’’مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے‘‘

قائداعظم کا وہ پاکستان جو چُھپا لیا گیا


Muhammad Usman Jami December 25, 2018
قائداعظم کا وہ پاکستان جو چُھپا لیا گیا فوٹو : فائل

یہ بحث عشروں سے جاری ہے کہ ''قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟'' انگریزی فکشن نگار محمد حنیف نے بجا طور پر، الفاظ سے قطع نظر اس مفہوم کی بات کہی تھی کہ اس پر تو بات ہوسکتی ہے کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے، لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ وہ ایسا پاکستان نہیں چاہتے تھے جیسا اسے بنادیا گیا ہے۔

درحقیقت اس سوال کے ذریعے قوم کو نظری بحث میں اُلجھایا گیا ہے۔ دانش وروں نے اس نزاع کو اپنے ذہنی تعیش، موشگافیوں اور خودنمائی کا آلہ بنائے رکھا ہے، تو ذرائع ابلاغ خصوصاً برقی میڈیا نے خود کو میسر آنے والی ''محدود آزادی برائے لامحدود انتشار'' کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تنازعے کے ذریعے اپنی ریٹنگ بڑھانے کا کام لیا ہے۔

اس ساری بحث میں یہ سچائی فراموش کردی گئی کہ جو راہ نما جمہوریت کا دل دادہ ہو، جو ریاستی فیصلوں میں جمہور کی کثرت رائے کو فوقیت دینے کا تہہِ دل سے قائل ہو، وہ اپنی خواہش، رائے یا سوچ کو عوام پر مسلط کرنے کا خوگر کیسے ہوسکتا ہے؟ محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ، برصغیر کے مسلم عوام کے متفقہ قائد اور تحریک پاکستان کے میرکارواں کی حیثیت سے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسی مملکت تعمیر کرنے کی کوششوں میں منہمک تھے جہاں اس خطے کے مسلمانوں کے مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور ان کا اقتصادی، سماجی اور ثقافتی مستقبل محفوظ ہو۔ قوم کی طرف سے قائداعظم کو دیا گیا ہدف بھی یہی تھا اور تحریک پاکستان کا مقصد بھی یہی۔

اس حقیقت سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی نگہ داشت اور بازیابی کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ کمیونسٹ پارٹی یا جماعت اسلامی کی طرح کوئی نظریاتی اور فلسفیانہ نظام رکھنے والی جماعت نہ تھی۔ لے دے کر ہندوستانی مسلمانوں کے ہندو اکثریت سے علیحدہ ایک قوم ہونے کا نظریہ مسلم لیگ کی سیاست اور تحریک پاکستان کا محور تھا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ پاکستان کی بنیاد بننے والا معروف دو قومی نظریہ کس طرح ''اُمت'' اور ''ملت'' کے اسلامی تصورات سے مختلف اور مغربی تصورقومیت کے قریب تر ہے۔ چناں چہ مسلم لیگ مختلف الخیال مسلمانوں کی جماعت تھی اور تحریک پاکستان بھی باہم متضاد فکری مکاتب سے وابستہ افراد نے شانہ بہ شانہ چلائی، اور یوں پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی جائے امان کے طور پر وجود میں آیا۔

اس پس منظر میں اس نئی مملکت کی نظریاتی سمت کا تعین تین طریقوں سے ممکن تھا: قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں، رائے عامہ کے ذریعے، کسی جبر (انقلاب) کے نتیجے میں۔ ملک کی مقتدر قوتوں اور طاقت ور طبقات کے لیے یہ تینوں صورتیں ہی گوارہ نہ تھیں، کیوں کہ تینوں صورتوں میں انھیں اپنے ماورائے قانون اختیارات، مفادات اور طاقت کی قربانی دینی پڑتی۔ صوبائی، قومیتی اور لسانی اختلافات اور سیاسی تماشوں میں انقلاب محض ایک رومانی تصور اور نعرہ بنارہا، رائے عامہ کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا گیا، رہے قائداعظم کے افکار، تو ایک طرف ''قائداعظم کا پاکستان'' کے خواب کے ذریعے عوام کو ملک کی سمت دکھائی گئی، لیکن ''اسلامی'' اور ''سیکولر'' کی اصطلاحات اور ہر دو ریاستی نظاموں کا پرچار کرتے بابائے قوم کے اقوال وافعال کے مباحث قوم کو کولہو کے بیل کی طرح اس نکتے کے گرد گھمارہے ہیں کہ ''قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔''

سرکاری تقاریب اور تقاریر سے میڈیا کے مناظروں اور مذاکروں اور سیاسی جماعتوں کے جلسوں تک آپ کو قائداعظم محمدعلی جناح کی فکر کے جو نکات بکھرے ملیں گے وہ اسلامی ریاست، سیکولرازم، جمہوریت، قوم کے اتحاد اور مضبوط ومستحکم پاکستان کے موضوعات پر آکر ختم ہوجاتے ہیں۔ بابائے قوم کے اقتصادی ویژن، سرمایہ داری نظام، جاگیردانہ نظام اور عام آدمی کے معاشی حقوق کے بارے میں ان کے اقوال بیان کرنے سے دانستہ گریز کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اقوال تصورات کی اس دنیا سے متعلق نہیں جہاں ''قائداعظم کے پاکستان'' کا ''یوٹوپیا'' خیالات کی لیزرشعاعوں سے تعمیر کرکے عوام کو بہلایا جاتا رہا ہے، اور یہ نظری معرکہ آرائیاں اور اتحادواستحکام کی تلقین مقتدر اور زورآور طبقات کے مفادات پر خطرے کا سایہ تک نہیں ڈالتیں۔ اس کے برعکس قائداعظم کے سرمایہ داری، جاگیرداری اور معیشت سے متعلق اقوال براہ راست افلاس، ظلم واستحصال کے شکار عام پاکستانی کی زندگی سے متعلق ہیں، یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی، اس لیے یہ چراغ جلنے ہی نہیں دیے جاتے۔

محمدعلی جناح جس مسلم قوم کے لیے جدوجہد کر رہے تھے وہ انگریز کی غلامی میں مبتلا اور ہندو اکثریت کے تعصب ہی کا ہدف نہ تھی، اپنے ہم مذہب جاگیرداروں، نوابوں اور سرداروں کی فرعونیت اور ظلم نشانہ بھی تھی، یہ صورت حال اس قوم کے قائد پر پوری طرح عیاں تھی۔ پھر سرمایہ داری کے گڑھ لندن میں برسوں گزارنے اور ہندوستان میں بہ طور وکیل اور سیاست داں سرگرم رہنے والے اس ذہین وفطین راہ نما پر غلام ہندوستان میں زرگر انگریزوں کے زیراقتدار سرمایہ داروں اور سودخور مہاجنوں کا لالچ، سرمائے میں بڑھوتری اور مزدور کے خون سے زر کشید کرنے کے لیے ان کے ہتھ کنڈے بھی پوری طرح آشکار تھے۔ ایسے میں وہ ان معاملات پر خاموش رہتے تو یہ امر حیرت انگیز ہی نہیں ہوتا بہت سے سوال بھی چھوڑ جاتا۔ اگر ان حقائق پر انھوں نے کم بات کی تو اس کی وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ مسلم عوام کی قیادت کرنے والے جاگیردار طبقے کو خائف کرکے وہ پاکستان کی منزل نہیں پاسکتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے جب جب ان حقائق پر بات کی کُھل کر بات کی۔ ان کی پاکستان بننے سے تقریباً چار سال قبل کی گئی اس تقریر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

''پاکستان میں عوام کی حکومت ہوگی۔ میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہہ کرنا چاہوں گا جنھیں ایک فاسد اور ظالمانہ نظام نے اتنا بے حس اور خودغرض بنادیا ہے کہ کسی دلیل یا فہمائش کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے اور وہ اسلام کی تعلیمات کو بُھلا بیٹھے ہیں۔ لالچ کے باعث یہ لوگ عوام کی بہتری کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے، کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا پاکستان اسی لیے بنایا جارہا ہے کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال جاری رہے؟ اگر یہی پاکستان کا تصور ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے۔''

(مسلم لیگ کے تئیسویں سالانہ اجلاس سے خطاب، 24 اپریل1943)

تو صاحب! جہاں عام آدمی کا استحصال ہو وہ قائداعظم کا مطلوبہ پاکستان ہے ہی نہیں۔

ایک اور اہم موقع پر قیام پاکستان کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:

''ہمارا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ مال دار لوگ اور زیادہ مال دار ہوجائیں اور دولت چند ہاتھوں میں اکٹھی ہوجائے۔ ہمارا مطمعٔ نظر یہ ہونا چاہیے کہ عوام کے معیارِزندگی کے درمیان فرق دور کریں۔ ہمارا نصب العین اسلامی معیشت ہونا چاہیے نہ کہ سرمایہ دارانہ نظام۔ ہمیں ہمیشہ پیشہ ورانہ مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔''

(دہلی میں مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب، 6 نومبر1944)

یعنی بانیٔ پاکستان اپنی تشکیل کردہ ریاست میں سرمایہ دارانہ نظام نہیں چاہتے تھے، جس کی بنیاد سود، سرمائے کے دیوتا کے قدموں میں ہر اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی قدر قربان کردینے اور سرمایہ داروں کو کُھلی چھوٹ دینے پر استوار ہے۔

بہ ظاہر اپنی وضع قطع، زبان اور طرززندگی میں ''مغرب زدہ'' نظر آنے والے محمد علی جناح مغربی اقدار اور نظریات، خاص کر مغرب کے اقتصادی نظام سے کس حد تک بے زار تھے، اس کا اندازہ ان الفاظ سے ہوتا ہے:

''مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش وخرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس

انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔''

(اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب، یکم جولائی 1948)

یہ ہیں بابائے قوم کے وہ صاف، واضح اور زمین سے جُڑے افکار جن سے پہلوتہی ہی نہیں کی گئی انھیں پردۂ اخفا میں رکھنے کی بھی ہرممکن کوشش کی گئی ہے۔ یہی وہ افکار ہیں جو بتاتے ہیں کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے اور کیا ہے ''قائداعظم کا پاکستان''، ان اقوالِ قائد کو عملہ جامہ پہنائے بغیر پاکستان کے ساتھ ''اسلامی'' کا لاحقہ لگادیں، سیکولرازم کا چولا پہنادیں یا جمہوریت کے لبادے میں ملبوس کردیں، وہ قائداعظم کا پاکستان کسی طور نہیں ہوسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں