مصر میں جمہوریت کا قتل

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک تصویر دیکھی۔ ایک سماجی ویب سائٹ پر پوسٹ ہونے والی یہ تصویر عام سے طرزِزندگی کی عکاسی کر...


Sana Ghori July 09, 2013
[email protected]

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک تصویر دیکھی۔ ایک سماجی ویب سائٹ پر پوسٹ ہونے والی یہ تصویر عام سے طرزِزندگی کی عکاسی کر رہی تھی، جس میں ایک چالیس پینتالیس برس کا ایک شخص اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہا تھا۔ بہ ظاہر اس تصویر میں کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی، لیکن ایک چیز حیرت میں ڈالنے والی تھی، وہ کوئی عام آدمی نہیں تھا۔ زمین پر بچھے دسترخوان پر کھانا کھاتا سادگی کی تصویر بنا یہ شخص مصر کا صدر محمد مُرسی تھا۔

اقتدار کے نشے میں تو بڑے بڑوں کو فرعون بنتے دیکھا، لیکن فرعونوں کے دیس میں اس تصویر کی اشاعت سے کچھ ہی عرصہ پہلے حکومت سنبھالنے والے اس ر ہنما کے تیور ہی کچھ اور تھے۔وہ یہ جانتا تھا کہ ابھی وہ دنیا کے سامنے کم زور ہے، مگر اس کی غیرت اور حمیت میں کوئی ضعف نہ تھا اور وہ مسلم امہ کی طاقت پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے کسی مسلم ملک پر حملے کی صورت میں مغربی دنیا سے عدم تعاون کا اعلان کیا۔ اندرون ملک بھی اس نے زورآوروں کی دھاندلی سے سمجھوتا نہیں کیا، اور بدعنوانی کے ذریعے کھربوں ڈالر مالیت کی جاگیریں بنالینے والے جرنیلوں کو سزا دلوائی۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے انتہاپسندی اور بنیادپرستی کا لیبل لگنے کا اندیشہ جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اس نے شراب خانوں پر پابندی لگادی اور اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق ملک چلانے کا فیصلہ کیا، کہ اس کی جماعت کو اسی طرز حکومت کے لیے مینڈیٹ ملا تھا۔

حسنی مبارک کے طویل آمرانہ اور جابرانہ دور کے انقلاب کی طوفانی موجوں میں تنکے کی طرح بہہ جانے کے بعد ہونے والے انتخابات میں محمد مُرسی ملک کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوئے۔

30 جون 2012 کو منصب صدارت سنبھالنے والے محمد مُرسی کو لاتعداد چیلینجز کا سامنا تھا۔ وہ اس اخوان المسلمون کے نمایندے تھے جو امریکا اور سیکولر دنیا کی نظر میں ہمیشہ سے قابل گردن زدنی رہی ہے۔ مصر میں عشروں تک مظالم سہہ کر جمہوریت کے مسلمہ راستے سے اقتدار میں آنے والی اس اسلامی جماعت کی حکومت امریکا اور اس کے حواریوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور اسلامی طرز حیات پر یقین رکھنے والی اس جماعت کی حکومت کو امریکا کے لاڈلے اسرائیل کے لیے خطرہ سمجھا جارہا تھا۔ مُرسی کو اس حقیقت کا پوری طرح ادراک تھا کہ اسرائیل نواز مغربی حکومتیں خاص طور پر وہائٹ ہاؤس ان کی حکومت کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، اس کے باوجود انھوں نے اسرائیل کو واشگاف الفاظ میں متنبہ کردیا کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم نہ ڈھائے۔ دوسری طرف اپنے لگ بھگ ایک سالہ دورِاقتدار میں انھوں نے اپنے ملک میں اصلاحات کی ہر ممکن کوشش کی، جن میں سرفہرست آئین سازی ہے، جس میں انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا اور اسلامی قوانین نافذ کیے گئے۔ انھوں نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ مخالفین سے محاذ آرائی نہ ہو، چناں چہ بیوروکریسی میں شامل حسنی مبارک کے وفاداروں کو نکالنے سے گریز کیا گیا۔ آمریت کے پٹھو یہ بیوروکریٹس اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مُرسی کی اصلاحات اور اقدامات کو ناکام بناتے یا ان کا اثر کم کرتے رہے۔

آخر کار بیوروکریسی سے فوج تک ہر جگہ بااثر طاقت ور سیکولر، مغرب نواز اور آمریت پرست حلقوں نے ملک کی سیکولر سیاسی قوتوں کی مدد سے حکومت گرانے کی سازش کا آغاز کردیا، جو 4جولائی کو رنگ لائی اور فوج نے بغاوت کرتے ہوئے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ ساتھ ہی معذول صدر اور ان کے کئی دیگر ساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ مصری فوج کے سربراہ ابوالفتح السیسی نے اپنے اقدام کا جواز یہ بتایا کہ مرسی حکومت عوام کی توقعات پر پوری اترنے میں ناکام رہی۔ مرسی کے مخالفین نے فوج کے اس اقدام کو سراہا اور اسے انقلاب کا نام دیا ہے۔یہ کیسا انقلاب ہے، جس میں 52 فی صد ووٹ لے کر منتخب ہونے والی آئینی حکومت کو ایک سال مکمل ہوتے ہی زور زبردستی سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

جہاں تک توقعات پر پورا اترنے یا مطالبات ماننے کا تعلق ہے تو صرف ایک سال کی مختصر مدت میں ''توقعات'' پوری نہ ہونے پر حکومت چھوڑ دینے کا غیرآئینی اور غیرمنطقی مطالبہ کیسے اور کیوں مانا جاسکتا تھا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریر اسکوائر پر بہ طور احتجاج جمع افراد سے حکومت اور فوج مل کر مذاکرات کرتیں اور کوئی موزوں راستہ اختیار کیا جاتا۔ لیکن فوج کا مقصد طے شدہ تھا۔ احتجاجی تحریک سے مرسی حکومت کے خاتمے تک تیزی سے سامنے آنے والی ڈرامائی صورت حال نے یہ واضح کردیا ہے کہ اول سے آخر تک سب کچھ ایک منصوبے کے تحت انجام پایا۔یہ بالکل سامنے کی حقیقت ہے کہ مصر کی فوج نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے اور امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی آشیرباد سے ان کی بکاؤ فوج بن کر اپنے ملک کے پہلے جمہوری حکم راں محمد مرسی کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ دیا۔

مصری فوج کے ہاتھوں جمہوریت کے قتل کی اس کارروائی پر ترک وزیراعظم طیب اردگان نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے،''ہم مصر میں دونمبر انقلاب کو نہیں مانتے۔ مرسی آج بھی مصر کے منتخب صدر ہیں اور ہم آیندہ بھی اپنے تمام معاملات ان ہی کے ساتھ طے کریں گے۔'' یہی کھرا موقف اور واضح طرز عمل ہے، جو مصر ہی کے معاملے میں نہیں ہر اس ملک کی بابت حکومتوں کو اختیار کرنا چاہیے جہاں فوج کسی بھی بہانے سے اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے۔افراد ہوں یا حکومتیں کسی ظلم اور زیادتی پر دکھاوے ہی کے لیے سہی اپنے موقف کا اظہار ضرور کرتی ہیں۔ چناں چہ امریکا کے صدر بارک اوباما نے مصر کی فوج کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے اور آئین معطل کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ہماری حکومت کے ہونٹوں پر تالے پڑے ہیں۔

ایک مسلم اور جمہوری ریاست ہونے کی حیثیت سے کسی بھی ملک، خاص کر کسی اسلامی ریاست میں رونما ہونے والے اتنے اہم واقعے پر اپنا ٹھوس موقف سامنے لانا پاکستانی حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن نہیں، غزہ ہو کہ شام یا مصر کی صورت حال ہمارے حکمراں خاموشی ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔مرسی یا اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ ایک جمہوری اور اسلامی اقدار کے نفاذ پر یقین رکھنے والی حکومت پر حملہ ہی نہیں، یہ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جانے والا اقدام بھی ہے۔ اس صورت حال میں پوری مسلم دنیا، خاص کر عالمِ اسلام میں اہم مقام رکھنے والے پاکستان کو اس حوالے سے ٹھوس اور واضح موقف اور حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، کیوں کہ یہاں سوال صرف ایک ملک کا نہیں پوری امت مسلمہ کا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں