روشنی کا سفر پہلا حصہ
حضرت محمدﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کو عقیدت بھرا سلام کرنے کا موقع میسر آیا۔
جو اعزاز و فضیلت مکہ و مدینہ کے حصے میں آئی وہ دنیا کے کسی خطے کو میسر نہیں، کوئی عبادت خانہ ایسا نہیں جس میں پجاری صبح و شام جمع ہوتے ہوں، اس کے برعکس بیت اللہ اور مسجد نبوی ﷺ وہ متبرک اور نورانی خطے ہیں جہاں نور کی بارش ہوتی ہے۔ ہر روز، ہر لمحہ مسلمانوں کے قافلے اپنے مالک حقیقی اور اس کے گھر کا طواف کرنے اور حضورﷺ کے مزارِ اقدس پر حاضری دینے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک ہی مذہب کے پیروکار دور دراز سے آتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے طواف اور عمرہ ادا کیا جاتا ہے ۔
اللھم لبیک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ قرآنی آیات با آواز بلند پڑھی جاتی ہیں۔ جو لوگ پہلی بار حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ان کی نگاہیں اور روح خیرہ ہوجاتی ہے، کیا روح پرور نظارہ ہوتا ہے۔ایسا پرکیف منظر جس میں صرف اور صرف عبادت کے لیے جوش وخروش پیدا ہوتا ہے۔ عمرہ و حج ادا کرنیوالوں کو مکہ و مدینہ آنے سے قبل حج و عمرہ کی کتابوں کا اچھی طرح مطالعہ کرلینا چاہیے تاکہ با آسانی مقاماتِ مقدسہ تک پہنچا جائے۔
سعودی حکومت کا انتظام قابل تعریف و تحسین ہے۔ ذرا برابرکمی کا احساس نہیں ہوتا لیکن کیا ہی اچھا ہوکہ سعودی حکومت خاص ترین عبادات کے مراکز پر چھوٹے چھوٹے بورڈ نصب کرنے کا انتظام کردے چونکہ بیشمار لوگوں کو پتا نہیں چلتا ہے کہ ملتزم یا مقامِ ابراہیم کس طرف ہے، حجر اسود کس مقام پر ہے۔ بہر حال ہم ایئر پورٹ سے سیدھا ہوٹل پہنچے، ربنا آتنا فی الدنیا۔ لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے طواف کرنیوالوں میں شامل ہوگئے۔
طواف کی ابتدا حجر اسود کو بوسہ دینے یا استلام کرنے سے ہوتی ہے استلام کا مطلب چھونا یا دور سے اشارہ کرکے بوسہ دینا ہے، اس مقام کی نشاندہی کرنے کے لیے دھاتی بلڈنگ پر روشنیاں لگائی گئی ہیں سات چکر مکمل کرنے کے بعد سعی کی جاتی ہے جو عمرے کا حصہ ہے، کوہِ صفا پر یہ دعا پڑھنی ہوتی ہے۔ ترجمہ: میں ابتدا کرتی ہوں اور کرتا ہوں ساتھ اس کے جس کے تذکرے کے ساتھ اللہ نے ابتدا کی ہے، بیشک صفا و مرویٰ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں'' سعی کے بعد سرکے بال منڈوانا یا ترشوانا جب کہ خواتین کے بالوں کی لٹ یا چوٹی کے آخری سرے سے تقریباً ڈیڑھ انچ بال کٹوانا ضروری ہے اس کے بعد عمرہ مکمل ہوجاتا ہے۔
اب اگر دوسرے عمرے کی خواہش ہے جوکہ ہر مسلمان کو ہوتی ہے اور بار بار عمرے کرنے کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ دوسرا عمرہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ مسجد سے نفل اور نیت کرکے کیاجاتا ہے۔ الحمدﷲ جو ہم نے بھی کیا ہے۔ کچھ عرصے سے نہ جانے کیوں بیقراری بڑھ گئی تھی اور جی کرتا تھا کہ اڑکر درِ رسول ﷺ پر پہنچ جائوں، بیت اللہ شریف کی زیارت کروں اسی خواہش کے تحت چند اشعار میرے دل سے نکلے اور زبان کی زینت بن گئے۔
طوافِ کعبہ اگر ہوجائے
تو پھر مقدر میرا سنور جائے
اگر مدینے کی گلیاں مجھے بلالیں
اور گنبد خضریٰ دیدار اپنا کرادے
تو پھر میں خوش بخت ہوجائوں
اور مدینے کی فضائوں میں کھوجائوں
اور پھر میں خلاف توقع اپنے خاندان کے ساتھ حرم پہنچ گئی اور یوں عقیدت و بندگی کا سفر شروع ہوگیا۔ ہر موقعے پر زم زم سے سیراب ہوئے، دل و دماغ اور چہرے وآنکھوں کو فرحت پہنچائی۔ بی بی حاجرہ کا دوڑنا، حضرت اسماعیل ؑ کی ایڑھیاں رگڑنے سے زم زم کا چشمہ پھوٹنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے اور حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا خانۂ کعبہ کی تعمیر جیساکہ قرآن پاک میں ہے اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اٹھارہے تھے اور کہتے جاتے تھے ہمارے پروردگار ہم سے اس (تعمیر کو) قبول فرما۔ بے شک آپ سننے اور جاننے والے ہیں۔
حضرت ابراہیم نے جہاں بیت اللہ بنایا اس وقت وہ جگہ ایک ٹیلے کی مانند تھی اور بے آب وگیاہ میدان سے کم نہ تھا۔ کعبے کی تعمیر سے قبل یہاں آبادی نہ تھی لیکن حضرت ابراہیمؑ کی دعا مستجاب ہوئی اور کعبے کی کشش لوگوں کو یہاں لے آئی اور آج امت مسلمہ کا یہاں پہنچنا اللہ کے کرم و مہربانی کے سبب ہے کروڑوں لوگ عقیدت کا سفر کرتے ہوئے یہاں پہنچتے ہیں اور یقینا یہ بڑے نصیبوں کی بات ہے۔
عبادات کے ارکان ادا کرنے کے بعد زیارت کرنے کا مقصد کیا ہے، اس مقصد کے لیے بہت آسانی کے ساتھ ٹیکسیاں مل جاتی ہیں جن پر ''اجرۂ'' درج ہوتا تھا وہ ڈرائیورکم گائیڈ زیادہ نظر آتے تھے، شاید ان کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ تمام تاریخ اسلام کا مکمل طور پر تعارف کروائیں۔ جنت المالہ یہاں حضرت خدیجہؓ کی قبر مبارک موجود ہے، مسجد جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے بلکہ ایک مکمل سورہ ٔ جن کے نام سے موجود ہے، جہاں رسول پاکﷺ جنوں کو تعلیم دیا کرتے اور کافر جن مسلمان ہو جاتے تھے۔
مسجد جن کو دیکھتے ہوئے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھا۔ مسجد ''شجر'' کا تعارف بھی ہمارے مہربان گائیڈ نے کروایا کہ جب کفار نے آپ ﷺ کے نبی ہونے کا یقین نہیں کیا تو وہاں موجود درخت نے گواہی دی کہ یہ آخری نبیﷺ ہیں، وہاں جھنڈا بھی نصب کیا گیا، جبل رحمت کو دیکھ کر اور رسول پاک ﷺ کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے محبت اور عقیدت کے دامن میں حضرت محمد ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا تھا۔
سیڑھیوں کے ذریعے آپ ﷺ اس کی چوٹی تک پہنچے تھے ایک مقام ایسا بھی تھا جہاں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھی جاتی ہے اس کا نام مسجد نمرہ تھا اور جب مولد النبی ﷺ پر نظر پڑی تو آپ ﷺ کی پیدائش پر جو معجزات رونما ہوئے وہ سب نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں، جب آپﷺ اصرار کرکے اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ سفر میں تھے تو ایک عیسائی راہب نے آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر کہا یہ سید المرسلین ہیں۔ لوگوں کے پوچھنے پر بتایاکہ جب یہ لوگ پہاڑ سے اترے تو تمام درخت اور پتھر سجدے کے لیے جھک گئے۔
جنت المعلیٰ مکہ مکرمہ کا قدیمی قبرستان ہے یہاں تاریخ کے مطابق حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ، حضور ﷺکے دادا عبدالمطلب جیسی اعلیٰ و ارفع شخصیات کی قبور ہیں۔ رسولِ پاک ﷺ پر جس غار میں پہلی وحی نازل ہوئی اور اللہ نے پڑھنے کی تاکید کی وہ جگہ غار حرا کے نام سے ہماری آنکھوں کے سامنے تھی۔ ہمارے مہربان نے ہمیں منیٰ کا مقام حاجیوں کے خیمے اور جمرہ کے بارے میں بتایا۔
جمرہ اس خاص جگہ کا نام ہے جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ تینوں جمروں کو کنکریاں مارنا واجب ہے چونکہ ایام حج نہیں تھے لہٰذا بڑا پرسکون ماحول تھا۔ حج کے دنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی لیکن الحمدﷲ تمام ارکان بخوبی ادا کرلیے جاتے ہیں، مکہ و مدینہ میں چاروں طرف کثرت سے پہاڑ ہیں بلکہ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر مساجد اور دوسری عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا کہ مکہ کے لوگ گرم مزاج اور مدینہ کے رہائشی ٹھنڈا مزاج رکھتے ہیں۔
الٰہ اللعالمین کی قہاری و جباری رعب و جلال کے اثرات اور رسول پاک ﷺ چونکہ رحمت بن کر آئے رحمت اللعالمین تھے لہٰذا رحمت کا دریا موجزن تھا۔ روضہ حضور اقدس پر حاضری اور صحن حرم میں عبادات کا مزا اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ الحمدﷲ مقامِ ابراہیم ملتزم اور دوسری مقدس و معطر جگہوں کا دیدار نصیب ہوا۔
حضرت محمدﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کو عقیدت بھرا سلام کرنے کا موقع میسر آیا ،ادھر بھی مقامِ جنگ خندق اور اُحد کا پہاڑ، مسجد القبلتین میں دو رکعت نماز پڑھی یہی وہ جگہ تھی جب تحویل کعبہ کا حکم ہوا۔ غزہ اُحد میں ستر صحابہؓ شہید ہوئے تھے، اسی جنگ میں آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے، آپؐ نے فرمایا کہ اُحد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اُحد سے۔(جاری ہے)
اللھم لبیک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ قرآنی آیات با آواز بلند پڑھی جاتی ہیں۔ جو لوگ پہلی بار حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ان کی نگاہیں اور روح خیرہ ہوجاتی ہے، کیا روح پرور نظارہ ہوتا ہے۔ایسا پرکیف منظر جس میں صرف اور صرف عبادت کے لیے جوش وخروش پیدا ہوتا ہے۔ عمرہ و حج ادا کرنیوالوں کو مکہ و مدینہ آنے سے قبل حج و عمرہ کی کتابوں کا اچھی طرح مطالعہ کرلینا چاہیے تاکہ با آسانی مقاماتِ مقدسہ تک پہنچا جائے۔
سعودی حکومت کا انتظام قابل تعریف و تحسین ہے۔ ذرا برابرکمی کا احساس نہیں ہوتا لیکن کیا ہی اچھا ہوکہ سعودی حکومت خاص ترین عبادات کے مراکز پر چھوٹے چھوٹے بورڈ نصب کرنے کا انتظام کردے چونکہ بیشمار لوگوں کو پتا نہیں چلتا ہے کہ ملتزم یا مقامِ ابراہیم کس طرف ہے، حجر اسود کس مقام پر ہے۔ بہر حال ہم ایئر پورٹ سے سیدھا ہوٹل پہنچے، ربنا آتنا فی الدنیا۔ لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے طواف کرنیوالوں میں شامل ہوگئے۔
طواف کی ابتدا حجر اسود کو بوسہ دینے یا استلام کرنے سے ہوتی ہے استلام کا مطلب چھونا یا دور سے اشارہ کرکے بوسہ دینا ہے، اس مقام کی نشاندہی کرنے کے لیے دھاتی بلڈنگ پر روشنیاں لگائی گئی ہیں سات چکر مکمل کرنے کے بعد سعی کی جاتی ہے جو عمرے کا حصہ ہے، کوہِ صفا پر یہ دعا پڑھنی ہوتی ہے۔ ترجمہ: میں ابتدا کرتی ہوں اور کرتا ہوں ساتھ اس کے جس کے تذکرے کے ساتھ اللہ نے ابتدا کی ہے، بیشک صفا و مرویٰ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں'' سعی کے بعد سرکے بال منڈوانا یا ترشوانا جب کہ خواتین کے بالوں کی لٹ یا چوٹی کے آخری سرے سے تقریباً ڈیڑھ انچ بال کٹوانا ضروری ہے اس کے بعد عمرہ مکمل ہوجاتا ہے۔
اب اگر دوسرے عمرے کی خواہش ہے جوکہ ہر مسلمان کو ہوتی ہے اور بار بار عمرے کرنے کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ دوسرا عمرہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ مسجد سے نفل اور نیت کرکے کیاجاتا ہے۔ الحمدﷲ جو ہم نے بھی کیا ہے۔ کچھ عرصے سے نہ جانے کیوں بیقراری بڑھ گئی تھی اور جی کرتا تھا کہ اڑکر درِ رسول ﷺ پر پہنچ جائوں، بیت اللہ شریف کی زیارت کروں اسی خواہش کے تحت چند اشعار میرے دل سے نکلے اور زبان کی زینت بن گئے۔
طوافِ کعبہ اگر ہوجائے
تو پھر مقدر میرا سنور جائے
اگر مدینے کی گلیاں مجھے بلالیں
اور گنبد خضریٰ دیدار اپنا کرادے
تو پھر میں خوش بخت ہوجائوں
اور مدینے کی فضائوں میں کھوجائوں
اور پھر میں خلاف توقع اپنے خاندان کے ساتھ حرم پہنچ گئی اور یوں عقیدت و بندگی کا سفر شروع ہوگیا۔ ہر موقعے پر زم زم سے سیراب ہوئے، دل و دماغ اور چہرے وآنکھوں کو فرحت پہنچائی۔ بی بی حاجرہ کا دوڑنا، حضرت اسماعیل ؑ کی ایڑھیاں رگڑنے سے زم زم کا چشمہ پھوٹنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے اور حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا خانۂ کعبہ کی تعمیر جیساکہ قرآن پاک میں ہے اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اٹھارہے تھے اور کہتے جاتے تھے ہمارے پروردگار ہم سے اس (تعمیر کو) قبول فرما۔ بے شک آپ سننے اور جاننے والے ہیں۔
حضرت ابراہیم نے جہاں بیت اللہ بنایا اس وقت وہ جگہ ایک ٹیلے کی مانند تھی اور بے آب وگیاہ میدان سے کم نہ تھا۔ کعبے کی تعمیر سے قبل یہاں آبادی نہ تھی لیکن حضرت ابراہیمؑ کی دعا مستجاب ہوئی اور کعبے کی کشش لوگوں کو یہاں لے آئی اور آج امت مسلمہ کا یہاں پہنچنا اللہ کے کرم و مہربانی کے سبب ہے کروڑوں لوگ عقیدت کا سفر کرتے ہوئے یہاں پہنچتے ہیں اور یقینا یہ بڑے نصیبوں کی بات ہے۔
عبادات کے ارکان ادا کرنے کے بعد زیارت کرنے کا مقصد کیا ہے، اس مقصد کے لیے بہت آسانی کے ساتھ ٹیکسیاں مل جاتی ہیں جن پر ''اجرۂ'' درج ہوتا تھا وہ ڈرائیورکم گائیڈ زیادہ نظر آتے تھے، شاید ان کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ تمام تاریخ اسلام کا مکمل طور پر تعارف کروائیں۔ جنت المالہ یہاں حضرت خدیجہؓ کی قبر مبارک موجود ہے، مسجد جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے بلکہ ایک مکمل سورہ ٔ جن کے نام سے موجود ہے، جہاں رسول پاکﷺ جنوں کو تعلیم دیا کرتے اور کافر جن مسلمان ہو جاتے تھے۔
مسجد جن کو دیکھتے ہوئے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھا۔ مسجد ''شجر'' کا تعارف بھی ہمارے مہربان گائیڈ نے کروایا کہ جب کفار نے آپ ﷺ کے نبی ہونے کا یقین نہیں کیا تو وہاں موجود درخت نے گواہی دی کہ یہ آخری نبیﷺ ہیں، وہاں جھنڈا بھی نصب کیا گیا، جبل رحمت کو دیکھ کر اور رسول پاک ﷺ کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے محبت اور عقیدت کے دامن میں حضرت محمد ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا تھا۔
سیڑھیوں کے ذریعے آپ ﷺ اس کی چوٹی تک پہنچے تھے ایک مقام ایسا بھی تھا جہاں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھی جاتی ہے اس کا نام مسجد نمرہ تھا اور جب مولد النبی ﷺ پر نظر پڑی تو آپ ﷺ کی پیدائش پر جو معجزات رونما ہوئے وہ سب نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں، جب آپﷺ اصرار کرکے اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ سفر میں تھے تو ایک عیسائی راہب نے آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر کہا یہ سید المرسلین ہیں۔ لوگوں کے پوچھنے پر بتایاکہ جب یہ لوگ پہاڑ سے اترے تو تمام درخت اور پتھر سجدے کے لیے جھک گئے۔
جنت المعلیٰ مکہ مکرمہ کا قدیمی قبرستان ہے یہاں تاریخ کے مطابق حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ، حضور ﷺکے دادا عبدالمطلب جیسی اعلیٰ و ارفع شخصیات کی قبور ہیں۔ رسولِ پاک ﷺ پر جس غار میں پہلی وحی نازل ہوئی اور اللہ نے پڑھنے کی تاکید کی وہ جگہ غار حرا کے نام سے ہماری آنکھوں کے سامنے تھی۔ ہمارے مہربان نے ہمیں منیٰ کا مقام حاجیوں کے خیمے اور جمرہ کے بارے میں بتایا۔
جمرہ اس خاص جگہ کا نام ہے جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ تینوں جمروں کو کنکریاں مارنا واجب ہے چونکہ ایام حج نہیں تھے لہٰذا بڑا پرسکون ماحول تھا۔ حج کے دنوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی لیکن الحمدﷲ تمام ارکان بخوبی ادا کرلیے جاتے ہیں، مکہ و مدینہ میں چاروں طرف کثرت سے پہاڑ ہیں بلکہ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر مساجد اور دوسری عمارتیں بنائی گئی ہیں۔ جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا کہ مکہ کے لوگ گرم مزاج اور مدینہ کے رہائشی ٹھنڈا مزاج رکھتے ہیں۔
الٰہ اللعالمین کی قہاری و جباری رعب و جلال کے اثرات اور رسول پاک ﷺ چونکہ رحمت بن کر آئے رحمت اللعالمین تھے لہٰذا رحمت کا دریا موجزن تھا۔ روضہ حضور اقدس پر حاضری اور صحن حرم میں عبادات کا مزا اس سے پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔ الحمدﷲ مقامِ ابراہیم ملتزم اور دوسری مقدس و معطر جگہوں کا دیدار نصیب ہوا۔
حضرت محمدﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کو عقیدت بھرا سلام کرنے کا موقع میسر آیا ،ادھر بھی مقامِ جنگ خندق اور اُحد کا پہاڑ، مسجد القبلتین میں دو رکعت نماز پڑھی یہی وہ جگہ تھی جب تحویل کعبہ کا حکم ہوا۔ غزہ اُحد میں ستر صحابہؓ شہید ہوئے تھے، اسی جنگ میں آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے، آپؐ نے فرمایا کہ اُحد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اُحد سے۔(جاری ہے)