ہماری تہذیب کیا ہے
تعلیم ضروری ہے لیکن اخلاقی قدروں کی بات کی جائے تو پہلے اچھے شہری بن جائیں
'' آرٹس کونسل میں بحث کرا لیجیے، رسالوں میں مضمون لکھ لیجیے، تاہم یہ مسئلہ کہ ہماری تہذیب کیا ہے، طے ہوتا نظر نہیں آتا۔ طے ہوکیسے، ابھی تک تو یہی فیصلہ نہیں ہو پایا کہ اس کی بنیاد کس چیز پر ہے۔ ہمارے اٹھنے بیٹھنے اور ملنے جلنے کے طریقے کیا ہیں؟ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں اور یہ سوال کوئی مابعد الطبیعاتی سوال نہیں، محض ایک قومی و معاشرتی سوال ہے۔''
مندرجہ بالا اقتباس ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کی کتاب ''تہذیب و تخلیق'' کے ایک مضمون ''سرسید، اکبر اور ہمارے تہذیبی تقاضے'' سے میں نے منتخب کیا ہے۔ میری اس تحریر کا بھی مرکزی عنوان موضوع اور خیال بھی اسی کے محور میں ہے۔
پچھلے ہی مہینے آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام فنون، ادب کے حوالے سے بہت بڑی تقاریب منعقد کی گئی تھیں جس میں سندھی اردو تھیٹر اور بعد میں انٹرنیشنل اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جوکہ بڑے پیمانے پر ہوکر اختتام پذیر ہوئیں۔
میں یہاں پر کسی بھی تقاریب کی تعریفوں کے پل نہیں باندھوں گی، لیکن ان عوامل پر قلم اٹھانا ضروری سمجھوں گی جسے اکثر اوقات لوگ نظر انداز کردیتے ہیں وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی کچھ نہیں کر پاتا۔
جب ہم لوگوں کے جھرمٹ میں موجود ہوتے ہیں، اس وقت ہر قسم کے طبقے، نسل، زبان اور فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے طور طریقے اٹھنے بیٹھنے، بات کرنے کے انداز تک اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ وہ ہی وقت ہوتا ہے جب ہم کسی دوسرے انسان کے اندر کا مزاج، خیال، سوچ، ان سب سے آگاہ ہونا شروع ہوتے ہیں۔ چاہے ہمارا اس سے کوئی رشتہ نہ بھی ہو۔
چنانچہ اگر بات کی جائے لوگوں کے طور طریقے اور ان کے تقاریب میں جاکر خود کو تقریب کے حساب سے ڈھالنے کی تو میں نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جہاں بڑی سنجیدہ تقاریب منعقد ہوتی ہیں لیکن وہاں موجود لوگوں میں کچھ لوگ اس طرح کے نظر آتے ہیں کہ وہ اس تقریب کو تفریح کی جگہ سمجھ کر آئے ہوتے ہیں ۔
ایک لکھاری کی حیثیت سے ہی نہیں ایک عام انسان کی طرح میں بھی بہت سے لوگوں میں اٹھتی بیٹھتی ہوں اور بہت سے عوامل اور علامتیں تہذیبی حوالے سے جانتی ہوں۔
جیساکہ میں نے شروع میں کہا کہ پچھلے ہی مہینے آرٹس کونسل میں ادبی تقاریب منعقد کی گئیں، میرا نقطہ آغاز یہ ہے کہ اس طرح کے پروگرام میں ہمیشہ یہی تصورکیا جاتا ہے کہ بڑے پڑھے لکھے، اہل قلم، کتاب سے پیار کرنے والے لوگ جمع ہوں گے۔
ایسا بالکل تھا لیکن مایوسی یہ دیکھ کر ہوئی کہ ان میں سے اکثر پڑھے لوگوں نے وہ طور طریقے اٹھنے بیٹھنے کے انداز دکھا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ صرف پڑھے لکھے ضرور ہیں، تہذیب یافتہ نہیں۔ حیرت تب ہوئی جب (ادبی اجلاس) یا کہا جائے کہ ادبی پروگرام شروع ہونے سے پہلے مائیک انتظامیہ آرٹس کونسل پر بار بار موبائل آف یا سائلینٹ کے لیے کہا گیا، لیکن اس کے باوجود ہال میں بیٹھے اکثر لوگوں کے موبائل بیچ اجلاس میں بجتے رہے اور تقریب میں بیٹھے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی توجہ پروگرام سے ہٹتی رہی۔
اسی طرح کچھ افراد کی یہ عادت دیکھتے ہوئے حیرت ہوئی کہ جب پروگرام ہال میں شروع ہوچکا ہو اور نیچے قطار میں بیٹھے لوگ فیس بک اور واٹس ایپ پر مصروف رہے۔ مسلسل ان کے موبائل کے اسکرین کی روشنی آنکھوں کو چبھتی رہی۔ وہ خود تو پروگرام نہیں دیکھ رہے تھے لیکن ہمیں پریشانی ہوتی رہی، تھیٹر میں انتظامیہ کے منع کرنے کے باوجود گود میں بچے لے کر آنا اور ان بچوں کا رونا دھونا ڈراما دیکھتے وقت توجہ ہٹتی رہی۔
ارسطو دنیا کا بہت بڑا فلاسفر مانا گیا ہے اس نے بھی زندگی کے تین قسم کے پہلوؤں کو ہی اہمیت دی، جس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ انسان کی زندگی کے تین پہلوؤں کو اکٹھا لے کر چلیں تو زندگی بہت اچھی گزرتی ہے، ایک علم کی جستجو، اچھے شہری ہونے کے فرائض اور قانون کی پاسداری اور اپنی تفریحات کا ساز و سامان سے بھی استفادہ کریں۔
ارسطو نے یہاں اچھے شہری پر زور یوں دیا ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی کے پیمانے اصول وضوابط کے ساتھ متعین کرلینے چاہئیں، قانون کی وہ پاسداری جس میں آپ بلاوجہ پکڑے نہ جائیں، لائنیں نہ توڑیں، اصولوں پر چل کر سیدھی اور اچھی زندگی بسر کریں اور زندگی کو اپنے لیے بھی آسان بنائیں اور دوسروں کے لیے بھی۔
سو اس تہذیب کو کس طرح بچایا جائے لیکن تہذیب کا تعلق بھی تو اخلاقیات سے ہے۔ پھر اخلاقی قدروں کی بات کی جائے تو اس کا براہ راست تعلق گھر کی تربیت سے ہوتا ہے۔ تعلیم ضروری ہے لیکن اخلاقی قدروں کی بات کی جائے تو پہلے اچھے شہری بن جائیں پھر ہی ہم اچھے قلم کار، صنعت کار، تخلیق کار اور اچھے پاکستانی بن سکتے ہیں۔
مندرجہ بالا اقتباس ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کی کتاب ''تہذیب و تخلیق'' کے ایک مضمون ''سرسید، اکبر اور ہمارے تہذیبی تقاضے'' سے میں نے منتخب کیا ہے۔ میری اس تحریر کا بھی مرکزی عنوان موضوع اور خیال بھی اسی کے محور میں ہے۔
پچھلے ہی مہینے آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام فنون، ادب کے حوالے سے بہت بڑی تقاریب منعقد کی گئی تھیں جس میں سندھی اردو تھیٹر اور بعد میں انٹرنیشنل اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جوکہ بڑے پیمانے پر ہوکر اختتام پذیر ہوئیں۔
میں یہاں پر کسی بھی تقاریب کی تعریفوں کے پل نہیں باندھوں گی، لیکن ان عوامل پر قلم اٹھانا ضروری سمجھوں گی جسے اکثر اوقات لوگ نظر انداز کردیتے ہیں وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی کچھ نہیں کر پاتا۔
جب ہم لوگوں کے جھرمٹ میں موجود ہوتے ہیں، اس وقت ہر قسم کے طبقے، نسل، زبان اور فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے طور طریقے اٹھنے بیٹھنے، بات کرنے کے انداز تک اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ وہ ہی وقت ہوتا ہے جب ہم کسی دوسرے انسان کے اندر کا مزاج، خیال، سوچ، ان سب سے آگاہ ہونا شروع ہوتے ہیں۔ چاہے ہمارا اس سے کوئی رشتہ نہ بھی ہو۔
چنانچہ اگر بات کی جائے لوگوں کے طور طریقے اور ان کے تقاریب میں جاکر خود کو تقریب کے حساب سے ڈھالنے کی تو میں نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جہاں بڑی سنجیدہ تقاریب منعقد ہوتی ہیں لیکن وہاں موجود لوگوں میں کچھ لوگ اس طرح کے نظر آتے ہیں کہ وہ اس تقریب کو تفریح کی جگہ سمجھ کر آئے ہوتے ہیں ۔
ایک لکھاری کی حیثیت سے ہی نہیں ایک عام انسان کی طرح میں بھی بہت سے لوگوں میں اٹھتی بیٹھتی ہوں اور بہت سے عوامل اور علامتیں تہذیبی حوالے سے جانتی ہوں۔
جیساکہ میں نے شروع میں کہا کہ پچھلے ہی مہینے آرٹس کونسل میں ادبی تقاریب منعقد کی گئیں، میرا نقطہ آغاز یہ ہے کہ اس طرح کے پروگرام میں ہمیشہ یہی تصورکیا جاتا ہے کہ بڑے پڑھے لکھے، اہل قلم، کتاب سے پیار کرنے والے لوگ جمع ہوں گے۔
ایسا بالکل تھا لیکن مایوسی یہ دیکھ کر ہوئی کہ ان میں سے اکثر پڑھے لوگوں نے وہ طور طریقے اٹھنے بیٹھنے کے انداز دکھا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ صرف پڑھے لکھے ضرور ہیں، تہذیب یافتہ نہیں۔ حیرت تب ہوئی جب (ادبی اجلاس) یا کہا جائے کہ ادبی پروگرام شروع ہونے سے پہلے مائیک انتظامیہ آرٹس کونسل پر بار بار موبائل آف یا سائلینٹ کے لیے کہا گیا، لیکن اس کے باوجود ہال میں بیٹھے اکثر لوگوں کے موبائل بیچ اجلاس میں بجتے رہے اور تقریب میں بیٹھے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی توجہ پروگرام سے ہٹتی رہی۔
اسی طرح کچھ افراد کی یہ عادت دیکھتے ہوئے حیرت ہوئی کہ جب پروگرام ہال میں شروع ہوچکا ہو اور نیچے قطار میں بیٹھے لوگ فیس بک اور واٹس ایپ پر مصروف رہے۔ مسلسل ان کے موبائل کے اسکرین کی روشنی آنکھوں کو چبھتی رہی۔ وہ خود تو پروگرام نہیں دیکھ رہے تھے لیکن ہمیں پریشانی ہوتی رہی، تھیٹر میں انتظامیہ کے منع کرنے کے باوجود گود میں بچے لے کر آنا اور ان بچوں کا رونا دھونا ڈراما دیکھتے وقت توجہ ہٹتی رہی۔
ارسطو دنیا کا بہت بڑا فلاسفر مانا گیا ہے اس نے بھی زندگی کے تین قسم کے پہلوؤں کو ہی اہمیت دی، جس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ انسان کی زندگی کے تین پہلوؤں کو اکٹھا لے کر چلیں تو زندگی بہت اچھی گزرتی ہے، ایک علم کی جستجو، اچھے شہری ہونے کے فرائض اور قانون کی پاسداری اور اپنی تفریحات کا ساز و سامان سے بھی استفادہ کریں۔
ارسطو نے یہاں اچھے شہری پر زور یوں دیا ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی کے پیمانے اصول وضوابط کے ساتھ متعین کرلینے چاہئیں، قانون کی وہ پاسداری جس میں آپ بلاوجہ پکڑے نہ جائیں، لائنیں نہ توڑیں، اصولوں پر چل کر سیدھی اور اچھی زندگی بسر کریں اور زندگی کو اپنے لیے بھی آسان بنائیں اور دوسروں کے لیے بھی۔
سو اس تہذیب کو کس طرح بچایا جائے لیکن تہذیب کا تعلق بھی تو اخلاقیات سے ہے۔ پھر اخلاقی قدروں کی بات کی جائے تو اس کا براہ راست تعلق گھر کی تربیت سے ہوتا ہے۔ تعلیم ضروری ہے لیکن اخلاقی قدروں کی بات کی جائے تو پہلے اچھے شہری بن جائیں پھر ہی ہم اچھے قلم کار، صنعت کار، تخلیق کار اور اچھے پاکستانی بن سکتے ہیں۔