قائداعظم اور مسلمان قوم وہ پوری قومی شخصیت کا مظہر تھے

اگر قائداعظم کی شخصیت کو پوری قوم سے الگ کردیا جائے تو ان کا کارنامہ ایک تاریخی حقیقت بن جاتا ہے


محمد حسن عسکری December 25, 2018
اگر قائداعظم کی شخصیت کو پوری قوم سے الگ کردیا جائے تو ان کا کارنامہ ایک تاریخی حقیقت بن جاتا ہےفوٹوفائل

بعض لوگوں کو اس بات پر تعجب کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ مسلمان جیسی جذبات پرست قوم نے قائداعظم جیسے حقیقت پسند اور عملی انسان کو اپنا راہ نما کیسے تسلیم کرلیا اور ان سے اتنی زبردست عقیدت اور محبت کیسے پیدا ہوگئی، کیوںکہ ظاہر میں دونوں کے مزاج میں انتہائی تضاد معلوم ہوتا ہے، مگر جن لوگوں کو اس بات پر حیرت ہوتی ہے وہ دراصل مسلمان قوم کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔ مسلمانوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ تدبر سے نہیں، بلکہ خطابت سے خوش ہوتے ہیں۔

انھیں سوچ بچار اتنا پسند نہیں، بلکہ نعرے چاہئیں۔ انھوں نے شاعرانہ طبیعت پائی ہے، حقیقت پسندی سے لگاؤ نہیں۔ یہ سب الزامات صرف ایک حد تک درست ہیں۔ اگر مسلمان نعروں سے خوش ہوتے ہیں تو اس لیے کہ ان کے مذہب نے ان کے سامنے انسانی زندگی کے چند مثالی تصورات رکھے تھے اور انھیں سکھایا تھا کہ انسانیت کی معراج یہ ہے کہ ان تصورات کے تحفظ کی خاطر آدمی اپنی جان دینے تک سے دریغ نہ کرے۔ یہ تعلیم تیرہ سو سال کے عرصے میں مسلمانوں کے خون میں حل ہوکے رہ گئی ہے اور ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔

انھیں نعرے پسند آتے ہیں، کیوںکہ ان کی زندگی کی تکمیل عظیم الشان عزائم کے بغیر نہیں ہوتی۔ انھیں نعرے بے حقیقت نہیں معلوم ہوتے، کیوںکہ انھوں نے اپنی تیرہ سو سالہ تاریخ کے دوران دیکھا ہے کہ یقین اور ہمت ہو تو بڑے سے بڑے عزائم حقیقت بن سکتے ہیں۔ یہی مسلمانوں کی جذبات پرستی اور شاعرانہ مزاج ہے۔ مسلمان آسان کام کے لیے اتنی جلدی آمادہ نہیں ہوتا جتنی جلدی مشکل کام کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمان جب اس مثالیت پرستی میں غلو کرتا ہے تو شیخی خورا بن کے رہ جاتا ہے، لیکن یہ مثالیت پرستی حقیقت بینی کے منافی نہیں ہے۔

یہ دونوں چیزیں ساتھ چل سکتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے دوران میں دیکھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ اس لیے ہوگئے کہ اسے ایک خوش نما اور بلند آہنگ نعرہ یعنی پاکستان کا تصور مل گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کی مخالف جماعتوں نے اس سے بھی زیادہ بلند آہنگ نعرے مسلمانوں کے سامنے پیش کیے، بلکہ بعض جماعتوں نے تو عالم گیر اقتدار کا خواب دکھانا چاہا، مگر مسلمانوں نے اس قسم کی خیال آرائیوں کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ یہ حقیقت پسندی تو نہیں کیا ہے؟

پاکستان کا مطالبہ دوسروں کو چاہے بلند بانگ نعرہ ہی معلوم ہوتا ہے، مگر مسلمانوں کے لیے اس میں مثالیت پرستی اور حقیقت بینی دونوں کی شرائط پوری ہوتی تھیں۔ جب مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ پیش کیا تھا تو یہ صرف ایک بے پناہ عزم کا مظاہرہ نہیں تھا، بلکہ انھیں یقین تھا کہ حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے اور بعد میں مسلمانوں میں بس جذبات پرستی ہی جذبات پرستی ہے، حقیقت کا احساس بالکل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو قائداعظم مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کر ہی نہیں سکتے تھے۔ ہم قائداعظم کے کارنامے کو اس وقت تک صحیح طور سے نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ پوری مسلمان قوم کو نظروں میں نہ رکھیں۔

آخر قائداعظم کوئی مطلق فرماں روا نہیں تھے کہ جدھر وہ اشارہ کردیں دس کروڑ کے دس کروڑ آدمی اسی طرف چل پڑیں۔ لوگوں کے دل و دماغ اور قوتِ ارادی پر اتنی طاقت حاصل کرنے کے لیے انھیں پہلے تو یہ ثابت کرنا تھا کہ مجھ میں اس طاقت کے صحیح استعمال کی اہلیت موجود ہے۔ اس اہلیت کا جو ثبوت قائداعظم نے پیش کیا اور قوم نے قبول کیا وہ نہ تو نعرے تھے، نہ خطابت، نہ شاعری، نہ جذباتی اشتعال انگیزی۔ چوںکہ قوم نے ان کی حقیقت پسندی کو اس اہلیت کا بہت کافی ثبوت سمجھا، اس لیے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان اس چیز کی بھی قدر کرسکتے تھے، یہ اور کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ قائداعظم نے مسلمانوں کے دل میں اس طرح گھر کرلیا۔ جب لوگ قائداعظم کی بے مثال ہر دل عزیزی پر تعجب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ قوم اس بات کی اہل ہی نہیں تھی کہ اس کے درمیان ایسا راہ نما پیدا ہو اور یہ بالکل اتفاق ہے، لیکن اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قائداعظم کا پورا کارنامہ ہی ناممکن بن جاتا ہے، کیوںکہ قوم کی تائید اور حمایت کے بغیر پاکستان کا حصول ممکن ہی نہیں تھا۔

اگر قائداعظم کی شخصیت کو پوری قوم سے الگ کردیا جائے تو ان کا کارنامہ ایک تاریخی حقیقت بن جاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ قائداعظم سے پہلے مسلمانوں کی سیاست میں نعروں کا بہت زور تھا، لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہماری سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ ہماری قومی انفرادیت میں بھی فرق نہ آئے اور ہم ہندوؤں کے ساتھ مل جل کر ایک ہی ملک میں رہ بھی سکیں۔ پھر ہمارے اندر آزادی کا جذبہ ایسا زبردست تھا کہ سب کی طرف سے اپنے آپ قربانیاں دینے کو تیار تھے۔

ایسے زمانے میں اگر نعروں کا یا جذبات پرستی کا زور ہو تو کوئی تعجب نہیں، لیکن اس زمانے میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہم نے حقیقت بینی سے یک قلم کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ مولانا محمد علی کی تحریروں میں ہمیں سیاسی حالات کے خالص معروضی مطالعے بھی ملتے ہیں، بلکہ ان کے مضامین میں یہ احساس بھی موجود ہے کہ شاید ہمیں حالات سے مجبور ہوکر اپنا الگ ملک بنانا پڑے، تو حقیقت پسندی کا علم تو اس زمانے میں بھی موجود تھا۔ اس وقت دوسروں کو یہ موقع دے رہے تھے کہ وہ اس خلوص اور دیانت داری کا ثبوت پیش کریں۔ ممکن ہے کہ اس کوشش میں ہمیں نقصان بھی اٹھانا پڑا ہو، لیکن یہ کوشش ایسی نہیں جس پر کوئی شریف قوم شرمائے۔ آخر یہ ہماری قومی عالی حوصلگی کا مظاہرہ ہی تو تھا۔ البتہ جب ہم نے یہ دیکھا کہ دوسری طرف والے ہم سے تو عالی حوصلگی کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن اپنے آپ انصاف تک برتنے کو تیار نہیں ہیں تو پھر ہمیں بھی اپنے رویے میں بنیادی تبدیلی کرنی پڑی۔ اب ہم نے ٹھیک حقیقت پسندی اختیار کی اور اپنے لیے الگ مملکت کا مطالبہ کیا۔ یہ صرف عجوبہ یا اتفاق نہیں ہے کہ ہم نے قائداعظم کو اپنا راہ نما مان لیا۔ دراصل اس وقت ہم من حیث القوم مثالیت کے بجائے حقیقت کی طرف راغب تھے، کیوںکہ ہم دیکھ چکے تھے کہ دوسری طرف والے ہماری مثالیت پرستی سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

حقیقت پسندی کا عنصر ہماری شخصیت میں پہلے بھی موجود تھا، اب اس کے ابھرنے کا وقت آیا۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ قوم نے قائداعظم کو اپنا رہنما بنالیا، البتہ یہ اتفاق کی بات ضرور ہے کہ جب ہم حقیقت پسندی کی طرف مائل ہوئے تو ہمیں قائداعظم جیسے دل و دماغ اور حوصلے والا رہنما مل گیا۔ اگر قوم میں ان کی خوبیوں کو سمجھنے اور قدر کرنے کی اہلیت نہ ہوتی تو آج پاکستان ہمارے سامنے کیسے موجود ہوتا؟ قائداعظم بہرصورت پوری قومی شخصیت کا مظہر تھے، اور ان کے پس منظر سے الگ کرکے ہم انھیں نہیں سمجھتے سکتے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قائداعظم ہماری قومی شخصیت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے، اور انھوں نے ''باہر'' سے آکے ہماری راہ نمائی کی۔ یہ غلط ہے، قائداعظم اس وجہ سے عظیم المرتبت ہیں کہ وہ ہماری قومی شخصیت کے بعض اہم پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

جس طرح مولانا محمد علی چند دوسرے اہم پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ ہمارے لیے اس زمانے میں اس وجہ سے ناگزیر تھے کہ ہمیں قومی جدوجہد کے اس مرحلے پر صرف حقیقت پسندی، سیاسی سوجھ بوجھ اور کردار ہی نہیں چاہییں تھے، بلکہ محکم یقین اور مضبوط کردار بھی۔ یہ ساری خوبیاں قائداعظم میں جمع ہوگئی تھیں اور فی زمانہ کسی دوسرے مسلمان لیڈر میں نہیں تھیں۔ اس لیے مسلمان اس طرح ان کے گرویدہ ہوئے۔

بعض لوگ قائداعظم کی بڑائی اس میں سمجھتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں قوم کو ہلکا کرکے دکھایا جائے۔ یہ نقطۂ نظر خود قائداعظم کو ناپسند تھا۔ انھوں نے خود کئی دفعہ اپنی تقریروں میں کہا ہے کہ پوری قوم کے مقابلے میں میری کوئی ہستی نہیں ہے، میں تو قوم کی قوتِ ارادی کا آلۂ کار ہوں۔ اتنے بڑے راہ نما چھوٹی قوموں میں پیدا نہیں ہوا کرتے اور پیدا بھی ہوتے ہیں تو بے اثر رہتے ہیں اور اس طرح ان کا عدم وجود برابر ہے۔ ایسا راہ نما تو ایک بارِ امانت ہے جسے تاریخ بغیر سوچے سمجھے اٹھا کر پھینک نہیں دیتی، بلکہ بڑے امتحان لینے کے بعد کسی قوم کو بخشتی ہے۔

ہمیں قائداعظم جیسا راہ نما ملا، کیوںکہ تاریخ ہمارے دل گردے اور دست و بازو کا امتحان لے چکی تھی اور ہمیں اس اعزاز کا اہل سمجھتی تھی۔ اس انداز کا راہ نما ہندو قوم میں پیدا نہیں ہوسکتا تھا، کیوںکہ اس قوم کا مزاج ہی دوسری قسم کا ہے۔ قائداعظم صرف مسلمان قوم میں پیدا ہوسکتے تھے، ان کی شخصیت اس شدید مثالیت پرستی اور حقیقت پسندی کا سنگم تھی جو تاریخ میں ہماری قوم کی خصوصیت رہی ہے اور ان کا کارنامہ تو خیر بے مثال ہے ہی، مگر ان کی عظمت یہ ہے کہ وہ ہماری قومی شخصیت کا مظہر تھے۔ ان کے بغیر ان کا کارنامہ، تکمیل پاہی نہیں سکتا تھا۔ قائداعظم کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ایک بڑے راہ نما تھے اور ایک بڑی قوم میں پیدا ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں