خود پسندی کے مریض
ذرا آپ ہی بتلا دیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میں یہ تمام علامتیں نہیں پائی جاتی ہیں۔
''آزادی کے بعد آپ کی سب سے بڑی مشکل کیا رہی ہے'' یہ وہ سوال ہے جس کو فرانسیسی مصنف اینڈرے مالراکس نے ایک بار جواہر لال نہرو سے پوچھا تھا، نہرو نے جواب میں کہا کہ '' ایک درست حکومت کو درست ذرائع سے وجود میں لانا '' جواہر لال نہرو کو ہندوستان میں کامل اقتدار حاصل تھا ، اس کے باوجود بہتر نظام حکومت بنانے کے لیے وہ اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بہتر نظام حکومت بنانے کا کام حکومت کی طاقت سے نہیں ہوتا یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو حکومت سے باہر رہ کر اس کے لیے جدوجہد کریں۔
اصل میں بہتر حکومت بنانے کا کام بہتر افراد بنانے سے شروع ہوتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ لوگ خالص تعمیری انداز میں ذہن بنانے کے کام میں لگیں، وہ تقریروتحریر، ٹی وی چینلز، اخبارات اور دوسرے ممکن ذرائع سے ایک ایک شخص کے ذہن میں داخل ہونے کی کوشش کریں، یہ کام خاموش اور پر امن انداز میں لمبی مدت تک جاری رہے گا، یہ گویا ایک قسم کا تعمیری لاوا پکانا ہے جب افراد کی قابل لحاظ تعداد میں فکر کا لاوا پکتا ہے تو افراد کی زندگیوں میں انقلاب آجاتا ہے اور اس کے بعد سماج میں بھی انقلاب آجاتا ہے ۔
جب سماج کی اصلاح ہوجائے تو اس کے بعد اصلاح یافتہ حکومت بھی لازماً بن کر رہتی ہے۔ افراد میں انقلاب سماج میں انقلاب لانے کا باعث بنتا ہے اور سماج میں انقلاب حکومت میں انقلاب لے آتا ہے، کیونکہ حکومت سماج کے اندر سے نکل کر ہی تشکیل پاتی ہے ۔ لہذا بہتر حکومت کا تصور اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک سماج میں بہتر لوگ نہ ہوں ۔
ہمیں71سالوں میں بہتر حکومت اسی لیے نہیں مل سکی کیونکہ ہمارے سماج میں بہتر لوگوں کا ہمیشہ ہی سے قحط رہا ہے، اس لیے جو لوگ بھی حکومت میں آئے وہ سب کے سب اخلاقی ، تہذیب وتمدن ، عقل ودانش اور سمجھ بوجھ کے لحاظ سے بونے تھے ۔ ظاہر ہے جو کچھ سماج میں میسر ہوگا وہ ہی حکومت میں بھی نظر آئے گا اور یہ ہی صورتحال آؓج بھی جاری و ساری ہے۔
آج بھی اوپر سے لے کر نیچے تک بونوں کی حکومت ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ ہمارے یہ سب بونے خود پسندی کا شکار ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کی ہر وقت بس تعریفیں ہی تعریفیں ہورہی ہوں ہر بات پر واہ واہ ہر انداز پر سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہورہی ہوں ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق خود پسندی ایک نفسیاتی مرض ہے۔ یہ اصطلاح قدیم یونان کی ایک دیو مالائی کی کہانی سے اخذ کی گئی ہے جس کا مرکزی کردار نارسس ایک خوبصورت ہیرو ہے، جسے اپنے چاہنے والوں اور ارد گرد کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہ تھی، اپنی تعریف سنتے سنتے وہ اتنا خود پسند ہوگیا تھا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہوگیا۔
رات دن اپنا عکس دیکھتا رہتا، بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے ہوئے بھی پانی کو چھو نہیں سکتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھاکہ پانی کی سطح ہلنے سے عکس ٹوٹ جائے گا اور اس کی شکل کا حسن ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ جائے گا، چنانچہ وہ پیاس سے نڈھال مرگیا، دیو مالا کے ایک بیان میں ہے کہ دیوتائوں نے اسے نرگس کا پھول بنا دیا ، اسی وجہ سے خود پسندی کو نرگیست کا نام دیا گیا ۔ ڈاکٹر ڈیوڈ تھامسن کا کہنا ہے کہ خود پسندی کے مریض کو پہنچانا ، اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ یہ ہر لمحہ اداکاری کے ذریعے اپنی انا کی حفاظت کرتا ہے، چنانچہ خود پسندی کے مریض دھوکہ دہی کے استاد بن جاتے ہیں۔ خود پسندی کے مرض کی مندرجہ ذیل علامتیں ہیں ۔
(1) خود پسند شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اجتماعی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر اولیت دے سکے، وہ دوسرں کے لیے ہمدردی سے خالی ہوتا ہے مثلاً جب وہ آپکی خیریت پوچھتا ہے تو یہ ایک عادت اور حسن اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے، اسے حقیقت میں آپکی خیریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ (2) عام آدمی ناکامی کی صورت میں خود کو قصور وار سمجھتا ہے لیکن خود پسند شخص اپنی ناکامی کو دوسروں پر ڈال دیتاہے۔
( 3) تکبر، خود نمائی اور فنکارانہ مطلب پرستی خودپسند شخص کی صفات ہیں، وہ تعریف و تحسین کا بھوکا ہوتا ہے اپنے ہم پلہ یا فائق لوگوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ مجھ سے جلتے ہیں یا یہ کہ میرے خلاف سازش کرتے ہیں۔ (4) ندامت اور تشکر دونوں سے انکار خود پسند شخصیت کا وہ نفیس ہتھکنڈے ہیں جس سے وہ اپنی فضیلت و عظمت کا تحفظ کرتا ہے۔ (5) چاہے اس کی گفتگو میں نمائش کا عنصر صاف نظر آرہا ہو پھر بھی خود پسند مریض کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اہمیت کا تاثر اس انداز سے چھوڑے کہ جیسے اس کا مقصد نمائش یا بڑ مارنا نہیں تھا ۔
ذرا آپ ہی بتلا دیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے سیاست دانوں میں یہ تمام علامتیں نہیں پائی جاتی ہیں ، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ سب کے سب خود پسندی کے مرض میں مبتلا ہیں، اگر نہ ہوتے تو کیا انہیں اپنے علاوہ پاکستان کے عوام سے محبت نہ ہوتی اگر ہوتی تو وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے تڑپتے پھرتے نظر نہ آتے ۔
اپنے فائد ے کی چیز ہو یا اپنے الائونس میں اضافے کی بات ہوسینیٹ کی سیٹ ہو یا اور کوئی منافع بخش جگہ کی بات ہو ہم سب کو ان کی تڑپ کیا نظر نہیں آتی، کیا ہمیں ان کی لو ٹ مار، مال توڑتا، کمیشن لینا، باہر کے بینکوں میں اپنا مال ذخیرہ کرنا نظر نہیں آ رہا ہے اور دوسری طرف وہ عوام کے مسائل پرگونگے، بہرے انجان اور اندھے بنے پھرتے ہیں ۔ اب آپ ہی بتلا دیں کہ ان حالات میں بہتر حکومت کی توقع اور امید کیسے کی جا سکتی ہے۔