اسٹیبلشمنٹ اور عسکریت پسند بے گناہ بلوچ عوام کے قاتل ہیں اختر مینگل
دونوں مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں، انھیں صرف بندوق کی زبان سمجھتے ہیں، بیگناہوں کا قتل قابل مذمت ہے, اختر مینگل
کچھ ڈیتھ اسکواڈکو ایجنسیوں اور بعض کو بیرونی قوتوں کی حمایت حاصل ہے،سربراہ بی این پی، پہلی بار بلوچ عسکریت پسندوں پر شدید تنقید۔ فوٹو: فائل
قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص ایجنسیوں کی جانب سے بلوچستان کے عوام کے ساتھ زیادتیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے صدر سردار اختر ینگل نے مسلح عسکریت پسندوں کی جانب سے بھی صوبے بھر میں قتل و غارت اور دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ایکسپریس ٹریبون کو خصوصی انٹرویو میں اختر مینگل نے کہاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مسلح عسکریت پسند معصوم و بے گناہ لوگوں کو مارنے پر قابل مذمت ہیں۔11مئی کے انتخابات کے بعد سردار اختر مینگل کا یہ وفاقی دارالحکومت کا پہلا دورہ تھا۔ انھوںنے الیکشن کے نتائج پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اورکہاکہ دھاندلی کے ذریعے خفیہ ایجنسیوں نے ان کی پارٹی کی فتح کو شکست میں تبدیل کردیا۔ اپنے قیام کے دوران وہ بلوچستان کے حوالے سے شائع کتاب ''بلوچستان ایشو'' کی تقریب رونمائی میں شرکت کے علاوہ ان کی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے بھی ملاقات متوقع ہے۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ سردار اختر مینگل نے بلوچ عسکریت پسندوں پر تنقیدکی ہے اور ان کی کارروائیوں کی کھل کر مذمت کی ہے۔ ان میں سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل، بھتیجے نور الدین مینگل اور بہاول مینگل بھی شامل ہیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی بلوچ عوام کے سیاسی و معاشی حقوق حاصل کرنے کے لیے عسکریت پسندی کے طریقے کو استعمال کرنے کے خلاف ہے۔ اس سوال پر کہ کیا وہ عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں کردار ادا کریں گے؟ انھوں نے کہاکہ میں دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول نہیں، عسکریت پسند مجھے غدار سمجھتے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ مجھے اپنا حریف تصور کرتی ہے۔ میں دونون کا نشانہ بن رہا ہوں کہ دونوں کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔ دونوں پارٹیاں بندوق کی زبان میں ایک دوسرے سے بات کرتی ہیں اور بندوق و گولی کی زبان ہی سمجھتی ہیں۔ وہ دونوں اس قابل نہیں کہ میری زبان سمجھ سکیں۔
انھوں نے کہاکہ ڈیتھ اسکواڈ اور نجی فورسز عوام کے قتل میں ملوث ہیں۔انھوں نے اپنے اس الزام کو ایک بار پھر داہرایا کہ ان ڈیتھ اسکواڈ کو خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل ہے اور ان لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو بلوچ مخالف پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہیں۔ یہ نجی فورسز یا پرائیویٹ آرمی خضدار اور صوبے کے مختلف علاقوں میں آزادانہ اپنا کام کررہی ہیں۔ یہ لوگوں کو قتل کررہی رہیں، اغوا کررہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے انھیں اپنی من مانی کا لائسنس دے دیا ہے۔ ایک سوال پر انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ کچھ ڈیتھ اسکواڈ کو پڑوسی ملکوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ صوبے میں غیر بلوچوں خاص طور پر پنجابیوں کو بھی قتل کیا جارہا ہے اور غیر بلوچوں کو ان کارروائیوں کے ذریعے مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں کوڑیوں کے دام ان عناصر کے ہاتھوں فروخت کردیں جن کا سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
انھوں نے کہاکہ الیکشن سے قبل میں نے جو6 نکاتی فارمولا دیا تھا اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ان 6 نکات کی وجہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ نے ہی الیکشن میں ہروایا۔انھوں نے کہا کہ لاپتہ افراد اور مسخ لاشوں کا معاملہ بہت سنگین ایشو ہے، جسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے حکم دے چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر جانے والے مری، بگٹی اور مینگل قبائل کے افراد کی واپسی اور بحالی بھی ضروری ہے۔ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف بلوچستان کے ایشوکو حل کرا سکتے ہیں۔ میری میاں صاحب سے الیکشن کے بعد فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی اور انھوں نے مجھے یقین دہانی کرائی تھی کہ معاملات کو سدھارا جائے گا۔