جناح ہاؤس کا تنازع اور نواز شریف کا فیصلہ
قائد اعظم ؒ کے اِس یوم پیدائش کا تقاضا یہ ہے کہ عمران خان ’’جناح ہاؤس‘‘ پر بھارتی قبضے کی ہر کوشش ناکام بنا دیں
کل بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم ؒکی 142 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ ہم جس جوش اور جذبے کے ساتھ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ ولادت مناتے ہیں، کاش ہمیں، ہمارے حکمرانوں اور ہمارے سیاستدانوں کو ان کے نقوشِ قدم پر چلنے کی توفیق بھی ملتی۔
انھوں نے سیاست میں جس دیانت و امانت کا عملی مظاہرہ کرکے دکھا دیا، کیا اُس دیانت کا عشرِ عشیر بھی ہمارے حکمران خانوادوں اور گروہوں میں پایا جاتا ہے؟کل ہمارے قائد اعظم ؒ کی بھی سالگرہ ہے اور میاں محمد نواز شریف کی بھی ۔ قائدِ اعظم ؒ کے دل افروز اور دلکشا ذکر کے ساتھ نواز شریف کا ذکرعجب سا لگتا ہے! قائد اعظم کے بلند کردار پر اُن کے سنگین مخالفین کو بھی الزام کا ایک دھبہ تک نظر نہیں آتا۔ نواز شریف کے کردار پر مگر مبینہ طور پر الزامات کے کئی داغ دھبے لگا دیے گئے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ عوام نے جنہیں دو دو، تین تین بار وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر بٹھایا، وہ الزامات کے چھینٹوں سے خود کو بچا نہ پائے۔ کیا یہ لوگ قائد اعظم کی وراثت اور سیاست کے اہل ہو سکتے ہیں؟
قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کا ذکر آتے ہی ہمارے سر فخر اور غرور سے بلند ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے سازشوں اور مخالفتوں کے طغیان و طوفان میں اسلامیانِ ہند کی ڈولتی اور ڈوبتی کشتی کو جس عزم اور حوصلے کے ساتھ کنارے پر لگایا، یہ اُنہی کی ہمت سے خاص تھا۔ سچ یہ ہے کہ جناح صاحب کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیش بہا نعمت سے سرفراز کیا تھا۔ ایسا شاندار اور ایسا پُر شکوہ شخص!نہرو اور گاندھی کو تو بنی بنائی قوم میسر تھی لیکن مسلمانوں کے بکھرے غول کو ایک متحدہ قوم بنانے کے لیے قائد اعظم کو اپنا خونِ جگر صَرف کرنا پڑا۔
انھوں نے تعلیمی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ایک لاغر اور ناتواں ہجوم کو ایک قوم بنایا اور پھر اُسے ایک آزاد اسلامی مملکت کا تحفہ بھی عنائت فرمایا۔ ہم بھلا ایسے عظیم المرتبت شخص کے احسانوں کا بدلہ کیسے چکا سکتے ہیں؟ قوموں کی زندگی میں ایسا نادر الوجود شخص کم کم نمودار ہوتا ہے ۔ سچ لکھا ہے قائد اعظم کے سوانح نگار اسٹینلے وولپرٹ نے: ''چند افراد ہی تاریخ کا دھارا نمایاں طور پر تبدیل کرتے ہیں۔ اس سے بھی کم ابھی تک دُنیا کے نقشے میں ترمیم کر سکے ہیں۔ شاذو نادر ہی کسی کو ایک قومی مملکت کی تشکیل کا اعزاز دیا جا سکتا ہے۔ محمد علی جناح ؒ نے یہ تینوں کام کر ڈالے۔'' قائد اعظم کے احسانات کا بدلہ چکانے کا ایک طریقہ اور سلیقہ یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اُن کی بلندیِ درجات اور اُن کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔
اِس بار جب ہم قائد اعظم کی 142 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان ''جناح ہاؤس '' کی ملکیت پر پھر سے تنازع اُٹھ کھڑا ہُوا ہے ۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر کے دارالحکومت، ممبئی، میں واقع قائد اعظم کی محبوب رہائش گاہ ''جناح ہاؤس'' پر بھارت زبردستی قبضہ جمانا چاہتا ہے، جب کہ پاکستان شدت سے مزاحمت کر رہا ہے۔ ویسے تو پچھلے سات عشروں سے ''جناح ہاؤس'' پاکستان اور بھارت کے درمیان باعثِ تنازع بنا ہُوا ہے لیکن اِس بار یہ جھگڑا کچھ زیادہ ہی نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ، سشما سوراج، نے چند دن پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ بھارت اپنے وضع کردہ نئے قانون کے مطابق ''جناح ہاؤس '' کو باقاعدہ اپنی سرکاری تحویل میں لے کر اِسے کلچرل سینٹر میں تبدیل کرنے جا رہا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، ڈاکٹر فیصل، نے21 دسمبر2018ء کو کہا ہے کہ ''جناح ہاؤس'' اب بھی پاکستان کی ملکیت ہے، ہم بھارتیوں کو اس پر قبضہ جمانے نہیں دیں گے۔ جب کہ ممبئی میں مہاراشٹر صوبائی اسمبلی کے متعصب ہندو رکن منگل پرابت لودھا، جو ممبئی کا ار ب پتی پراپر ٹی ڈیلر بھی ہے، نے کہا ہے کہ جناح ہاؤس کو مسمار کر کے نئے سرے سے یہاں ''انڈین نیشنل کلچرل سینٹر'' تعمیر کیا جانا چاہیے۔
لودھا کا کہنا ہے : ''جناح ہاؤس میں متحدہ بھارت کی تقسیم کے منصوبے بنتے تھے؛ چنانچہ بھارت ماتا کی تقسیم کی اس نشانی کو مٹا ڈالنا چاہیے۔'' ایک بھارتی اخبار نے اِس شخص کی بد نیتی بے نقاب کرتے ہُوئے لکھا ہے کہ منگل پرابت لودھا کو جناح صاحب سے کوئی عناد نہیں ہے بلکہ اس شخص کی لالچی اور لوبھی نظریں ''جناح ہاؤس'' کی ڈھائی ایکڑ انتہائی قیمتی زمین پر لگی ہیں۔ اخبار ''ہفنگٹن پوسٹ'' کا کہنا ہے کہ اس زمین کی قیمت رواں لمحوں میں 400 ملین ڈالرہے۔ ممبئی کے خوبصورت ترین اور مہنگے علاقے، ماؤنٹ پلیزنٹ روڈ، پر واقع اس گھر کے سامنے ہی مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ بھی ہے۔
قائد اعظم نے پاکستان بننے سے صرف گیارہ سال پہلے دو لاکھ روپے کی لاگت سے یہ جلیل و جمیل بنگلہ اپنی نگرانی میں تعمیر کروایا تھا۔ اس کا آرکیٹیکٹ (کلاڈی بیٹلے) برطانوی تھا اور معمار اطالوی۔ اٹلی سے اس کا قیمتی سنگِ مرمر منگوایا گیا تھا اور فرانس سے درآمدہ اخروٹ کی گرانقدر لکڑی سے جناح ہاؤس کے فرش اور دیواریں سجائی اور سنواری گئی تھیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ قائد نے بڑے ریجھ سے اپنا یہ پُر شکوہ گھر بنایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 1941ء میں ممبئی کی ڈالمیا فیملی نے 20لاکھ روپے میں اسے خریدنا چاہا تھا لیکن قائد اعظم نے فروخت کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ متحدہ ہندوستان کے اقتدار اور سیاست کا کونسا اہم رہنما نہیں تھا جو اس گھر میں جناح صاحب کا مہمان نہیں بنا تھا۔ قائد اعظم نے اسے ''ساؤتھ کورٹ'' کا نام دیا تھا کہ یہ ممبئی کے عین جنوب میں، سمندر کنارے واقع ہے۔
نہرو اور گاندھی تو میٹنگوں کے سلسلے میں اکثر یہاں آتے رہتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اس کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کراچی کے لیے یہاں سے نکلے تو اُن کے جذبات اور وابستگی کا اندازہ ہم خود لگا سکتے ہیں۔ انھوں نے نہرو سے ذاتی حیثیت میں کہا تھا کہ اسے سرکاری تحویل میں نہ لیا جائے۔ نہرو نے قائداعظم کی بات کو من وعن تسلیم کر لیا تھا۔ اِسے تین ہزار روپے ماہانہ کرائے پر چڑھا دیا گیا تھا اور یہ کرایہ مالکِ مکان کو پہنچتا رہا ہے۔
قائد اعظم کی زندگی نے مگر زیادہ دن وفا نہ کی۔ اُن کی وفات سے ''جناح ہاؤس'' متنازع بنتا گیا۔ قائد اعظم کی اکلوتی اولاد، مسز ڈینا واڈیا، بھی اپنی موت تک اسے اپنی ملکیت میں لینے کی تگ ودَو کرتی رہیں لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔ قائد اعظم کا ارب پتی نواسہ، نسلی واڈیا، بھی ممبئی ہی میں رہائش پذیر ہیں لیکن بھارتی حکومت نے ''جناح ہاؤس'' اُن کے حوالے بھی نہیں کیا۔ یہاں کچھ عرصہ برٹش ہائی کمیشن بھی کرائے دار رہاہے۔اب مگر کئی برسوں سے یہ خالی ہے اور تباہی کی طرف گامزن ہے۔
پوری پاکستانی قوم کوجناح ہاؤس سے جو پیار اور اُنس ہے، اِسی ناتے سے پاکستان نے بھارت سے بار بار درخواست کی ہے کہ ''جناح ہاؤس'' میں کم از کم پاکستان کا قونصل خانہ قائم کرنے ہی کی اجازت دے دی جائے لیکن متعصب بھارتی حکام پاکستانی درخواستوں پر کان دھرنے کو تیار ہیں نہ پاکستان مخالف مودی حکومت بات سننے کی روادار۔ قائد اعظم ؒ کے اِس یوم پیدائش کا تقاضا یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ''جناح ہاؤس'' پر بھارتی قبضے کی ہر کوشش ناکام بنا دیں۔