کون سمجھائے کہ آپ حکومت میں ہیں
کہاں گئی وہ چوری کی ان گنت داستانیں جو آپ جلسوں اور کنٹینر پر سنایا کرتے تھے
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیسی حکومت ہے۔ خود ہی کام کرتی ہے پھر خود ہی اس پر رونے لگ جاتی ہے۔اب مثال لے لیں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کا چیئرمین خود ہی بنایا ہے، اب خود ہی اس پر رونے لگ گئے ہیں۔
کیا کوئی عمران خان، شیخ رشید اور فواد چوہدری سے سوال کرنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ اگر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیرمین بنانا اتنا ہی غلط تھا تو کیوں بنایا۔ایک تو مشکل یہ ہو گئی ہے کہ یوٹرن اور موقف سے انحراف کو نئی تشریح اور تعریف کے تحت بڑے لیڈر کی نشانی بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ سوال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جب حکومت نے یہ طے کر لیا تھا کہ شہباز شریف کرپٹ ہیں۔ ان پر نیب کے مقدمات ہیں، اس لیے انھیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیرمین نہیں بنایا جائے گا تو پھر کیوں بنایا ہے۔ کیا یہ یوٹرن بھی ایک بڑے لیڈر کی نشانی ہے۔
شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر نکالنے پر بھی عمران خان اور ان کے ساتھی اعتراض کر رہے ہیں۔ کون ان کو بتائے کہ یہ آپ کی حکومت ہے۔ اسپیکر آپ کا ہے۔ قومی اسمبلی میں آپ کی اکثریت ہے ، حکومت آپ کی ہے۔ یہ پروڈکشن آرڈر آپ نے نکالے ہیں۔ آپ نے پہلے کہاکہ ریمانڈ میں پروڈکشن آرڈر نہیں نکالے جا سکتے۔ پھر نکال دیے۔ آپ نے پہلے ہمیں سمجھایا کہ خواجہ سعد رفیق کی ضمانت عدالت نے مسترد کی ہے۔ اس لیے ان کا کیس شہباز شریف سے مختلف ہے۔ لہذا خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آردڑ کسی بھی صورت نہیں نکالے جا سکتے۔ یہ عدلیہ کی توہین ہو گی۔ بعد میں آپ نے یہ پروڈکشن آرڈر جاری کر دیے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اسے یوٹرن کو کیا کہوں یا ایک بڑے لیڈر کی نشانی ؟
جان کی امان پاؤں تو سوال کرنے کی جرات کر نا چاہتا ہوں کہ پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ کیوں منسٹر اینکلیومیں اپوزیشن لیڈر کے گھر کو سب جیل قرار دیا گیا ہے۔ اگر دیا ہے تو اعتراض کس سے ہے۔ کیوں نہیں شہباز شریف کو اڈیالہ جیل میں رکھا جاتا۔ انھیں صبح ہتھکڑی میں اڈیالہ جیل سے پیدل قومی اسمبلی لائیں تا کہ پوری قوم دیکھ سکے اور شام کو پیدل واپس لے کر جائیں۔ کیوں وی آئی پی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ خود ہی کر رہے ہیں خود ہی شور مچا رہے ہیں۔اسے پنجابی میں کہتے ہیں ،''نالے چوری نالے چتر''
شیخ رشید کی بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کو یہ ریلیف اس لیے مل رہاہے کہ شہباز شریف کی گوٹی فٹ ہو گئی ہے۔ سادہ زبان میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کے معاملات طے ہو گئے ہیں۔ اگر یہ معاملات حکومت سے فٹ نہیں ہوئے ہیں تو پھر تو یہ ایک ڈمی حکومت ہے۔ معاملات کہیں اور فٹ ہو گئے ہیں اورحکومت سے کسی نے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں، پوری حکومت نے دستانے پہنے ہوئے ہیں کے مصداق یہ حکومت خود ہی شور مچا رہی ہے۔ یہ کیا حکمت عملی ہے؟ کس کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے ۔ ہر بات میں یہ حکومت وضاحتیں دینا شروع کر دیتی ہے کہ ہم نے تو ابھی تک کرپشن کا کوئی کیس نہیں بنایا ہے۔ یہ سب پہلے کے کیس ہیں۔ بھائی اگر آپ نے ابھی تک کرپشن کا کوئی کیس نہیں بنایا ہے تو یہ آپ کی کارکردگی نہیں نا اہلی ہے۔ الیکشن سے پہلے کرپشن کرپشن کا شور تو اتنا مچایا ہوا تھا اور اب ایک کیس بھی نہیں بنایا۔ کہاں گئی کرپشن کی وہ داستانیں۔ کہاںگئے وہ دو سو ارب ڈالر جو آپ نے پہلے سو دن میں ملک میں واپس لانے تھے۔ کہاں گئی وہ اربوں کی چوریاں جو آپ نے روک کر ملک کی تقدیر بدل دینی تھی۔
کیوں اب تک حکومت نے تمام کرپٹ افراد کے خلاف ریفرنس فائل نہیں کیے۔ اب تو ایف آئی اے سمیت کرپشن کے خلاف کام کرنے والے متعدد ادارے حکومت کے ماتحت ہیں۔ آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ وزارت داخلہ اپنے پاس ہی اس لیے رکھ رہے ہیں کہ آپ نے ایف آئی اے سے بڑے بڑے چور پکڑنے ہیں۔ اب تک کیوں نہیں پکڑے۔ اگر نیب سست ہے تو حکومت خو د پکڑے۔ کیوں نہیں ہر محکمے کے بڑے چوروں کے خلاف اب تک ریفرنس فائل ہوئے۔
اگر آپ نے احتساب پر کوئی مفاہمت نہیں کرنی تو یہ بریک کس نے لگائی ہوئی ہے۔ یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ آپ نے کرپشن اور چور چور کے نعرے کو اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ آپ کے پاس کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کہا ں گئے وہ فرانزک آڈٹ جو آپ نے کرانے کا اعلان کیا تھا۔ کہاں گئی وہ چوری کی ان گنت داستانیں جو آپ جلسوں اور کنٹینر پر سنایا کرتے تھے۔ اب تو پی ٹی آئی وزراء کی جائیدادوں کی داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ کیوں نہیں آپ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو بدل دیتے جب نیب نے ان کے بارے میں بیان جاری کر دیا ہے کہ وہ نیب کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جب کہ ان کو کلین چٹ ملنے کا دعویٰ غلط ثابت ہو گیا ہے۔
کیا کوئی سوال کرنے کی جرات کر سکتا ہے کہ ایک دن حکومتی رکن ریاض فتیانہ نے ایک ٹی وی شو میں خواجہ سعد رفیق کی حمایت کی تو آپ نے برا منایا۔ لیکن جب انھوں نے پرواہ نہیں کی تو آپ نے ان کو فوری ملاقات کے لیے بلا لیا۔ پھر ان کو قومی اسمبلی کی سب سے اہم کمیٹی قانون و انصاف کی سربراہی بھی دے دی۔
کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ اپوزیشن تو چور ہے۔ ملک لوٹ کر کھا گئی ہے۔لیکن یہ آپ کے اتحادی کیوں اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ٹھیک ہے اپوزیشن چور ہے۔ ان سے بات نہیں ہو سکتی لیکن یہ اپنے اتحادیوں کو کون سمجھائے گا کہ بھائی اپوزیشن چور ہے، ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملانی۔ ان کے ساتھ قومی اسمبلی کا بائیکاٹ نہیں کرنا۔ نیب کے خلاف بات نہیں کرنی۔ چیئرمین نیب کو لکھے گئے احتجاجی خط پر دستخط نہیں کرنے۔ جن کے ووٹوں پر آپ وزیر اعظم بنے ہیں۔ جو آپ کے ساتھ کابینہ میں بیٹھے ہیں ۔ جب وہ ہی آپ کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں تو کیا سمجھا جائے۔
کیا احتساب شریف اور زرداری پر شروع ہو کر انھیں پر ختم ہو جاتا ہے۔ باقی سب حاجی نمازی ہیں۔ کون مانے گا کہ آپ کے ساتھ بیٹھے سب حاجی نمازی ہیں۔ ایک طرف نواز شریف کی نا اہلی ٹھیک ہے دوسری طرف جہانگیر ترین کی نا اہلی غلط ہے۔ ایک طرف ن لیگ کی گرفتاریاں ٹھیک ہیں دوسری طرف تحریک انصاف کے لوگوں کو نوٹس بھی نہیں آرہے اس کو کون ٹھیک مانے گا۔ کون مانے گا پورا ملک صرف دو خاندان کھا گئے ہیں باقی سب ایماندار ہیں۔ کرپشن کے حمام میں سب نے برابر غسل کیا ہوا ہے۔کون عمران خان کو سمجھائے گا کہ اب آپ حکومت میں ہیں۔ اب آپ نے کچھ کر کے دکھانا ہے۔ احتساب اور کرپشن کے محاذ پر بھی آپ کی کارکردگی صفر ہے۔یہ رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔