قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور دوقومی نظریہ کا نفاذ
کانگریسی راہ نماؤں نے ان کی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوششوں کو کبھی بارآور نہیں ہونے دیا
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی 72 سالہ زندگی کے تقریباً چوالیس سال قومی سیاست کے حوالے سے بسر کیے۔ مذکورہ چوالیس سال کے دوران انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس، ہوم رول لیگ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کی آزادی، ہندو مسلم اتحاد اور ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کی۔ 1906 میں وہ انڈین نیشنل کانگریس کے رُکن ہوئے۔
پھر 1913 میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے جو خالصتاً مسلمانوں کی سیاسی جماعت کے طور پر 1906 میں قائم ہوئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ ستمبر 1916 میں ہندوستان کے عوام کو حکومتِ خود اختیاری دلانے کے لیے قائم کی جانے والی جماعت ہوم رول لیگ میں انہوں نے جون 1917 میں شمولیت اختیار کی اور بمبئی ہوم رول لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ اس سال الٰہ آباد میں ہوم رول لیگ کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ مطالبات کی حمایت کریں کیوں کہ ہوم رول لیگ کا مقصد بھی انہی مطالبات کا حصول ہے جو 1916 کے مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں 'میثاقِ لکھنؤ' کی صورت میں منظور کیے گئے ہیں۔
محمد علی جناح کی سیاسی حکمتِ عملی نے اُس دَور میں ہی یہ ثابت کردیا تھا کہ ہندوستان کے سیاسی منظر پر وہ واحد راہ نما ہیں جو کسی قوم پرستانہ رویے سے بالاتر ہوکر ہندوستان کی آزادی، ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
اسی دَور میں اُن کو 'ہندو مسلم اتحاد کے سفیر' کے خطاب سے بھی یاد کیا گیا۔ محمد علی جناح کی یہ جدوجہد ایک طویل عرصہ تک جاری رہی مگر آہستہ آہستہ اُن پر واضح ہوتا چلا گیا کہ کانگریس کے ہندو راہ نما ہندوستان کی آزادی تو چاہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو اُن کے جائز حقوق کسی طور پر بھی دینے کو تیار نہیں بلکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندوستان میں 'ہندو راج' قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا راج جس میں مسلمان ایک پسماندہ اور محکوم اقلیت کے طور پر زندگی بسر کریں۔ محمد علی جناح اس صورتِ حال کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لہٰذا انہوں نے ہندوستان کے آئینی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت برطانیہ کے نمائندوں اور کانگریسی رہنماؤں سے متعدّد بار مذاکرات کیے لیکن ہندو رہنماؤں نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھی۔ ان مذاکرات کے ذریعہ ہی محمد علی جناح نے یہ اُصول واضح کیا کہ ہندوستان کے فرقہ وارانہ آئینی مسئلہ کا حل صرف اور صرف مطالبۂ پاکستان کی منظوری میں مضمر ہے کیوں کہ اس خطے میں مسلمان ایک علیٰحدہ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ مسئلہ ہمیشہ برقرار رہا اور اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں تقریباً نوے سال سرگرم عمل رہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد جناح نے ابتداً ہندو مسلم اتحاد کے لیے وسیع پیمانے پر کوششیں کیں لیکن کانگریسی راہ نماؤں نے ان کوششوں کو کبھی بارآور ہونے نہیں دیا۔ دراصل انڈین نیشنل کانگریس اور خصوصاً قوم پرست راہ نما موہن داس کرم چند گاندھی کسی قیمت پر بھی ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود کو یا اُن کی علیحدہ کسی خودمختار حیثیت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔
میثاقِ لکھنؤ کی صورت میں 1916 میں مسلمانوں کو اس ضمن ایک جزوی کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن اس کے بعد تقسیم ہند تک ہندوؤں کی جانب سے کسی خیرسگالی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ 1928 میں نہرو رپورٹ کانگریس کے مسلم دشمنی رویہ کی بدترین مثال قرار دی جاسکتی ہے۔ اسی رپورٹ کے بعد مسلم راہ نماؤں کے اذہان میں ایک علیٰحدہ مسلم ریاست کا تصوّر متشکل ہونا شروع ہوا اور 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے اپنے جلسہ میں ایک علیٰحدہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی۔ 1930 میں گول میز کانفرنس میں بھی جب فرقہ وارانہ مسائل کے حل کا سوال آیا تو ہندو راہ نماؤں نے عدم تعاون کا مظاہرہ کیا۔ دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ ستمبر 1931 میں گاندھی جی نے مسلمان مندوبین کی جانب سے فرقہ وارانہ مسائل کے ضمن میں کسی بھی مطالبہ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اور دیگر مندوبین نہرو رپورٹ کو اُس کی کلیت میں تسلیم کرلیں۔ گاندھی کی اس شرط سے ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ مسئلہ کا حل تعطل کا شکار ہوگیا۔
1935 میں نئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا اعلان کیا گیا۔ اس ایکٹ میں فرقہ وارانہ مسئلہ کا جو حل تجویز کیا گیا تھا وہ مایوس کن تھا لیکن جناح نے یہ استدلال کیا کہ ''اگر یہ ایوارڈ قبول نہ کیا گیا تو پھر کوئی آئینی اسکیم ممکن نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جناح کسی ایسے متبادل فارمولے کے لیے بھی تیار تھے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہو لہٰذا جب کانگریس کے صدر راجندر پرشاد نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کے آغاز کی تجویز پیش کی تو جناح نے فوری طور پر آمادگی ظاہر کردی۔ جناح اور کانگریس کے صدر کے درمیان جنوری اور مارچ 1935 میں گفتگو کا آغاز ہوا۔
لیکن ان مذاکرات کے نتیجے میں جو فارمولا مرتب کیا گیا وہ خود چند کانگریسی رہنماؤں کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ جہاں تک انتہا پسند ہندو رہنماؤں کا تعلق تھا ان میں سے بیشتر نے اس فارمولے کی مخالفت کی۔ اس طرح یہ مذاکرات مایوس کن حالات میں ختم ہوگئے۔ 1935 سے 1940 تک قائداعظم محمد علی جناح برابر ہندو مسلم مفاہمت کے لیے جدوجہد کرتے رہے لیکن اُن کو ہر مرحلہ پر مایوس ہونا پڑا۔ اس ضمن میں انہوں نے کانگریس کے تمام سرکردہ رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ 1937 میں کانگریس وزارتوں نے ہندو اکثر یتی صوبوں میں مسلمانوں پر عرصۂ زندگی تنگ کردیا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا ملی۔ جناح نے نہرو کی توجہ اس جانب دلائی مگر وہ بھی جناح کے نقطۂ نظر پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ اگرچہ مسلم لیگ کو ایک اہم فرقہ پرست تنظیم تصوّر کرتے ہیں لیکن دیگر مسلمان تنظیموں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔''
اس صورتِ حال میں بھی جناح اپنے موقف پر قائم رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک کانگریس مساوی بنیادوں پر لیگ کو تسلیم نہیں کرلیتی اور ہندو مسلم مفاہمت کے سلسلہ میں مذاکرات پر آمادگی ظاہر نہیں کرتی اُس وقت تک ہندوستان کے مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔ 1938 میں جناح اور کانگریس کے نئے صدر سبھاش چندر بوس کے درمیان خط و کتابت کا تبادلہ ہوا لیکن یہ بھی نتیجہ خیر ثابت نہیں ہوا۔
محمد علی جناح کے کانگریسی راہ نماؤں سے مذاکرات اور کانگریسی حکم رانی والے صوبوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اس بات کا واضح ثبوت تھے کہ کانگریس مسلمانوں کے کسی مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتی ہے۔ بہرحال جناح نے اس کے باوجود ہندوستان کے دو بڑے فرقوں کے درمیان مفاہمت کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ انہوں نے یکم جنوری 1940 کو گاندھی کے نام ایک خط میں لکھا کہ ''وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی راہ نکالنے کے لیے اپنا اثر و رُسوخ استعمال کریں۔'' لیکن کانگریس کے راہ نما مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ و تیار نہیں تھے۔ اس صورتِ حال میں جناح کا حتمی ردِّعمل یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک علیٰحدہ وطن ہونا چاہیے۔
1941 سے 1947 تک محمد علی جناح نے ابو الکلام آزاد، گاندھی جی، جواہرلال نہرو، سرتیج بہادر سپرو، راجندر پرشاد، راج گوپال اچاریہ، خضرحیات وغیرہ سے خط و کتابت اور مذاکرات کیے لیکن ہندو مسلم مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہا۔ راج گوپال اچاریہ نے 1944 میں مسلم لیگ اور کانگریس کی مفاہمت کے لیے ایک فارمولا مرتب کیا۔ اگرچہ اس فارمولے کی شرائط مطالبۂ پاکستان کی روح کے منافی تھیں لیکن جناح نے ان شرائط پر ستمبر 1944 میں گاندھی سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی، لیکن مذاکرات کے دوران گاندھی نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ جناح سے کانگریس کی جانب سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں ملاقات کررہے ہیں۔ گاندھی نے یہ بھی کہا کہ وہ جناح کے اس خیال کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی ذاتی حیثیت میں ایک علیٰحدہ قوم ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں قائداعظم محمد علی جناح کے لیے قابل قبول نہیں تھیں۔
اگرچہ قائداعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور 1940 میں دو قومی نظریہ کی وضاحت کرچکے تھے لیکن انہوں نے اس مرحلے پر گاندھی کو 17 ستمبر 1944 کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا کہ ''ہمارا دعویٰ ہے کہ قومیت کی ہر تعریف اور معیار کی رو سے ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ ہماری قوم دس کروڑ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہ کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنے خاص تہذیب و تمدن، زبان و اَدب، فنون و تعمیرات، اسم و اصطلاحات، معیارِ قدر و تناسب، تشریعی قوانین، ضوابطہ اخلاق، رسم و رواج، نظامِ تقویم، تاریخ و روایات اور رجحانات و عزائم رکھتی ہے۔ غرض یہ کہ ہمارا ایک خاص نظریۂ حیات ہے اور زندگی کے متعلق ہم ایک ممتاز تصوّر رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اُصولوں کے مطابق ہم ایک قوم ہیں۔''
ان مذاکرات کے دوران یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آگئی کہ گاندھی درحقیقت یہ چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت پہلے ہندوستان چھوڑے اس کے بعد ہندوستان کی تقسیم کے سوال پر غور کیا جائے۔ محمد علی جناح چوں کہ گاندھی کے اس موقف کی تائید نہیں کرسکتے تھے اس لیے یہ مذاکرات ختم ہوگئے۔ لیکن محمد علی جناح کے کانگریسی راہ نماؤں سے مذاکرات اور خط و کتابت سے یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ ہندو مسلم مسئلہ کا حل دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم ہند میں مضمر ہے لہٰذا حکومت برطانیہ نے آنے والے برسوں میں فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل کے لیے تقسیم ہند کو ناگزیر تصوّر کرلیا اور 14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح کی ایک ایسی کام یابی تھی جس نے اُن کو دُنیا کے عظیم مدبروں کی صف میں کھڑا کردیا۔
پھر 1913 میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے جو خالصتاً مسلمانوں کی سیاسی جماعت کے طور پر 1906 میں قائم ہوئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ ستمبر 1916 میں ہندوستان کے عوام کو حکومتِ خود اختیاری دلانے کے لیے قائم کی جانے والی جماعت ہوم رول لیگ میں انہوں نے جون 1917 میں شمولیت اختیار کی اور بمبئی ہوم رول لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ اس سال الٰہ آباد میں ہوم رول لیگ کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ مطالبات کی حمایت کریں کیوں کہ ہوم رول لیگ کا مقصد بھی انہی مطالبات کا حصول ہے جو 1916 کے مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں 'میثاقِ لکھنؤ' کی صورت میں منظور کیے گئے ہیں۔
محمد علی جناح کی سیاسی حکمتِ عملی نے اُس دَور میں ہی یہ ثابت کردیا تھا کہ ہندوستان کے سیاسی منظر پر وہ واحد راہ نما ہیں جو کسی قوم پرستانہ رویے سے بالاتر ہوکر ہندوستان کی آزادی، ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
اسی دَور میں اُن کو 'ہندو مسلم اتحاد کے سفیر' کے خطاب سے بھی یاد کیا گیا۔ محمد علی جناح کی یہ جدوجہد ایک طویل عرصہ تک جاری رہی مگر آہستہ آہستہ اُن پر واضح ہوتا چلا گیا کہ کانگریس کے ہندو راہ نما ہندوستان کی آزادی تو چاہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو اُن کے جائز حقوق کسی طور پر بھی دینے کو تیار نہیں بلکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندوستان میں 'ہندو راج' قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا راج جس میں مسلمان ایک پسماندہ اور محکوم اقلیت کے طور پر زندگی بسر کریں۔ محمد علی جناح اس صورتِ حال کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لہٰذا انہوں نے ہندوستان کے آئینی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت برطانیہ کے نمائندوں اور کانگریسی رہنماؤں سے متعدّد بار مذاکرات کیے لیکن ہندو رہنماؤں نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھی۔ ان مذاکرات کے ذریعہ ہی محمد علی جناح نے یہ اُصول واضح کیا کہ ہندوستان کے فرقہ وارانہ آئینی مسئلہ کا حل صرف اور صرف مطالبۂ پاکستان کی منظوری میں مضمر ہے کیوں کہ اس خطے میں مسلمان ایک علیٰحدہ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ مسئلہ ہمیشہ برقرار رہا اور اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں تقریباً نوے سال سرگرم عمل رہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد جناح نے ابتداً ہندو مسلم اتحاد کے لیے وسیع پیمانے پر کوششیں کیں لیکن کانگریسی راہ نماؤں نے ان کوششوں کو کبھی بارآور ہونے نہیں دیا۔ دراصل انڈین نیشنل کانگریس اور خصوصاً قوم پرست راہ نما موہن داس کرم چند گاندھی کسی قیمت پر بھی ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود کو یا اُن کی علیحدہ کسی خودمختار حیثیت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔
میثاقِ لکھنؤ کی صورت میں 1916 میں مسلمانوں کو اس ضمن ایک جزوی کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن اس کے بعد تقسیم ہند تک ہندوؤں کی جانب سے کسی خیرسگالی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ 1928 میں نہرو رپورٹ کانگریس کے مسلم دشمنی رویہ کی بدترین مثال قرار دی جاسکتی ہے۔ اسی رپورٹ کے بعد مسلم راہ نماؤں کے اذہان میں ایک علیٰحدہ مسلم ریاست کا تصوّر متشکل ہونا شروع ہوا اور 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے اپنے جلسہ میں ایک علیٰحدہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی۔ 1930 میں گول میز کانفرنس میں بھی جب فرقہ وارانہ مسائل کے حل کا سوال آیا تو ہندو راہ نماؤں نے عدم تعاون کا مظاہرہ کیا۔ دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ ستمبر 1931 میں گاندھی جی نے مسلمان مندوبین کی جانب سے فرقہ وارانہ مسائل کے ضمن میں کسی بھی مطالبہ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اور دیگر مندوبین نہرو رپورٹ کو اُس کی کلیت میں تسلیم کرلیں۔ گاندھی کی اس شرط سے ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ مسئلہ کا حل تعطل کا شکار ہوگیا۔
1935 میں نئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا اعلان کیا گیا۔ اس ایکٹ میں فرقہ وارانہ مسئلہ کا جو حل تجویز کیا گیا تھا وہ مایوس کن تھا لیکن جناح نے یہ استدلال کیا کہ ''اگر یہ ایوارڈ قبول نہ کیا گیا تو پھر کوئی آئینی اسکیم ممکن نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جناح کسی ایسے متبادل فارمولے کے لیے بھی تیار تھے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہو لہٰذا جب کانگریس کے صدر راجندر پرشاد نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کے آغاز کی تجویز پیش کی تو جناح نے فوری طور پر آمادگی ظاہر کردی۔ جناح اور کانگریس کے صدر کے درمیان جنوری اور مارچ 1935 میں گفتگو کا آغاز ہوا۔
لیکن ان مذاکرات کے نتیجے میں جو فارمولا مرتب کیا گیا وہ خود چند کانگریسی رہنماؤں کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ جہاں تک انتہا پسند ہندو رہنماؤں کا تعلق تھا ان میں سے بیشتر نے اس فارمولے کی مخالفت کی۔ اس طرح یہ مذاکرات مایوس کن حالات میں ختم ہوگئے۔ 1935 سے 1940 تک قائداعظم محمد علی جناح برابر ہندو مسلم مفاہمت کے لیے جدوجہد کرتے رہے لیکن اُن کو ہر مرحلہ پر مایوس ہونا پڑا۔ اس ضمن میں انہوں نے کانگریس کے تمام سرکردہ رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ 1937 میں کانگریس وزارتوں نے ہندو اکثر یتی صوبوں میں مسلمانوں پر عرصۂ زندگی تنگ کردیا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا ملی۔ جناح نے نہرو کی توجہ اس جانب دلائی مگر وہ بھی جناح کے نقطۂ نظر پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ اگرچہ مسلم لیگ کو ایک اہم فرقہ پرست تنظیم تصوّر کرتے ہیں لیکن دیگر مسلمان تنظیموں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔''
اس صورتِ حال میں بھی جناح اپنے موقف پر قائم رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک کانگریس مساوی بنیادوں پر لیگ کو تسلیم نہیں کرلیتی اور ہندو مسلم مفاہمت کے سلسلہ میں مذاکرات پر آمادگی ظاہر نہیں کرتی اُس وقت تک ہندوستان کے مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔ 1938 میں جناح اور کانگریس کے نئے صدر سبھاش چندر بوس کے درمیان خط و کتابت کا تبادلہ ہوا لیکن یہ بھی نتیجہ خیر ثابت نہیں ہوا۔
محمد علی جناح کے کانگریسی راہ نماؤں سے مذاکرات اور کانگریسی حکم رانی والے صوبوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اس بات کا واضح ثبوت تھے کہ کانگریس مسلمانوں کے کسی مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتی ہے۔ بہرحال جناح نے اس کے باوجود ہندوستان کے دو بڑے فرقوں کے درمیان مفاہمت کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ انہوں نے یکم جنوری 1940 کو گاندھی کے نام ایک خط میں لکھا کہ ''وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی راہ نکالنے کے لیے اپنا اثر و رُسوخ استعمال کریں۔'' لیکن کانگریس کے راہ نما مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ و تیار نہیں تھے۔ اس صورتِ حال میں جناح کا حتمی ردِّعمل یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک علیٰحدہ وطن ہونا چاہیے۔
1941 سے 1947 تک محمد علی جناح نے ابو الکلام آزاد، گاندھی جی، جواہرلال نہرو، سرتیج بہادر سپرو، راجندر پرشاد، راج گوپال اچاریہ، خضرحیات وغیرہ سے خط و کتابت اور مذاکرات کیے لیکن ہندو مسلم مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہا۔ راج گوپال اچاریہ نے 1944 میں مسلم لیگ اور کانگریس کی مفاہمت کے لیے ایک فارمولا مرتب کیا۔ اگرچہ اس فارمولے کی شرائط مطالبۂ پاکستان کی روح کے منافی تھیں لیکن جناح نے ان شرائط پر ستمبر 1944 میں گاندھی سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی، لیکن مذاکرات کے دوران گاندھی نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ جناح سے کانگریس کی جانب سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں ملاقات کررہے ہیں۔ گاندھی نے یہ بھی کہا کہ وہ جناح کے اس خیال کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی ذاتی حیثیت میں ایک علیٰحدہ قوم ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں قائداعظم محمد علی جناح کے لیے قابل قبول نہیں تھیں۔
اگرچہ قائداعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور 1940 میں دو قومی نظریہ کی وضاحت کرچکے تھے لیکن انہوں نے اس مرحلے پر گاندھی کو 17 ستمبر 1944 کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا کہ ''ہمارا دعویٰ ہے کہ قومیت کی ہر تعریف اور معیار کی رو سے ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ ہماری قوم دس کروڑ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہ کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنے خاص تہذیب و تمدن، زبان و اَدب، فنون و تعمیرات، اسم و اصطلاحات، معیارِ قدر و تناسب، تشریعی قوانین، ضوابطہ اخلاق، رسم و رواج، نظامِ تقویم، تاریخ و روایات اور رجحانات و عزائم رکھتی ہے۔ غرض یہ کہ ہمارا ایک خاص نظریۂ حیات ہے اور زندگی کے متعلق ہم ایک ممتاز تصوّر رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اُصولوں کے مطابق ہم ایک قوم ہیں۔''
ان مذاکرات کے دوران یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آگئی کہ گاندھی درحقیقت یہ چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت پہلے ہندوستان چھوڑے اس کے بعد ہندوستان کی تقسیم کے سوال پر غور کیا جائے۔ محمد علی جناح چوں کہ گاندھی کے اس موقف کی تائید نہیں کرسکتے تھے اس لیے یہ مذاکرات ختم ہوگئے۔ لیکن محمد علی جناح کے کانگریسی راہ نماؤں سے مذاکرات اور خط و کتابت سے یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ ہندو مسلم مسئلہ کا حل دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم ہند میں مضمر ہے لہٰذا حکومت برطانیہ نے آنے والے برسوں میں فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل کے لیے تقسیم ہند کو ناگزیر تصوّر کرلیا اور 14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ بلاشبہ قائداعظم محمد علی جناح کی ایک ایسی کام یابی تھی جس نے اُن کو دُنیا کے عظیم مدبروں کی صف میں کھڑا کردیا۔