پروفیسر جاوید کی ہتھکڑی لگی لاش تحقیقات میں ملبہ پولیس سپاہیوں پر گرادیا گیا
ہیڈکانسٹیبل اعظم، کانسٹیبل عمران اور خلیل نے اسپتال میں پروفیسر جاوید کو ہتھکڑی لگائی، ڈی آئی جی جیل خانہ جات کی رپورٹ
سرگودھا یونیورسٹی کے سی ای او پروفیسر جاوید کی ہتھکڑی میں موت کی تحقیقاتی رپورٹ میں سارا ملبہ پولیس سپاہیوں پر گرادیا گیا ہے۔
سرگودھا یونیورسٹی کے غیر قانونی کیمپسز کھولنے کے الزام میں گرفتار چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) پروفیسر میاں جاوید کی وفات کے وقت ہتھکڑیاں لگیں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیا تھا اور واقعے کی رپورٹ طلب کی تھی۔
ڈی آئی جی جیل خانہ جات لاہور ریجن ملک مبشر نے پروفیسر میاں جاوید کی ہتھکڑیوں میں موت کے معاملے کی ابتدائی انکوائری رپورٹ جاری کر دی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل حکام نے میاں جاوید کو بغیر ہتھکڑی پولیس کے حوالہ کیا، میاں جاوید کو پولیس کی ہتھکڑیاں لگی ہیں جیل حکام کے پاس ہتھکڑیاں نہیں، ریسکیو حکام نے بھی بیان دیا ہے کہ جیل سے میاں جاوید کو بغیر ہتھکڑیاں لایا گیا، ہیڈ کانسٹیبل محمد اعظم، کانسٹیبل عمران اور کانسٹیبل خلیل نے اسپتال کی ایمرجنسی میں ہتھکڑیاں لگائیں۔ ہیڈ کانسٹیبل محمد اعظم نے بیان دیا کہ افسران کا حکم اور ایس او پی ہے کہ مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر ہتھکڑی نہیں اتاری جائے گی۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ میاں جاوید کا پوسٹ مارٹم میاں منشی اسپتال میں ہوا، پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی گئی، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میاں جاوید کی موت ہارٹ اٹیک کے باعث ہوئی، ان کے جسم پر تشدد کے کوئی نشان موجود نہیں۔
نیب وضاحت
نیب کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ میاں جاوید پروفیسر یا ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ لاہور کیمپس کے مالک (بزنسمین) تھے، جیل حکام کے زیر تحویل تمام ملزمان کے مکمل معاملات جیل انتظامیہ کے سپرد ہوتے ہیں، اس میں نیب کا کسی قسم کا عمل دخل نہیں کیونکہ عدالت کی جانب سے جوڈیشل کسٹڈی سے مراد ملزمان کو جوڈیشل حکام کے حوالے کرنا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : درسگاہ بنانے کے ''جرم'' میں قید پروفیسر زندگی سے آزاد
واضح رہے کہ نیب نے سرگودھا یونیورسٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) میاں جاوید کو یونیورسٹی کے غیر قانونی کیمپسز کھولنے کے الزام میں رواں برس اکتوبر میں گرفتار کیا تھا۔ کیمپ جیل لاہور میں طبیعت خراب ہونے پر انہیں سروسز اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دم توڑ گئے تھے۔ شدید خراب حالت اور وفات کے بعد بھی میاں جاوید کے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں نہیں کھولی گئیں، میاں جاوید کی لاش کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
سرگودھا یونیورسٹی کے غیر قانونی کیمپسز کھولنے کے الزام میں گرفتار چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) پروفیسر میاں جاوید کی وفات کے وقت ہتھکڑیاں لگیں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے نوٹس لیا تھا اور واقعے کی رپورٹ طلب کی تھی۔
ڈی آئی جی جیل خانہ جات لاہور ریجن ملک مبشر نے پروفیسر میاں جاوید کی ہتھکڑیوں میں موت کے معاملے کی ابتدائی انکوائری رپورٹ جاری کر دی، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل حکام نے میاں جاوید کو بغیر ہتھکڑی پولیس کے حوالہ کیا، میاں جاوید کو پولیس کی ہتھکڑیاں لگی ہیں جیل حکام کے پاس ہتھکڑیاں نہیں، ریسکیو حکام نے بھی بیان دیا ہے کہ جیل سے میاں جاوید کو بغیر ہتھکڑیاں لایا گیا، ہیڈ کانسٹیبل محمد اعظم، کانسٹیبل عمران اور کانسٹیبل خلیل نے اسپتال کی ایمرجنسی میں ہتھکڑیاں لگائیں۔ ہیڈ کانسٹیبل محمد اعظم نے بیان دیا کہ افسران کا حکم اور ایس او پی ہے کہ مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر ہتھکڑی نہیں اتاری جائے گی۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ میاں جاوید کا پوسٹ مارٹم میاں منشی اسپتال میں ہوا، پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثا کے حوالے کردی گئی، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میاں جاوید کی موت ہارٹ اٹیک کے باعث ہوئی، ان کے جسم پر تشدد کے کوئی نشان موجود نہیں۔
نیب وضاحت
نیب کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ میاں جاوید پروفیسر یا ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ لاہور کیمپس کے مالک (بزنسمین) تھے، جیل حکام کے زیر تحویل تمام ملزمان کے مکمل معاملات جیل انتظامیہ کے سپرد ہوتے ہیں، اس میں نیب کا کسی قسم کا عمل دخل نہیں کیونکہ عدالت کی جانب سے جوڈیشل کسٹڈی سے مراد ملزمان کو جوڈیشل حکام کے حوالے کرنا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : درسگاہ بنانے کے ''جرم'' میں قید پروفیسر زندگی سے آزاد
واضح رہے کہ نیب نے سرگودھا یونیورسٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) میاں جاوید کو یونیورسٹی کے غیر قانونی کیمپسز کھولنے کے الزام میں رواں برس اکتوبر میں گرفتار کیا تھا۔ کیمپ جیل لاہور میں طبیعت خراب ہونے پر انہیں سروسز اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دم توڑ گئے تھے۔ شدید خراب حالت اور وفات کے بعد بھی میاں جاوید کے ہاتھوں سے ہتھکڑیاں نہیں کھولی گئیں، میاں جاوید کی لاش کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔