مقتدیٰ منصور دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

انھیں بطور سنجیدہ تجزیہ کار اور فکرانگیز کالم نویس کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔


Editorial December 23, 2018
انھیں بطور سنجیدہ تجزیہ کار اور فکرانگیز کالم نویس کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ فوٹو: فائل

سینئر صحافی،ادیب، نقاد، محقق اور ایکسپریس کے کالم نگار مقتدیٰ منصور 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، انھیں سپرہائی وے صنعتی ایریا، احسن آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، وہ کچھ عرصہ سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے گزشتہ ماہ دل کا آپریشن در آپریشن ہوا تھا جس کے بعد وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو سکے۔عارضہ قلب جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کی نماز جنازہ بعد نماز جمعہ مسجد بلال، گلشن معمار میں ادا کی گئی، نمازجنازہ میں معروف سیاسی، سماجی، ادبی اور صحافتی شخصیات نے بڑی تعدادمیں شرکت کی۔

مقتدیٰ منصور جب امراض قلب کے اسپتال جا رہے تھے تو انھوں نے ایکسپریس آفس خود فون کر کے اطلاع دی کہ وہ آج کارڈیو ویسکولر اسپتال جا رہے ہیں، وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ایکسپریس سے طویل وابستگی پر وہ اپنا کالم بھی بھیج رہے ہیں، ان کے پر اعتماد لہجے اور گفتگوسے کہیں اس بات کا عندیہ نہیں ملا کہ وہ ہم سے بچھڑنے والے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یوجے)، کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) کے عہدے داران و ارکان نے مقتدیٰ منصور کے انتقال پر تعزیت کا اظہار اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی۔

صوبائی مشیر اطلاعات، قانون واینٹی کرپشن سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب نے بھی مقتدیٰ منصور کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہے۔ مقتدیٰ 1998میں ایکسپریس کے آغاز سے ہی ادارے سے منسلک ہو گئے تھے، مقتدیٰ منصور کے تحریر کردہ کالم صدائے جرس کو عوامی مقبولیت حاصل تھی، 25 سال سے زائد عرصے تک پاکستان پریس فاؤنڈیشن سے وابستہ رہے، انھوں نے بنیادی انسانی حقوق اور صحافتی آزادی کے حوالے سے سیکڑوں کالم تحریر کیے، شہر کی مختلف جامعات میں بطور لیکچرار بھی خدمات انجام دے رہے تھے، کئی کتابوں کے مصنف تھے، مختلف ٹی وی چینلز پر مقتدیٰ منصور کو بطور تجزیہ کار مدعو کیا جاتا تھا۔

مقتدیٰ منصور ایک نجی چینل پر باقاعدہ ٹاک شو بھی کرتے تھے، وہ فن تحریر اور ٹی وی ٹاک کے سیاق وسباق میں اپنی الگ شناخت رکھتے تھے، ملک کو درپیش سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل پر ان کا طرز استدلال دل نشیں ہوتا تھا۔ مرحوم بے حد خلیق، وضع دار اور انسان دوست تھے۔ انھیں بطور سنجیدہ تجزیہ کار اور فکرانگیز کالم نویس کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔