ظلمت اور سیاہیوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے سحر کو کھوجنے والے افراد اس سماج کو قبول نہیں۔ سماج کے ناخداؤں نے ذات پات، مذہب، فرقہ بندی، قوم پرستی، اسلاف پرستی، کفر اور غداری کی اسناد بانٹنے کے چھوٹے چھوٹے ایسے بت بنا رکھے ہیں جن کے پجاریوں کو ان بتوں آگے سجدہ کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ایسے نابیناؤں کے شہر میں آئینے بیچنے والے گو اپنے ہی وقت اور توانائیوں کا زیاں کرتے ہیں، لیکن سماج کے ناخداؤں کو یہ بھی منظور نہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ سماج میں صرف ان ہی کے تخلیق کردہ بتوں کو پوجنے والے پجاری پیدا ہوں اور سرتسلیم خم نہ کرنے والوں کو ہمیشہ کےلیے سماج بدر کر دیا جائیے۔ یہی وجہ ہے کہ خاموشی اور عیاری کے ساتھ بتوں کو تبدیل کرکے سماج کو انقلاب کی نوید سنائی جاتی ہے۔ اس تاریکی کو سماج پر مسلط کرنے میں ہمارے دانشوروں اور صحافیوں نے ہمیشہ ہی ناخداؤں کا ساتھ دیا ہے۔

فیض، جالب، منٹو، امرتا پریتم، فہمیدہ ریاض اور افتخار عارف جیسے زرخیز اور حق گو اذہان کی بستی کو قحط الرجال کا شکار بناتے ہوئے اسے بنجر بنانے میں ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ حروف جب مصلحتوں کا شکار ہوجائیں اور افکار جب چند کھنکتے سکوں اور آسائشات کی تگ و دو میں زنگ آلود ہوجائیں تو نتیجتاً سماج کی فکری نشوونما کا عمل رک جاتا ہے اور شعور بلوغت کی منازل طے کرنے کے بجائے پالنے میں آنکھیں موندے پڑا رہتا ہے۔ سعادت حسن منٹو کہتا تھا کہ کسی انسان کی فطرت کو مار دینا اسے قتل کرنے سے بھی بڑا جرم ہے اور یہاں تو سارے کے سارے سماج کی فطرت کو کچل دیا گیا ہے۔ احساس کی موت سب سے بڑا سانحہ اور دکھ ہوا کرتی ہے؛ اور ہمارے سماج سے احساس ہی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اموات اب محض چٹپٹی خبروں اور مباحثوں کا باعث بنتی ہیں، انسانی حقوق کی پامالیاں اور اقلیتوں پر مظالم نوحے پڑھنے کے کام آجاتے ہیں اور کٹھ پتلیوں کو سماج ہر مسلط کیے جانے کا عمل انقلاب پر مباحث کو جنم دیتا ہے۔


کیا دائیں بازو اور کیا بائیں بازو کے دانشور اور صحافی، سبھی اپنے اپنے ناخداؤں کی تعظیم و تکریم کرتے سماج کی بنیادوں کو اندھی تقلید کی روش کے گارے سے پروان چڑھوانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ نتیجتاً ناخداؤں کو سماج کے فکری استحصال کرنے میں کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بالخصوص گزشتہ دو دہائیوں سے علم و ادب اور صحافت کے میدانوں میں چھائے جمود نے اس استحصال کو مزید آسان بنانے میں معاونت فراہم کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں، بنیادی حقوق کا سلب ہو جانا، انصاف، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے میسر نہ آ پانے میں ہمارا شمار سرفہرست قوموں میں ہونے کے باوجود ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بلکہ، اس کے برعکس، اپنی ان کوتاہیوں اور کمیوں پر پردہ پوشی کا درس دیتے ہوئے ڈھٹائی اور خود فریبی کا استعمال کرتے ہوئے سماج کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ دنیا کی جدید تہذیب دراصل ہمارے کھوکھلے سماج سے نالاں ہے اور ہمارے خود فریبی کے شکار سماج کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس مفروضے پر من و عن ایمان لانے والوں کےلیے ناخداؤں کی جانب سے انعام و اکرام اور نوازشوں کی بارشیں برسائی جاتی ہیں جبکہ اس خود ساختہ اور من گھڑت بیانیے کو سماج کےلیے زہر قاتل قرار دینے والوں کےلیے حیات وبال جاں بنا دی جاتی ہے۔ ایسے میں کم ہمت اور آسائشوں کے طلبگار ادیب، دانشور، مفکر اور صحافی، ان ناخداؤں کے در پر بیعت کرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں اور اس شعبے کی اصل روح یعنی ایک پل صراط کی مانند پرخار راستے پر کلمہ حق کہنے کے بجائے اپنے فرائض سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ سماج کے دیگر پیشہ جات سے وابستہ افراد بھی بقول جون ایلیا ''عمر گزار دیجیے، عمر گزار دی گئی'' کے مصداق سر جھکا کر حبس کے موسم میں عمریں بِتا دیتے ہیں۔

زندگی کی خوشیوں، مسرتوں اور قہقہوں کو گناہ ثواب اور حلال و حرام کے پلڑے میں تولنے کا درس دینے والے ناخداؤں کی اپنی ساری عمر اِن سے مستفید ہونے میں گزر جاتی ہے لیکن سماج کو گناہ و ثواب کے چکر میں ڈال کر انہیں آفاقی معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر ان مسرتوں اور نغمگیوں سے میلوں دور مویشیوں کے ریوڑ کی مانند کبھی مذہب اور کبھی اخلاقیات کی لاٹھی سے ہانک کر دنیا کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اگر یہ لاٹھی اور ڈنڈا نہ ہو تو یہ جانور بے قابو ہو کر کسی کو بھی نگل جائیں گے۔ الفاظ اور افکار کے سوداگروں کی خیانت کی بدولت سماج کی اکثریت زندگی سے کوسوں دور ایک دوسرے سے ذات پات عقیدے، مذہب، مسلک، سیاسی اختلاف اور اختلاف رائے کو لے کر دست گریباں ہے۔ ناخداؤں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں کہ انہیں فکری طور پر بانجھ سماج کو قید رکھنے میں کسی بھی قسم کی مشکل درپیش نہیں۔ سمے کا دھارا ہولے ہولے چلتا جا رہا ہے، زندگی صدائیں دے رہی ہے کہ آؤ! مرنے سے پہلے بار بار نہ مرو اور مجھے تھام کر میرے ساتھ محبت، امن اور انسان دوستی کے نغموں کی دھن پر رقص کرو۔

لیکن سماج میں زندگی کی صدائیں سننے والا کوئی بھی نہیں کہ پہرہ داروں نے تعصب، نرگسیت اور گناہ و ثواب کی اس قدر بلند فصیلیں کھڑی کر ڈالی ہیں کہ جن کی موجودگی میں زندگی کی یہ صدائیں سماج میں بسنے والوں کی سماعتوں اور بصیرتوں تک پہنچنے ہی نہیں پا رہی ہیں۔

ایسے میں پروفیسر میاں جاوید کی چیخیں مارتی لاش کی دُہائیاں کون سنے اور کیوں سنے؟ بھلا ایک معلم کی لاش پر بین کرنے سے کسی کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اب تو نوحے اور دکھ بھی سود و زیاں دیکھ کر پڑھے اور بانٹے جاتے ہیں۔ پروفیسر میاں جاوید! تمہارا جرم یہ تھا کہ تم اس سماج میں پیدا ہوئے جو علم و آگہی کے اجالوں سے نفرت کرتا ہے اور جہاں افکار کی خوشبو سے زیادہ بندوقوں اور بارود کی بدبو سے پیار کیا جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئیٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story