یہ تم نے کیا کیا لوگو
ہمارے ارباب اختیارکو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم اس زمین یا مٹی پر چلتے ہیں تو یہ ہماری اوقات یاد دلاتی ہے۔
یہ ایک کھلی سچائی ہے کہ غلط وقت پر کیا گیا درست فیصلہ بھی بعض اوقات نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ریاستی اداروں کا تجاوزات اور لینڈ مافیا کے خلاف کیا جانے والا اقدام بھی غلط وقت پرکیا گیا ہے کیونکہ ہمارے ہاں معیشت پہلے ہی سے اپنی سانسیں گن رہی ہے، بھوک، غربت، افلاس، بیروزگاری حدوں سے تجاوز کرچکی ہے۔
دوسری طرف کرپشن کے سرخیل اب تک عدالتوں سے ضمانت قبل ازگرفتاری لیے بیٹھے ہیں لیکن بے بس اورکمزوروں کی گردن یہی قانون توڑنے کے درپے ہے۔ لوگ بیروزگاری اور مہنگائی کے ساتھ زندگی کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث ذہنی اور نفسیاتی دباؤکا شکار ہیں ۔
حالیہ املاک یا تجاوزات کے انہدام سے بیشتر لوگوں کی زندگیاں اس نہج پر پہنچ گئی ہیں کہ وہ مرنے کو جینے سے آسان سمجھنے لگے ہیں، سیکڑوں لوگ اپنے روزگارکے ختم ہو جانے سے دل اور ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہوکر اسپتالوں میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ بجا کہ ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے لیکن اس سے بھی زیادہ کرپشن اور وسائل کا غلط استعمال ملک کے حالات کو نہ صرف خراب بلکہ اس کے وجود کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ لینڈ مافیا یا تجاوزات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ پاکستان کی لیکن لینڈ مافیا سرگرم ہوکر پھلی پھولی تو یہ سب حکومتی یا ریاستی اداروں اور ان کے اہلکاروں کی پشت پناہی سے ہی تو ممکن ہوا۔
سندھ کے اس دور کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے دور حکومت میں سندھ اور کراچی میں خوب خوب سرکاری اور غیر سرکاری جگہوں کو مال غنیمت سمجھ کر ہتھیایا گیا اور اس کے بعد ایک لسانی تنظیم کے قائد کے کہنے یا آشیرواد سے چائنا کٹنگ کی اصطلاح عام ہوئی لیکن پھر بھی لوگوں کی غالب اکثریت نے پولیس، بلڈرز، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سی ڈی اے کے ڈی اے، کے ایم سی وغیرہ کو ٹیکس یا پیسے دے کر وہ جگہیں حاصل کی تھیں۔
جس دور میں یہ سب کا سب ناجائز جائز اور حلال سمجھ کر ہڑپ کیا جا رہا تھا اس وقت قانون اور ریاست کہاں تھے؟اب جب کہ روزگار کے نئے مواقعے کہیں سے مہیا نہیں ایسے میں لوگوں کا برسوں سے قائم روزگار چھیننا یا انھیں چھت سے محروم کر دینا لوگوں کو سرکش، رہزن، مجرم یا باغی بنانا نہیں تو پھر اور کیا کہلائیگا؟ بلاول ہاؤس کراچی اور بنی گالہ کی غیر قانونی زمین (یا اس کے بڑے حصے کو تجاوزات کے ضمن میں تسلیم کیا گیا ہے) پھر اس کا نوٹس کوئی کیوں نہیں لے رہا؟
قانون یا عدلیہ ماضی اور حال کے لینڈ مافیاؤں کے سرغنہ یا ماسٹر مائنڈ کو قرار واقعی سزا کیوں نہیں دے پائی؟ حکومت جو خاص طور پرکراچی بھرکو فوراً پینے کے پانی دینے اورکراچی کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کا دعویٰ لے کر برسر اقتدار آئی تھی یہ اس نے کس کام میں اپنے آپ کو مصروف کردیا؟ حکومت پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ لوگوں کو روزگار اور سہولتیں دینے کے بجائے ان سے یہ سب کس کی ایما پر چھینی جا رہی ہیں؟ بیروزگار ہونے اور بے سروسامانی سے دوچار لوگوں کی کفالت کہاں سے اورکب اورکیسے ہوگی؟
جس طرح ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح کراچی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی سے جہاں ایک جانب یہ شہر اپنی حقیقی دلکشی اورخوبصورتی کی طرف واپس پلٹا ہے، وہیں اس شہرکی بہت بڑی مارکیٹوں اور اہم بازاروں میں واقع دکانوں کو مسمار کیے جانے سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوگئے اور یہ بات بالکل درست ہے کہ اس شہرکے کئی علاقوں میں قائم دکانوں کوکسی حکمت عملی کے بغیر ہی گرایا یا مسمارکیا گیا۔ اگر دکانداروں کو نوٹس اور مہلت دی جاتی اور انھیں متبادل جگہ پہلے ہی فراہم کردی جاتی تو ان کی اشک شوئی ہوسکتی تھی۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کراچی کے بعض پرانے علاقے شہریوں کو ضرورت اور کاروباری افراد کے معاش کے حوالے سے بہت اہم خیال کیے جاتے تھے جہاں اب ملبے تلے سیکڑوں گھرانوں کا روزگار بھی دب کر دم توڑگیا ہے۔ ہماری دانست میں عدالتی آرڈر کی انتہائی غلط تشریح ہماری مقننہ نے کی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر ملک بھر میں مکان دکان گرانے کا جائزہ لینے کے لیے کوئی کمیشن اب تک کیوں نہیں تشکیل دیا گیا؟
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا چھٹا شہر ہے جو ریاست کو ہر سال 70 فیصد ٹیکس کما کر دیتا ہے۔ صنعتی و تجارتی مرکز اور شہر قائد ہونے کے علاوہ ملک کے چپے چپے کے لوگ یہاں آباد ہیں اسی لیے یہ منی پاکستان بھی کہلاتا ہے۔ اس کے ہم پلہ دیگر عالمی شہروں میں جدید انقلابی تبدیلیاں آ چکی ہیں لیکن حیرت ہے کہ وہ شہر جو قیام پاکستان کے وقت جدید ترین ٹرانسپورٹ میں کسی ملک سے پیچھے نہ تھا، آج ٹریفک کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی مشکلات کا شکار ہے۔
اگر قومی زندگی کے تمام شعبوں کے قائدین میں کسی لاگ لپٹ کے بغیر اپنے اداروں کی خامیوں کے اعتراف کا حوصلہ پیدا ہو جائے تو اصلاح و بہتری کی راہیں لازماً ہموار ہوجائینگی جب کہ ''نظام انصاف'' کی اصلاح تو زندگی کے دوسرے تمام شعبوں سے زیادہ ضروری ہے۔ معاشرے کے قیام و بقا کے لیے انصاف کے اہم ترین عامل ہونے پر پوری انسانی تاریخ گواہ ہے۔ مادی وسائل کی قلت کے باوجود معاشرے پر امن رہ اور ترقی کرسکتے ہیں لیکن لوگوں کو انصاف نہ ملے، انھیں تحفظ نہ ملے تو کسی بھی تدبیر سے قوموں کو تباہ ہونے سے بچایا نہیں جاسکتا۔
بڑے بڑے لوگوں کا ملکی خزانوں کو لوٹنا اور ان کا ثابت بھی ہوجانا پھر انھیں چھوٹ بھی مل جانا، قاتلوں کو ان کی ''یونیفارم'' کی وجہ سے چھوڑ دینا،طاقتور اور کمزوروں کے لیے الگ الگ قانونی معیارات اور فراہمی انصاف میں غیر جانبداری کا یقینی نہ بنایا جانا یہ سب ناانصافی کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔ ہمیں اس حقیقت سے بہرحال آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں کہ ہمارے ہاں ریاست کمزور ہے اور غیر ریاستی عناصر مضبوط۔ یہ ایک مسلم امر ہے کہ فصلوں یا زمینوں کا نقصان زمینداروں کا نہیں کسانوں کا نقصان ہوتا ہے۔
ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جس کی بے بس زمینوں میں صرف بے بسی ہی کاشت ہوتی ہے اور آج پورے ملک میں بے بسی کی یہ فصل لہلہا رہی ہے۔ نہ جانے کیوں ہر ملک اپنے بڑے مسائل حل کرنے کے حوالے سے یہ بات بھول جاتا ہے کہ اس ملک کے عوام کو اس کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑیگی۔ یہ بھی درست ہے کہ اللہ کی زمین تو بہت بڑی ہوتی ہے لیکن اللہ کے بندوں کا دل بہت بڑا نہیں ہوتا۔
ہمارے ارباب اختیارکو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم اس زمین یا مٹی پر چلتے ہیں تو یہ ہماری اوقات یاد دلاتی ہے اور جب ہم اس میں رہتے ہیں تو یہ ہماری حیثیت یاد دلاتی ہے اور جب ہم اس پر سوتے ہیں تو یہ ہمیں ہماری منزل بتاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں یا بالادست لوگوں کو دلوں میں رہنا سیکھنا چاہیے گھروں میں تو سبھی رہتے ہیں۔
دوسری طرف کرپشن کے سرخیل اب تک عدالتوں سے ضمانت قبل ازگرفتاری لیے بیٹھے ہیں لیکن بے بس اورکمزوروں کی گردن یہی قانون توڑنے کے درپے ہے۔ لوگ بیروزگاری اور مہنگائی کے ساتھ زندگی کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث ذہنی اور نفسیاتی دباؤکا شکار ہیں ۔
حالیہ املاک یا تجاوزات کے انہدام سے بیشتر لوگوں کی زندگیاں اس نہج پر پہنچ گئی ہیں کہ وہ مرنے کو جینے سے آسان سمجھنے لگے ہیں، سیکڑوں لوگ اپنے روزگارکے ختم ہو جانے سے دل اور ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہوکر اسپتالوں میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ بجا کہ ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے لیکن اس سے بھی زیادہ کرپشن اور وسائل کا غلط استعمال ملک کے حالات کو نہ صرف خراب بلکہ اس کے وجود کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ لینڈ مافیا یا تجاوزات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ پاکستان کی لیکن لینڈ مافیا سرگرم ہوکر پھلی پھولی تو یہ سب حکومتی یا ریاستی اداروں اور ان کے اہلکاروں کی پشت پناہی سے ہی تو ممکن ہوا۔
سندھ کے اس دور کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے دور حکومت میں سندھ اور کراچی میں خوب خوب سرکاری اور غیر سرکاری جگہوں کو مال غنیمت سمجھ کر ہتھیایا گیا اور اس کے بعد ایک لسانی تنظیم کے قائد کے کہنے یا آشیرواد سے چائنا کٹنگ کی اصطلاح عام ہوئی لیکن پھر بھی لوگوں کی غالب اکثریت نے پولیس، بلڈرز، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سی ڈی اے کے ڈی اے، کے ایم سی وغیرہ کو ٹیکس یا پیسے دے کر وہ جگہیں حاصل کی تھیں۔
جس دور میں یہ سب کا سب ناجائز جائز اور حلال سمجھ کر ہڑپ کیا جا رہا تھا اس وقت قانون اور ریاست کہاں تھے؟اب جب کہ روزگار کے نئے مواقعے کہیں سے مہیا نہیں ایسے میں لوگوں کا برسوں سے قائم روزگار چھیننا یا انھیں چھت سے محروم کر دینا لوگوں کو سرکش، رہزن، مجرم یا باغی بنانا نہیں تو پھر اور کیا کہلائیگا؟ بلاول ہاؤس کراچی اور بنی گالہ کی غیر قانونی زمین (یا اس کے بڑے حصے کو تجاوزات کے ضمن میں تسلیم کیا گیا ہے) پھر اس کا نوٹس کوئی کیوں نہیں لے رہا؟
قانون یا عدلیہ ماضی اور حال کے لینڈ مافیاؤں کے سرغنہ یا ماسٹر مائنڈ کو قرار واقعی سزا کیوں نہیں دے پائی؟ حکومت جو خاص طور پرکراچی بھرکو فوراً پینے کے پانی دینے اورکراچی کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کا دعویٰ لے کر برسر اقتدار آئی تھی یہ اس نے کس کام میں اپنے آپ کو مصروف کردیا؟ حکومت پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ لوگوں کو روزگار اور سہولتیں دینے کے بجائے ان سے یہ سب کس کی ایما پر چھینی جا رہی ہیں؟ بیروزگار ہونے اور بے سروسامانی سے دوچار لوگوں کی کفالت کہاں سے اورکب اورکیسے ہوگی؟
جس طرح ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح کراچی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی سے جہاں ایک جانب یہ شہر اپنی حقیقی دلکشی اورخوبصورتی کی طرف واپس پلٹا ہے، وہیں اس شہرکی بہت بڑی مارکیٹوں اور اہم بازاروں میں واقع دکانوں کو مسمار کیے جانے سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوگئے اور یہ بات بالکل درست ہے کہ اس شہرکے کئی علاقوں میں قائم دکانوں کوکسی حکمت عملی کے بغیر ہی گرایا یا مسمارکیا گیا۔ اگر دکانداروں کو نوٹس اور مہلت دی جاتی اور انھیں متبادل جگہ پہلے ہی فراہم کردی جاتی تو ان کی اشک شوئی ہوسکتی تھی۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کراچی کے بعض پرانے علاقے شہریوں کو ضرورت اور کاروباری افراد کے معاش کے حوالے سے بہت اہم خیال کیے جاتے تھے جہاں اب ملبے تلے سیکڑوں گھرانوں کا روزگار بھی دب کر دم توڑگیا ہے۔ ہماری دانست میں عدالتی آرڈر کی انتہائی غلط تشریح ہماری مقننہ نے کی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر ملک بھر میں مکان دکان گرانے کا جائزہ لینے کے لیے کوئی کمیشن اب تک کیوں نہیں تشکیل دیا گیا؟
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا چھٹا شہر ہے جو ریاست کو ہر سال 70 فیصد ٹیکس کما کر دیتا ہے۔ صنعتی و تجارتی مرکز اور شہر قائد ہونے کے علاوہ ملک کے چپے چپے کے لوگ یہاں آباد ہیں اسی لیے یہ منی پاکستان بھی کہلاتا ہے۔ اس کے ہم پلہ دیگر عالمی شہروں میں جدید انقلابی تبدیلیاں آ چکی ہیں لیکن حیرت ہے کہ وہ شہر جو قیام پاکستان کے وقت جدید ترین ٹرانسپورٹ میں کسی ملک سے پیچھے نہ تھا، آج ٹریفک کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی مشکلات کا شکار ہے۔
اگر قومی زندگی کے تمام شعبوں کے قائدین میں کسی لاگ لپٹ کے بغیر اپنے اداروں کی خامیوں کے اعتراف کا حوصلہ پیدا ہو جائے تو اصلاح و بہتری کی راہیں لازماً ہموار ہوجائینگی جب کہ ''نظام انصاف'' کی اصلاح تو زندگی کے دوسرے تمام شعبوں سے زیادہ ضروری ہے۔ معاشرے کے قیام و بقا کے لیے انصاف کے اہم ترین عامل ہونے پر پوری انسانی تاریخ گواہ ہے۔ مادی وسائل کی قلت کے باوجود معاشرے پر امن رہ اور ترقی کرسکتے ہیں لیکن لوگوں کو انصاف نہ ملے، انھیں تحفظ نہ ملے تو کسی بھی تدبیر سے قوموں کو تباہ ہونے سے بچایا نہیں جاسکتا۔
بڑے بڑے لوگوں کا ملکی خزانوں کو لوٹنا اور ان کا ثابت بھی ہوجانا پھر انھیں چھوٹ بھی مل جانا، قاتلوں کو ان کی ''یونیفارم'' کی وجہ سے چھوڑ دینا،طاقتور اور کمزوروں کے لیے الگ الگ قانونی معیارات اور فراہمی انصاف میں غیر جانبداری کا یقینی نہ بنایا جانا یہ سب ناانصافی کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔ ہمیں اس حقیقت سے بہرحال آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں کہ ہمارے ہاں ریاست کمزور ہے اور غیر ریاستی عناصر مضبوط۔ یہ ایک مسلم امر ہے کہ فصلوں یا زمینوں کا نقصان زمینداروں کا نہیں کسانوں کا نقصان ہوتا ہے۔
ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جس کی بے بس زمینوں میں صرف بے بسی ہی کاشت ہوتی ہے اور آج پورے ملک میں بے بسی کی یہ فصل لہلہا رہی ہے۔ نہ جانے کیوں ہر ملک اپنے بڑے مسائل حل کرنے کے حوالے سے یہ بات بھول جاتا ہے کہ اس ملک کے عوام کو اس کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑیگی۔ یہ بھی درست ہے کہ اللہ کی زمین تو بہت بڑی ہوتی ہے لیکن اللہ کے بندوں کا دل بہت بڑا نہیں ہوتا۔
ہمارے ارباب اختیارکو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم اس زمین یا مٹی پر چلتے ہیں تو یہ ہماری اوقات یاد دلاتی ہے اور جب ہم اس میں رہتے ہیں تو یہ ہماری حیثیت یاد دلاتی ہے اور جب ہم اس پر سوتے ہیں تو یہ ہمیں ہماری منزل بتاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں یا بالادست لوگوں کو دلوں میں رہنا سیکھنا چاہیے گھروں میں تو سبھی رہتے ہیں۔