سماجی رہنما عبدالمجید مندی کی یاد میں
انسانیت کی خدمت کرنا ایک اعزاز ہے جو اللہ کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے۔ عبدالمجید مندی بھی اس پاکیزہ جذبے سے نوازے گئے تھے۔
KARACHI:
انسانیت کی خدمت کرنا ایک اعزاز ہے جو اللہ کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے۔ عبدالمجید مندی بھی اس پاکیزہ جذبے سے نوازے گئے تھے۔ ان کا شمار ان بے غرض اور بے لوث انسانوں میں ہوتا ہے جو کسی غرض وغایت کے بغیر صرف خلق خدا کی خدمت کے لیے اپنا مال و متاع تک لٹا دیتے ہیں اور کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک لیاری کے معذور بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل تھے۔ جی ہاں! لیاری کے ممتاز بزرگ سماجی رہنما عبدالمجید مندی 13 فروری کی صبح انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 75 سال تھی۔ انھیں دل کا عارضہ لاحق تھا ان کا بائی پاس (دل کا آپریشن) بھی ہوا تھا اور یہی مرض ان کی موت کا باعث بنا۔
عبدالمجید مندی 1938 میں کراچی کے قدیم ترین علاقے لیاری میں پیدا ہوئے، میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ سولہ سال کی عمر میں سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 1960 اور 1965 میں ''بنیادی جمہوریت'' کے تحت انتخابات میں دو مرتبہ بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔ قبل ازیں انھوں نے 1954 میں ''جمعیت الاصلاح شاہ بیگ لین'' کی بنیاد رکھی۔ اس سماجی انجمن کو لیاری میں پہلے سماجی ادارے کا اعزاز حاصل ہے اس سے قبل لیاری میں سماجی انجمنیں نہیں تھیں۔ یہ انجمن آج بھی علاقے میں فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ 1960 میں نظامت سماجی بہبود (حکومت سندھ) کے تعاون سے قائم ''بغدادی، شاہ بیگ لین، کلری کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ'' کے بانی جنرل سیکریٹری نامزد ہوئے جس کے زیر اہتمام ''لیڈیز انڈسٹریل ہوم'' قائم کیا جس میں لاتعداد لڑکیاں مستفیض ہوئیں۔ 1961 میں ''کراچی کونسل فارچائلڈ ویلفیئر''(نشیمن) کے تعلقات عامہ سیکریٹری منتخب ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس ادارے کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور زندگی کی کے آخری لمحات تک وہ اس فلاحی ادارے سے منسلک رہے۔
عبدالمجید مندی نے 1966 تا 1971 تک بھرپور سماجی کردار ادا کیا اس دوران وہ کراچی ڈویژنل کونسل کے پہلے اجلاس میں ''لیاری گورنمنٹ ڈگری کالج'' اور لیاری میں مزید پرائمری وثانوی اسکول کے قیام کے لیے قراردادیں پیش کیں۔
1967 میں مجوزہ مذکورہ کالج کو آتما رام پریتم داس روڈ (موجودہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ) پر قائم کرنے کی تجویز دی جسے نظرانداز کرکے پرانا حاجی کیمپ میں قائم کیا گیا۔ بعدازاں سن 2000 میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت ''لیاری گورنمنٹ ڈگری کالج '' صدر ٹاؤن کی حدود میں شامل ہوگیا۔ اس طرح لیاری ایک اعلیٰ درس گاہ سے محروم ہوگیا۔ موجودہ پی پی پی حکومت کے دور میں لیاری گورنمنٹ ڈگری کالج کو یہاں سے منتقل کر کے لیاری کے علاقے بکرا پیڑی علامہ اقبال کالونی میں منتقل کیا گیا ہے جہاں جگہ کم ہونے کی وجہ سے یہ کالج مختلف مسائل کا شکار ہے۔ اس کالج کے بدلے جو بے نظیر بھٹو شہید یونی ورسٹی قائم کی گئی ہے وہ بھی جگہ کم ہونے کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبدالمجید مندی کی تجویز درست تھی اگر اس ڈگری کالج کو آتما رام پریتم داس روڈ کے برابر میں قائم کیا جاتا تو آج یونی ورسٹی اور کالج مسائل کا شکار نہ ہوتے۔
1967 ہی میں مجید مندی نے حکومت کے تیسرے پنج سالہ منصوبے میں لیاری میں چار ہائی اسکول، ایک ٹیکنیکل اسکول اور لیاری کے اسکولوں کے ساتھ قائم ناجائز قابضین کو ہٹوا کر طالب علموں کے لیے خوش گوار ماحول پیدا کیا۔ 1968 میں لیاری کے بعض اسکولوں کی چار دیواری تعمیر کروائی۔ اسی سال لیاری کے طالب علموں کو شہر کے تعلیمی اداروں میں داخلے نہ ملنے اور نجی تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی فیس پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ لیاری کے غریب طالب علموں کو بھی وہ تمام سہولتیں فراہم کی جائیں جو دوسرے علاقوں کے طالب علموں کو حاصل ہیں اور مقامی تعلیمی اداروں کی فیس کم اور یکساں رکھی جائے۔
یاد رہے کہ اس زمانے میں لیاری کے اسکول پانی، بجلی اور سیوریج کے نظام سے یکسر محروم تھے جس کی وجہ سے طالب علموں کو سخت پریشانی اور دشواریوں کے سامنا تھا۔بہرکیف اس کے ساتھ ہی انھوں نے ''گورنمنٹ سیکنڈری اسکول'' کی منتقلی پر شدید احتجاج کیا۔ ان کی متعدد بار کی اپیل پر بالآخر اس وقت کی کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے لیاری کے علاقوں آگرہ تاج کالونی، بہار کالونی، نیا آباد، موسیٰ لین، بغدادی، میراں پیر، کھڈہ میمن سوسائٹی، شاہ بیگ لین، دریا آباد،گل محمد لین، چاکی واڑہ، ریکسر لین، جمن شاہ پلاٹ، کلاکوٹ، سنگھو لین، غریب آباد، لیاقت کالونی،کلری، عیدولین اور بھیم پورہ کو لیز دینے کی اپنی تجاویز کراچی میونسپل کارپوریشن کو بھجوا دیں۔
عبدالمجید مندی نے مالکانہ حقوق کی تفویض سے متعلق کے ڈی اے کی غیر منصفانہ پالیسی پر احتجاج کیا اور ماری پور روڈ پر واقع کئی منزلہ عمارتوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے اور ان میں لیاری کے بے گھروں کو آباد کرنے کا مطالبہ کیا۔ علاوہ ازیں ماری پور روڈ کے سامنے آباد قدیم باسیون کو وہاں سے منتقل کرنے کے حکم کو رکوانے میں مدد دی۔ اسی سال عبدالمجید مندی بلوچی اکیڈمی بورڈ لیاری کے خازن منتخب ہوئے۔ 1968 تا 1970 تک انھوں نے تعلیم، صحت و صفائی، تعمیرات اور پسماندہ غریب علاقوں کے رہائشیوں کو علاج و معالجے کی فراہمی پر زور دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت دیہی علاقوں پر بھی توجہ دے اور اسپنر آئی اسپتال (لی مارکیٹ) میں 50 پیسے کے بجائے 12 پیسے وصول کرے۔
انھوں نے ڈویژنل کونسل کے ہر اجلاس میں لیاری کے حقوق کے لیے آواز بلند کی کہ لیاری کو بھی دوسرے علاقوں جیسی مراعات دی جائیں جن میں پانی، بجلی، سیوریج لائن کی فراہمی، شیرشاہ روڈ لیاری ندی پر ایک پل(میراں ناکہ)، ڈینسو ہال سے ماری پور روڈ تک نالے، اسکول، لائبریری، میٹرنٹی ہوم کی تعمیر کی تجویز دینا، منتخب نمایندوں کے علم میں لائے بغیر چاکیواڑہ میں پٹرول پمپ کی تنصیب کی مذمت کرنا، لیاری کے گرفتار شدہ طلباء کی رہائی کے لیے جدوجہد کرنا، لیاری میں اقلیتی برادری کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرنا، بیمار نوجوانوں کی بحالی کے لیے مفت کلینک قائم کرنے پر زور دینا، سزائے موت کے قانون کی مخالفت کرنا، لیاری کے علاقے کو ایکسائز اور بلدیاتی ٹیکس میں پچاس فیصد چھوٹ دینے کے لیے قرارداد منظور کرانا، چاکیواڑہ سے میری ویدر ٹاور تک بس روٹ کا اجراء کرانا، پاکستان ٹیلی ویژن میں دوسرے علاقائی پروگرام کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان کے پروگرام بھی باقاعدہ پیش کرنے کا مطالبہ کرنے جیسی دیگر گزارشات تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شیرشاہ، مہاجر کالونی اور ماڑی پور کے علاقوں میں راشن شاپ سب آفس کا قیام عبدالمجید مندی کی 1968 میں منظور شدہ قرارداد کا ثمر ٹھہرا اور ان کی درخواست پر 1969 میں ٹرک اسٹینڈ ماری پور روڈ سے غوثیہ روڈ نئی کلری میں منتقل کیا گیا۔ اپنی سماجی خدمات کو صوبائی سطح پر توسیع دینے کے لیے 1970 میں صوبائی انتخابات میں حصہ لیا لیکن غربت کے باعث کامیاب نہ ہوسکے لیکن وہ مایوس نہ ہوئے۔ 1973 میں سب ڈویژن سوشل ویلفیئر کمیٹی کے سٹی سب ڈویژن کا رکن نامزد کیا گیا۔ اسی سال ان کی ایک تجویز پر حکومت سندھ نے عمل درآمد کرتے ہوئے لیاری اور کراچی کے دیگر پسماندہ علاقون کے سیکڑوں نوجوانوں کو محکمہ تعلیم میں بھرتی کیا۔
1974 سے تا مرگ مندی (مرحوم) کی مزید خدمات درج ذیل ہیں۔ میرایوب خان گرلز سیکنڈری اسکول میں دوسری شفٹ میں ہائی سیکنڈری اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا، جینوبائی جی الانہ گرلز بوائز سیکنڈری اسکول کو ہائی سیکنڈری اسکول کا درجہ دلوایا، اپنی مدد آپ کے تحت ''المہران لیارئن ایجوکیشنل سوسائٹی'' قائم کی جہاں معمولی فیس سے طلباوطالبات علم سے منور ہوتے رہے، ان کے مطالبے پر لیاری کی جانب سے لیاری میں ''مرکز بحالی معذوران اطفال'' کے قیام کے لیے اور معصوم اسپیشل بچوں کی تعلیم و تربیت اور فلاح وبہبود کے لیے ان کا شبانہ روز کردار ناقابل فراموش ہے (جو ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے) سچ پوچھو تو ان کے انتقال کے بعد یہ اسپیشل بچے اپنے والدین کے زندہ ہونے کے باوجود یتیم ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت سندھ نے انھیں ''بلڈنگ پراجیکٹ کمیٹی'' کے لیے نامزد کیا اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک وہ اس کی مینجمنٹ کے سرفہرست فعال عہدیدار رہے۔جہاں لیاری کے بے شمار معذور بچے تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
راقم نے 1992 تا 2013 تک ان کے ساتھ سماجی کاموں میں حصہ لیا۔ ایک مرتبہ پھر 1954 کی یاد تازہ کریں جس سے متاثر ہوکر حکومت پاکستان نے لیاری کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے قیام کا اعلان کیا تھا جس میں الحاج غلام محمد نورالدین نے بانی صدر کی حیثیت سے نمایاں اور دیگر سماجی کارکنان نے یادگار کامیابیاں حاصل کیں، انسانیت کی خدمت بھی ایک عبادت ہے اسے اپنا نصب العین بنائیں۔ اس طرح عبدالمجید مندی کا سماجی سفر اختتام پذیر ہوا۔ ہماری دعا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبروجمیل عطا کرے۔
انسانیت کی خدمت کرنا ایک اعزاز ہے جو اللہ کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے۔ عبدالمجید مندی بھی اس پاکیزہ جذبے سے نوازے گئے تھے۔ ان کا شمار ان بے غرض اور بے لوث انسانوں میں ہوتا ہے جو کسی غرض وغایت کے بغیر صرف خلق خدا کی خدمت کے لیے اپنا مال و متاع تک لٹا دیتے ہیں اور کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک لیاری کے معذور بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل تھے۔ جی ہاں! لیاری کے ممتاز بزرگ سماجی رہنما عبدالمجید مندی 13 فروری کی صبح انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 75 سال تھی۔ انھیں دل کا عارضہ لاحق تھا ان کا بائی پاس (دل کا آپریشن) بھی ہوا تھا اور یہی مرض ان کی موت کا باعث بنا۔
عبدالمجید مندی 1938 میں کراچی کے قدیم ترین علاقے لیاری میں پیدا ہوئے، میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ سولہ سال کی عمر میں سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 1960 اور 1965 میں ''بنیادی جمہوریت'' کے تحت انتخابات میں دو مرتبہ بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔ قبل ازیں انھوں نے 1954 میں ''جمعیت الاصلاح شاہ بیگ لین'' کی بنیاد رکھی۔ اس سماجی انجمن کو لیاری میں پہلے سماجی ادارے کا اعزاز حاصل ہے اس سے قبل لیاری میں سماجی انجمنیں نہیں تھیں۔ یہ انجمن آج بھی علاقے میں فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ 1960 میں نظامت سماجی بہبود (حکومت سندھ) کے تعاون سے قائم ''بغدادی، شاہ بیگ لین، کلری کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ'' کے بانی جنرل سیکریٹری نامزد ہوئے جس کے زیر اہتمام ''لیڈیز انڈسٹریل ہوم'' قائم کیا جس میں لاتعداد لڑکیاں مستفیض ہوئیں۔ 1961 میں ''کراچی کونسل فارچائلڈ ویلفیئر''(نشیمن) کے تعلقات عامہ سیکریٹری منتخب ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس ادارے کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور زندگی کی کے آخری لمحات تک وہ اس فلاحی ادارے سے منسلک رہے۔
عبدالمجید مندی نے 1966 تا 1971 تک بھرپور سماجی کردار ادا کیا اس دوران وہ کراچی ڈویژنل کونسل کے پہلے اجلاس میں ''لیاری گورنمنٹ ڈگری کالج'' اور لیاری میں مزید پرائمری وثانوی اسکول کے قیام کے لیے قراردادیں پیش کیں۔
1967 میں مجوزہ مذکورہ کالج کو آتما رام پریتم داس روڈ (موجودہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ) پر قائم کرنے کی تجویز دی جسے نظرانداز کرکے پرانا حاجی کیمپ میں قائم کیا گیا۔ بعدازاں سن 2000 میں نئی حلقہ بندیوں کے تحت ''لیاری گورنمنٹ ڈگری کالج '' صدر ٹاؤن کی حدود میں شامل ہوگیا۔ اس طرح لیاری ایک اعلیٰ درس گاہ سے محروم ہوگیا۔ موجودہ پی پی پی حکومت کے دور میں لیاری گورنمنٹ ڈگری کالج کو یہاں سے منتقل کر کے لیاری کے علاقے بکرا پیڑی علامہ اقبال کالونی میں منتقل کیا گیا ہے جہاں جگہ کم ہونے کی وجہ سے یہ کالج مختلف مسائل کا شکار ہے۔ اس کالج کے بدلے جو بے نظیر بھٹو شہید یونی ورسٹی قائم کی گئی ہے وہ بھی جگہ کم ہونے کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبدالمجید مندی کی تجویز درست تھی اگر اس ڈگری کالج کو آتما رام پریتم داس روڈ کے برابر میں قائم کیا جاتا تو آج یونی ورسٹی اور کالج مسائل کا شکار نہ ہوتے۔
1967 ہی میں مجید مندی نے حکومت کے تیسرے پنج سالہ منصوبے میں لیاری میں چار ہائی اسکول، ایک ٹیکنیکل اسکول اور لیاری کے اسکولوں کے ساتھ قائم ناجائز قابضین کو ہٹوا کر طالب علموں کے لیے خوش گوار ماحول پیدا کیا۔ 1968 میں لیاری کے بعض اسکولوں کی چار دیواری تعمیر کروائی۔ اسی سال لیاری کے طالب علموں کو شہر کے تعلیمی اداروں میں داخلے نہ ملنے اور نجی تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی فیس پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ لیاری کے غریب طالب علموں کو بھی وہ تمام سہولتیں فراہم کی جائیں جو دوسرے علاقوں کے طالب علموں کو حاصل ہیں اور مقامی تعلیمی اداروں کی فیس کم اور یکساں رکھی جائے۔
یاد رہے کہ اس زمانے میں لیاری کے اسکول پانی، بجلی اور سیوریج کے نظام سے یکسر محروم تھے جس کی وجہ سے طالب علموں کو سخت پریشانی اور دشواریوں کے سامنا تھا۔بہرکیف اس کے ساتھ ہی انھوں نے ''گورنمنٹ سیکنڈری اسکول'' کی منتقلی پر شدید احتجاج کیا۔ ان کی متعدد بار کی اپیل پر بالآخر اس وقت کی کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے لیاری کے علاقوں آگرہ تاج کالونی، بہار کالونی، نیا آباد، موسیٰ لین، بغدادی، میراں پیر، کھڈہ میمن سوسائٹی، شاہ بیگ لین، دریا آباد،گل محمد لین، چاکی واڑہ، ریکسر لین، جمن شاہ پلاٹ، کلاکوٹ، سنگھو لین، غریب آباد، لیاقت کالونی،کلری، عیدولین اور بھیم پورہ کو لیز دینے کی اپنی تجاویز کراچی میونسپل کارپوریشن کو بھجوا دیں۔
عبدالمجید مندی نے مالکانہ حقوق کی تفویض سے متعلق کے ڈی اے کی غیر منصفانہ پالیسی پر احتجاج کیا اور ماری پور روڈ پر واقع کئی منزلہ عمارتوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے اور ان میں لیاری کے بے گھروں کو آباد کرنے کا مطالبہ کیا۔ علاوہ ازیں ماری پور روڈ کے سامنے آباد قدیم باسیون کو وہاں سے منتقل کرنے کے حکم کو رکوانے میں مدد دی۔ اسی سال عبدالمجید مندی بلوچی اکیڈمی بورڈ لیاری کے خازن منتخب ہوئے۔ 1968 تا 1970 تک انھوں نے تعلیم، صحت و صفائی، تعمیرات اور پسماندہ غریب علاقوں کے رہائشیوں کو علاج و معالجے کی فراہمی پر زور دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت دیہی علاقوں پر بھی توجہ دے اور اسپنر آئی اسپتال (لی مارکیٹ) میں 50 پیسے کے بجائے 12 پیسے وصول کرے۔
انھوں نے ڈویژنل کونسل کے ہر اجلاس میں لیاری کے حقوق کے لیے آواز بلند کی کہ لیاری کو بھی دوسرے علاقوں جیسی مراعات دی جائیں جن میں پانی، بجلی، سیوریج لائن کی فراہمی، شیرشاہ روڈ لیاری ندی پر ایک پل(میراں ناکہ)، ڈینسو ہال سے ماری پور روڈ تک نالے، اسکول، لائبریری، میٹرنٹی ہوم کی تعمیر کی تجویز دینا، منتخب نمایندوں کے علم میں لائے بغیر چاکیواڑہ میں پٹرول پمپ کی تنصیب کی مذمت کرنا، لیاری کے گرفتار شدہ طلباء کی رہائی کے لیے جدوجہد کرنا، لیاری میں اقلیتی برادری کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرنا، بیمار نوجوانوں کی بحالی کے لیے مفت کلینک قائم کرنے پر زور دینا، سزائے موت کے قانون کی مخالفت کرنا، لیاری کے علاقے کو ایکسائز اور بلدیاتی ٹیکس میں پچاس فیصد چھوٹ دینے کے لیے قرارداد منظور کرانا، چاکیواڑہ سے میری ویدر ٹاور تک بس روٹ کا اجراء کرانا، پاکستان ٹیلی ویژن میں دوسرے علاقائی پروگرام کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان کے پروگرام بھی باقاعدہ پیش کرنے کا مطالبہ کرنے جیسی دیگر گزارشات تاریخی حیثیت کی حامل ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شیرشاہ، مہاجر کالونی اور ماڑی پور کے علاقوں میں راشن شاپ سب آفس کا قیام عبدالمجید مندی کی 1968 میں منظور شدہ قرارداد کا ثمر ٹھہرا اور ان کی درخواست پر 1969 میں ٹرک اسٹینڈ ماری پور روڈ سے غوثیہ روڈ نئی کلری میں منتقل کیا گیا۔ اپنی سماجی خدمات کو صوبائی سطح پر توسیع دینے کے لیے 1970 میں صوبائی انتخابات میں حصہ لیا لیکن غربت کے باعث کامیاب نہ ہوسکے لیکن وہ مایوس نہ ہوئے۔ 1973 میں سب ڈویژن سوشل ویلفیئر کمیٹی کے سٹی سب ڈویژن کا رکن نامزد کیا گیا۔ اسی سال ان کی ایک تجویز پر حکومت سندھ نے عمل درآمد کرتے ہوئے لیاری اور کراچی کے دیگر پسماندہ علاقون کے سیکڑوں نوجوانوں کو محکمہ تعلیم میں بھرتی کیا۔
1974 سے تا مرگ مندی (مرحوم) کی مزید خدمات درج ذیل ہیں۔ میرایوب خان گرلز سیکنڈری اسکول میں دوسری شفٹ میں ہائی سیکنڈری اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا، جینوبائی جی الانہ گرلز بوائز سیکنڈری اسکول کو ہائی سیکنڈری اسکول کا درجہ دلوایا، اپنی مدد آپ کے تحت ''المہران لیارئن ایجوکیشنل سوسائٹی'' قائم کی جہاں معمولی فیس سے طلباوطالبات علم سے منور ہوتے رہے، ان کے مطالبے پر لیاری کی جانب سے لیاری میں ''مرکز بحالی معذوران اطفال'' کے قیام کے لیے اور معصوم اسپیشل بچوں کی تعلیم و تربیت اور فلاح وبہبود کے لیے ان کا شبانہ روز کردار ناقابل فراموش ہے (جو ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے) سچ پوچھو تو ان کے انتقال کے بعد یہ اسپیشل بچے اپنے والدین کے زندہ ہونے کے باوجود یتیم ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت سندھ نے انھیں ''بلڈنگ پراجیکٹ کمیٹی'' کے لیے نامزد کیا اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک وہ اس کی مینجمنٹ کے سرفہرست فعال عہدیدار رہے۔جہاں لیاری کے بے شمار معذور بچے تعلیم و تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
راقم نے 1992 تا 2013 تک ان کے ساتھ سماجی کاموں میں حصہ لیا۔ ایک مرتبہ پھر 1954 کی یاد تازہ کریں جس سے متاثر ہوکر حکومت پاکستان نے لیاری کمیونٹی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے قیام کا اعلان کیا تھا جس میں الحاج غلام محمد نورالدین نے بانی صدر کی حیثیت سے نمایاں اور دیگر سماجی کارکنان نے یادگار کامیابیاں حاصل کیں، انسانیت کی خدمت بھی ایک عبادت ہے اسے اپنا نصب العین بنائیں۔ اس طرح عبدالمجید مندی کا سماجی سفر اختتام پذیر ہوا۔ ہماری دعا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبروجمیل عطا کرے۔