ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی کیلیے پاکستان اور امریکا میں بات چیت کا آغاز
نوازشریف قومی سلامتی پالیسی کانفرنس میں معاملے کو سیاسی جماعتوں کے سامنے رکھیں گے،ذرائع
KARACHI:
حکومت پاکستان امریکاسے ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی کی جلدہی باقاعدہ درخواست کرے گی.
یہ عمل حکومت کی ان سفارتی کوششوں کا حصہ ہوگا جووہ ملک کے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے کی سرکردگی میں جاری متنازع مہم کے خاتمے کے لیے کررہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مذکورہ معاملے پر امریکا سے روابط میں شریک ایک سینئرسرکاری افسر نے ایکسپریس ٹریبیون کوبتایاکہ ڈرون کے استعمال کے متبادل کی تلاش کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان ابتدائی بات چیت شروع ہوچکی ہے۔ مذکورہ ذریعے نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام راز میں رکھنے کی شرط پرانکشاف کیا کہ وزیراعظم کے مشیربرائے قومی سلامتی وامورخارجہ سرتاج عزیز اور امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے درمیان برونائی میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں اس تجویزپرگفتگو ہوئی، تاہم ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ امریکا اسیقابل غورسمجھتا بھی ہے یا نہیں۔ یادرہے کہ گزشتہ حکومت بھی اس سلسلے میں بے شمار ناکام کوششیں کرتی رہی تھی۔
ذریعے کے مطابق نئی حکومت اپنی کوششوں کی کامیابی کے لیے پریقین ہے۔ حکومت کایہ احساس بھی ہے کہ پچھلی حکومت کی طرح ڈرون حملوںپر اس کی امریکاسے کوئی خفیہ مفاہمت نہیں۔ اس سلسلے میں باقاعدہ تجویز جان کیری کے آئندہ دورے پر پیش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ امریکی وزیرخارجہ کا دورہ اس ماہ کے اواخرمیں متوقع ہے۔ ایک اور ذریعے نے بتایا کہ وزیراعظم نوازشریف قومی سلامتی پالیسی پر بحث کے لیے طلب کی گئی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی کانفرنس میں بھی یہ تجویزرکھیں گے۔ یاد رہے کہ ڈرون طیاروںکا استعمال پاکستان اور امریکا کے درمیان وجہ تنازع چلا آرہاہے۔
اسلام آباد نے حالیہ ڈرون حملے کی برملا اور پرزورمذمت کی ہے اور اسے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیاہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار نے حال ہی میں امریکا کو متنبہ کیا کہ ڈرون حملوں کا تسلسل دونوں ملکوں کے تعلقات میں رخنہ ڈال سکتے ہیں۔ ادھر خارجہ پالیسی کے حوالے سے مشاورت میں عمل دخل رکھنے والی ایک اہم شخصیت نے اس بیان کو غیرضروری گردانتے ہوئے بتایاکہ حکومت یقیناً ڈرون معاملے کا حل چاہتی ہے مگرسفارتی ذرائع سے نہ کہ تعلقات میں رخنہ اور محاذآرائی پیدا کرکے۔ ہم باہمی مفاہمت کے ذریعے اس پیچیدہ مسئلے کا کوئی حل نکال لیںگے۔ انھوںنے ڈرون گرانے کے جارحانہ مطالبے کو مستردکرتے ہوئے کہاکہ یہ معاملے کاحل نہیں۔ انھوںنے مزیدکہاکہ حکومت نہ صرف ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی بلکہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوںکو بھی نشانہ بنائے گی۔ اس سلسلے میں وزارت خارجہ سے رابطہ کیاگیاتوترجمان نے تصدیق کی کہ قبائلی علاقوںمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان امریکا سے ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی کے سلسلے میں کوشاں ہے۔
حکومت پاکستان امریکاسے ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی کی جلدہی باقاعدہ درخواست کرے گی.
یہ عمل حکومت کی ان سفارتی کوششوں کا حصہ ہوگا جووہ ملک کے قبائلی علاقوں میں سی آئی اے کی سرکردگی میں جاری متنازع مہم کے خاتمے کے لیے کررہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مذکورہ معاملے پر امریکا سے روابط میں شریک ایک سینئرسرکاری افسر نے ایکسپریس ٹریبیون کوبتایاکہ ڈرون کے استعمال کے متبادل کی تلاش کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان ابتدائی بات چیت شروع ہوچکی ہے۔ مذکورہ ذریعے نے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام راز میں رکھنے کی شرط پرانکشاف کیا کہ وزیراعظم کے مشیربرائے قومی سلامتی وامورخارجہ سرتاج عزیز اور امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے درمیان برونائی میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں اس تجویزپرگفتگو ہوئی، تاہم ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ امریکا اسیقابل غورسمجھتا بھی ہے یا نہیں۔ یادرہے کہ گزشتہ حکومت بھی اس سلسلے میں بے شمار ناکام کوششیں کرتی رہی تھی۔
ذریعے کے مطابق نئی حکومت اپنی کوششوں کی کامیابی کے لیے پریقین ہے۔ حکومت کایہ احساس بھی ہے کہ پچھلی حکومت کی طرح ڈرون حملوںپر اس کی امریکاسے کوئی خفیہ مفاہمت نہیں۔ اس سلسلے میں باقاعدہ تجویز جان کیری کے آئندہ دورے پر پیش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ امریکی وزیرخارجہ کا دورہ اس ماہ کے اواخرمیں متوقع ہے۔ ایک اور ذریعے نے بتایا کہ وزیراعظم نوازشریف قومی سلامتی پالیسی پر بحث کے لیے طلب کی گئی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی کانفرنس میں بھی یہ تجویزرکھیں گے۔ یاد رہے کہ ڈرون طیاروںکا استعمال پاکستان اور امریکا کے درمیان وجہ تنازع چلا آرہاہے۔
اسلام آباد نے حالیہ ڈرون حملے کی برملا اور پرزورمذمت کی ہے اور اسے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیاہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار نے حال ہی میں امریکا کو متنبہ کیا کہ ڈرون حملوں کا تسلسل دونوں ملکوں کے تعلقات میں رخنہ ڈال سکتے ہیں۔ ادھر خارجہ پالیسی کے حوالے سے مشاورت میں عمل دخل رکھنے والی ایک اہم شخصیت نے اس بیان کو غیرضروری گردانتے ہوئے بتایاکہ حکومت یقیناً ڈرون معاملے کا حل چاہتی ہے مگرسفارتی ذرائع سے نہ کہ تعلقات میں رخنہ اور محاذآرائی پیدا کرکے۔ ہم باہمی مفاہمت کے ذریعے اس پیچیدہ مسئلے کا کوئی حل نکال لیںگے۔ انھوںنے ڈرون گرانے کے جارحانہ مطالبے کو مستردکرتے ہوئے کہاکہ یہ معاملے کاحل نہیں۔ انھوںنے مزیدکہاکہ حکومت نہ صرف ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی بلکہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوںکو بھی نشانہ بنائے گی۔ اس سلسلے میں وزارت خارجہ سے رابطہ کیاگیاتوترجمان نے تصدیق کی کہ قبائلی علاقوںمیں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان امریکا سے ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی کے سلسلے میں کوشاں ہے۔