اشرافیائی جمہوریت
ملک میں پہلی بار ایک مڈل کلاس کا وزیراعظم بننا کسی مغل ایمپائر کو قطعی قبول نہیں
پسماندہ ملکوں میں تعلیم اور سیاسی شعور کی کمی کی وجہ جمہوریت بادشاہت بن کر رہ جاتی ہے۔ جہاں جمہوریت کے نام پر اشرافیائی راج دھڑلے سے چلا آ رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس کو سمجھے بغیر ملک میں نہ عوامی جمہوریت آسکتی ہے نہ عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اشرافیائی جمہوریت کیوں چل رہی ہے؟ یہاں ایک بار پھر ہمیں سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تھنکرز کی جمہوریت کے بارے میں تعریف کو دہرانا پڑ رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا مطلب اشرافیائی جمہوریت لیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کا کہناہے کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہوتا ہے۔ جمہوریت کی یہ تعریف سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں نے کی ہے یعنی جمہوریت کے نام پر دنیا بھر میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کھیل میں بھی عوام کی بالادستی کو جمہوریت کہا گیا ہے۔
جمہوریت میں عوام کی بالادستی کا مطلب، ہماری 11سالہ جمہوریت اور آمریت پر نظر ڈالیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت میں جاگیرداروں، صنعت کاروں، سرمایہ داروں کی بالادستی ہے اور اس فرق کے ساتھ آمریت چلتی رہتی ہے کہ اس آمریت میں سول اور فوجی آمریت مشترکہ طور پر اقتدار میں رہتی ہے اس آمریت کو سمجھنے کے لیے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور جنرل مشرف کی حکومتوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
جب ایوب خان نے سول حکومت کو برخاست کر کے اپنی فوجی حکومت قائم کی تو ہمارے سیاست دانوں نے اس فوجی حکومت کے خلاف خوب واویلا کیا، دبی دبی چھوٹی چھوٹی تحریکیں بھی چلائیں۔ جب ایوب خان کے ساتھیوں نے اس کو بتایاکہ جب تک سیاست دانوں کو اپنی فوجی حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا وہ آپ کی حکومت کو آرام سے کام کرنے نہیں دیںگے۔ یہ جمہوری حضرات سیاسی شعور سے بڑی حد تک محروم عوام کو لارے لپے دے کر سڑکوں پر لاتے رہیں گے اور مشکلات پیدا کرتے رہیںگے۔
ایوب خان کے ذہن میں بھی یہ بات آگئی اور اس نے جب زرعی اصلاحات کے ذریعے ان جاگیرداروں سے چھینی ہوئی لاکھوں ایکڑ زمین جاگیرداروں کو واپس دے دی اور انھیں حکومت میں شامل کرنے کا اشارہ دیا تو جمہوریت پسند زعما ایوب خان کی حکومت میں شامل ہونے لگے سوائے چند حقیقی جمہوریت پسندوں کے باقی سیاست کار ایوب حکومت میں شامل ہوگئے، یہی نہیں بلکہ ان جمہوریت پسندوں نے مسلم لیگ کے دو ٹکڑے کر کے ایک ٹکڑا ایوب خان کی خدمت میں پیش کر دیا جس کا نام ان جمہوریت پسندوں نے کنونشن لیگ رکھا اور ایک فوجی آمر کی حکومت کا حصہ بن کر لوٹ مار میں لگ گئے۔ ایوب خان کی ''جمہوری حکومت'' میں اور اکابرین کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان (جنرل) کی مخالفت کر کے عوام میں مقبولیت حاصل کی آخر کار ایوب خان کو حکومت سے دست بردار ہونا پڑا۔
بھٹو نے اقتدار میں آ کر زرعی اصلاحات کا اعلان کیا۔ لیکن بھٹو کی زرعی اصلاحات کو زرعی اشرافیہ نے ناکام بنا دیا۔ آج تک کسی حکمران نے ایسی زرعی اصلاحات نافذ نہیں کیں جن میں زمین جاگیرداروں سے مکمل طور پر واپس لے لی گئی ہو۔
آمر ضیا الحق نے بھی اقتدار سنبھال کر وہی حربہ استعمال کیا جو ضیا الحق کے پیش روؤں نے کیا تھا یعنی جمہوری سیاست دانوں کو اپنی حکومت میں داخلہ دے دیا اور 10 سال تک اپنی جمہوریت کے ساتھ پاکستان پر حکومت کرتے رہے۔ جمہوریت کے حقیقی حامی ہر فوجی حکومت میں زنداں کے باسی بنے رہے اور بہت سارے سیاست دان ملک چھوڑ کر چلے گئے لیکن جمہوریت چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ ضیا الحق نہ صرف ایک سخت گیر آمر تھے بلکہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کا فرض بھی موصوف نے بہ حسن و خوبی ادا کیا۔
ضیا الحق اگر طیارے کے حادثے میں جاں بحق نہ ہوتے تو امکان تھا کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہی ریٹائر ہوتے۔ ضیا الحق کے انتقال کے بعد پرویز مشرف برسر اقتدار آئے ان کی فوجی حکومت میں ایسے ایسے نامور جمہوریت پسند، ان کی حکومت کا حصہ بنے جن کی جمہوریت پسندی کے چرچے آج بھی ہیں، جنرل مشرف بھی لگ بھگ 10 سال برسر اقتدار رہے ان کے دور اقتدار میں بھی مسلم لیگ اپنے متوالوں کے ساتھ جنرل مشرف کی جمہوری حکومت میں ان کی آخری سانس تک شامل رہی، ان کے دور میں خالص جمہوری حکومتیں 10 سال تک برسر اقتدار رہیں، اب بھی ایک جمہوری حکومت برسر اقتدار ہے لیکن جمہوریت پسند اس جمہوری حکومت کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ عمران خان کو ان کی حمایت حاصل ہے۔ ان کی حکومت کو بلاشبہ ان کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے لیکن پاکستان پر ایک بار نہیں دو دو تین تین بار حکومت کرنے والے جمہوریت پسندوں کو تو ان کی حمایت حاصل ہی نہ رہتی بلکہ وہ ان کی حکومتوں کے مجازی خدا بنے رہے۔ ایسے جمہوریت پسند اگر عمران حکومت کی مخالفت اس حوالے سے کر رہے ہیں کہ عمران خان کو ان کی حمایت حاصل ہے تو یہ یقینا زیادتی ہے۔
ہمارے خیال میں عمران خان کی اس قدر سخت مخالفت کی اصل وجہ یہ ہے کہ عمران خان کا تعلق جمہوریت کے نیزہ برداروں سے نہیں بلکہ ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ اس کی گردن میں وہ سریا لگا ہوا نہیں جو اشرافیہ کی گردن میں لگا ہوا ہوتا ہے اور وہ ملک کو لوٹنا نہیں چاہتا کچھ بنانا چاہتا ہے۔ اگر وہ ملک کو کچھ اچھا بنانے میں کامیاب ہوگیا تو اشرافیائی زور وقت کی دھول میں گم ہو جائے گا۔
عمران خان کوئی فرشتہ نہیں انسان ہے اس میں بھی کوتاہیاں ہو سکتی ہیں لیکن ایک تو اس کی گردن میں سریا نہیں ہے، دوسرے وہ سیاسی وٹہ سٹہ سے واقف نظر نہیں آتا۔ اس کی مخالفت کا سب سے بڑا سبب اس کا مڈل کلاسز ہونا ہے۔ ملک میں پہلی بار ایک مڈل کلاس کا وزیراعظم بننا کسی مغل ایمپائر کو قطعی قبول نہیں۔