ایشیائی ممالک میں تخلیق ہونے والا انگریزی ادب
دنیا میں جن ملکوں نے بھی ترقی کی، ان سب میں ایک وصف یکساں تھاکہ انھوں نے اپنی فکراور سوچ کی رفتار کو...
THATTA/MORO:
دنیا میں جن ملکوں نے بھی ترقی کی، ان سب میں ایک وصف یکساں تھاکہ انھوں نے اپنی فکراور سوچ کی رفتار کو مدھم نہیں پڑنے دیا۔براعظم ایشیا باصلاحیت لوگوں کاخطہ ہے ۔اس میں پچاس ممالک ایسے ہیں،جوترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔بہت سارے شعبوں کی طرح شعبۂ ادب میں بھی مقابلے کی فضا ہے۔ایشیا میں کامیابی جس کے قدم چومے گی، وہی عالمی دنیا میں بھی اس براعظم کی نمایندگی کرسکے گا۔
ادب ایک ایسا شعبہ ہے،جس کے ذریعے انسان اپنے جذبات کااظہار کرتاہے ،مگر یہی ادب جب ملکی سطح پر متعارف کروایا جائے ،تو کسی قوم کی تہذیب اورشناخت کا تعارف بن جاتاہے۔یہی وجہ ہے، دنیابھر میں ادبی تخلیقات اورادیبوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔براعظم ایشیا کے وہ ممالک،جنہوں نے شعروادب اورادبی تحقیق وتنقید کے میدان میں اپنی رفتارکو اپنے ہدف سے ہم آہنگ رکھا،ان ملکوں میں سرفہرست پاکستان، بھارت،بنگلہ دیش،ایران،چین، روس،جاپان،انڈونیشیا اورترکی جیسے ممالک شامل ہیں۔ان کے قلم کاروں نے بین الاقوامی ادبی منظر نامے پر اپنا جداگانہ تشخص قائم کیا۔
ساری دنیا میں کُتب میلوں کے انعقاد میں تیزی آئی ہے۔صرف یہی نہیںبلکہ عالمی شہرت یافتہ ادبی اعزازات، جن میں سویڈن کا''نوبیل ادبی انعام'' اوربرطانیہ کا'' بُکر پرائز''ہے۔یہ عالمی ادب میں معیارکاپیمانہ بن گئے ہیں۔وہ ادیب جن کی نامزدگی ان دو اعزازات کے لیے ہوتی ہے،ان کو پوری دنیا میں توجہ ملتی ہے اوراس توجہ کو حاصل کرنے والوں میں بہت تیزی سے ایشیائی ادباء شامل ہورہے ہیں۔ا س کی تازہ ترین مثال ہمارے معروف ادیب انتظارحسین ہیں۔انھیں 2013ء کے''بُکرپرائز''کی فہرستِ نامزدگی کے دس حتمی ناموں میں شامل کیاگیا۔اس فہرست میں نامزد ہونا بھی بذات خود ایک اعزاز ہے۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایشیا کا ادب پوری دنیا میں مقبول ہو رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش،ترکی ،چین اورجاپان سے انگریزی میں لکھنے والے ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے بل بوتے پر امریکی اوریورپی مصنفین کے مد مقابل اپنی شناخت بنائی اور قارئین کا حلقہ پیدا کیا۔یہی وجہ ہے ،اب عالمی ادب کی دنیا میں ایشیائی ادیب اپنی منفرد تخلیقات کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ترقی کا یہ سفر کیسے طے ہورہاہے،اس کو جاننے کے لیے ہمیں ایشیائی ممالک کے ادب کا مختصر جائزہ لینا پڑے گا۔
مشرقی ایشیاسے دو ممالک ایسے ہیں،جنہوں نے سب سے زیادہ ادب کے شعبے میں نام کمایا۔یہ چین اورجاپان ہیں۔2012ء میں ادب کا نوبیل انعام لینے والے ادیب کا تعلق چین سے ہے ،جب کہ گزشتہ کئی برس سے متواتر نوبیل ادبی انعام کے لیے نامزد ہونے والا ادیب جاپانی ہے۔یہ ثبوت ہے کہ ان ممالک کے ادیبوں کی مقبولیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے،کیونکہ جہاں بھی ادب سے لگاؤ رکھنے والے قارئین ہیں،وہ عالمی ادب کے اعزازات میں نامزد ہونے والوں پر اور اعزازات حاصل کرنے والوں کو اپنی نظر میں رکھتے ہیں۔
چین کی ادبی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔جدید چینی ادب کے چارادوارہیں۔عالمی ادب کے اعزازات حاصل کرنے والوں میں چینی ادیبوں کی نمایاں تعداد ہے۔ چین کے دو ادیبوں ''مویَن'' اور ''جاؤزینگ'' نے نوبیل ادبی اعزازات حاصل کیے،جب کہ بُکر پرائز کے لیے دومرتبہ نامزد ہونے والا ادیب''ٹیموٹے''بھی چینی نژاد برطانوی ادیب ہے۔
جاپانی ادبی تاریخ بھی کافی مفصل ہے۔چار ادبی ادوار رکھنے والے جاپان کے عالمی شہرت یافتہ ادیبوں میں ،می شیما یوکیو،یاسوناری کاواباتا، کنزابوروئے، بانانایوشی موتو،ہاروکی موراکامی اوردیگر شامل ہیں۔دو جاپانی ادیبوں''یاسوناری کاواباتا ''اور'' کنزا بوروئے'' نوبیل ادبی اعزاز حاصل کرچکے ہیں،جب کہ جدید جاپانی ادب کے عالمی شہرت یافتہ ادیب''ہاروکی موراکامی''کئی مرتبہ اس اعزاز کے لیے نامزد ہوچکے ہیں ،مگر ابھی تک انھیں یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ بُکرپرائز حاصل کرنے والے جاپانی ادیب کانام ''کازوایشی گورو''ہے۔اسی طرح جنوبی کورین ادب کے بھی دوادوار ہیں اوران کے ہاں بھی جدید ادبی منظر نامے پر بہت سے باصلاحیت لکھاری موجود ہیں،جو عالمی ادب میں اپنی مقام بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
جنوبی ایشیا سے پاکستانی اوربھارتی ادیبوں نے اپنی شناخت حاصل کی ہے۔بھارت سے نوبیل کا ادبی اعزاز حاصل کرنے والے واحد ادیب کا نام ''رابندر ناتھ ٹیگور'' ہے،مگر انھیں یہ اعزاز 1913ء میں دیاگیا۔یہ وہ وقت تھا ،جب ہندوستان غیرمنقسم تھا،لیکن سویڈش اکادمی نے ان کانام بھارت میں شامل کیا،اگر اس شمولیت کی بنیاد مادری زبان تھی،جس میں ٹیگور نے سب سے زیادہ لکھا،تو وہ ہندی یاسنسکرت نہیں تھی ،بلکہ بنگالی زبان تھی۔
سویڈش اکادمی نے اگر لسانی پیمانے پر ہی ٹیگور کے ملک کاتعین کیا،توپھر انھیں بنگلہ دیش کے خانے میں شامل کرتے ،کیونکہ ٹیگور بنگالی زبان کا ادیب تھا۔عہدِ حاضر میں بھارتی ادیبوں کی بہت بڑی تعداد منظر عام پر ہے،جن میں سے ''اَرُون دِتی رائے''اور''سلمان رُشدی''نے بُکر پرائز حاصل کیے۔ان کے علاوہ انیتاڈیسائی،شوبھاڈے اوروکرم سیٹھ جیسے ادیب بھی عالمی ادب میں بے حد مقبول ہیں۔
پاکستان کے نئے لکھنے والوں نے بہت جلدی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔یوں تو ہمارے پرانے لکھنے والے بھی کسی سے کم نہیں ،لیکن ان کی تخلیقات اردو زبان میں ہونے کی وجہ سے محدود رہیں،جب کہ نئے لکھنے والوں نے انگریزی زبان کاسہارا لیا،جس کی وجہ سے وہ عالمی ادب میں جلد اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمارے ادیبوں میں سے کسی نے عالمی سطح پرکوئی بڑا ادبی اعزاز توحاصل نہیں کیامگر کئی معروف اعزازات کے لیے نامزد ضرور ہوئے اورچند ایک درمیانے درجے کے اعزازات بھی اپنے نام کیے۔
انتظارحسین اورمحسن حامد ''بُکرپرائز ''کے لیے نامزد ہوئے،جب کہ محمد حنیف نے''گارجین فرسٹ بُک ایوارڈ''حاصل کیا۔ندیم اسلم ''کیری یاما ایوارڈ'' حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ان کے علاوہ بپسی سدھوا،ذوالفقار غوث،عامر حسین،دانیال معین،کاملہ شمسی،حنیف قریشی،ساراسلہری، منیزہ نقوی،شاندانہ منہاس اوردیگر شامل ہیں۔عالمی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہمارے کلاسیکی ادب سمیت مختلف ادوار کے بہترین ادب کاانتخاب کرکے اس کو انگریزی میں ترجمہ کیاجائے۔مشرف علی فاروقی نے''داستان امیرحمزہ''کاترجمہ کرکے اس کام کی ابتداکردی ہے۔
مغربی ایشیا سے عربی اورفارسی ادب نے بھی اپنی جداگانہ شناخت بنائی ہے۔عربی ادب میں ''خلیل جبران''کو انگریزی سمیت کئی زبانوں میں منتقل کیاگیا۔اس مصنف کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ایران ،افغانستان،تاجکستان اوراسی خطے کے اوردوسرے ممالک میں فارسی ادب تخلیق ہورہاہے،اسی کے ساتھ انگریزی میں بھی تخلیقات کاسلسلہ جاری ہے،مگر اس کاتناسب کم ہے۔جدید ادب میں افغانستان کے ''خالد حسینی''نے نمایاں مقام حاصل کیاہے۔ترکی میں بھی ادب کے کئی ادوار ہیں۔ان کے ہاں جدیدادب بہت تیزی سے تخلیق ہورہاہے اوراس کی شہرت ترکی سے باہر بھی پھیل رہی ہے۔اس کی ایک مثال''ارحان پاموک''ہے،جس نے 2006ء میں نوبیل کاادبی انعام حاصل کیا۔
جنوب مشرقی ایشیا میں برمی، کمبوڈین، ملائشین، فلپائنی، سنگاپورین،تھائی اورویت نامی ادیبوں نے بھی اپنی سی کوشش کی ہے کہ وہ عالمی ادب کے منظر نامے پر طلوع ہوسکیں اوران میں سے کچھ ادیبوںکو کامیابی بھی ہوئی ہے۔برمی ادب بنیادی طورپر بھارتی اورتھائی ادب سے متاثر ہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے، اس کے حروف تہجی کے زیادہ ترالفاظ ان دونوں زبانوں سے آئے ہیں۔ کمبوڈین ادب میں سب سے نمایاں پہلو بودھ ازم اور ہندوازم کی داستانیں ہیں۔ان کی ایک مصنفہ''سومالے مام''کی شہرت بین الاقوامی ہے اوراس کاکافی کام انگریزی کے ذریعے ترجمہ ہوکر بیرونی دنیا تک پہنچاہے۔
انڈونیشیا کاثقافتی مزاج ایسا ہے،جس میں بہت سارے رنگ بھرے ہوئے ہیں۔اس لیے ان کاادب کئی جہتوں میں تخلیق ہورہاہے۔کئی زبانوں اورکئی طرح کے ثقافتی رنگوں سے مزین انڈونیشیائی ادب اپنے ثقافتی حصار سے باہر نہیں نکل پایا۔ملائشین ادب زرخیز ہے اوربشمول انگریزی کئی زبانوں میں تخلیق ہورہاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھاری عالمی ادب کے منظر نامے پر اپنامقام حاصل کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
فلپائنی ادب ہسپانوی ادب کے زیراثر ہے۔اس لیے اپنی زبان کے علاوہ ہسپانوی اورپھر انگریزی میں بھی ان کے ہاںادبی تجربات کیے جارہے ہیں۔سنگاپورین ادب بھی اپنے پڑوسی ملکوں سے اثر لیتاہے ،مگر انگریزی میں تخلیق ہونے سے اس کی شہرت بھی اپنے علاقے سے باہر تک پہنچنے لگی ہے۔ان سب میں تھائی ادب کامعاملہ بالکل مختلف ہے۔ان کے ہاں اپنی زبان میں لکھنے کی پختہ روایت موجود ہے ،جب کہ ویت نامی ادب پر چینی ثقافت کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان دونوں ممالک میں انگریزی میں لکھنے کارجحان کافی کم ہے۔
دنیا بھر میں انگریزی لکھنے اورپڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔اسرائیل جیسا ملک اپنے سیاسی پروپیگنڈے کے لیے ادب کاسہارالیتاہے، ہرچند کہ اس میں کچھ اچھے لکھنے والے بھی ہیں۔فلسطینی اورسعودی ادب کی سرگرمیاں کافی محدود ہیں۔روس جیسا ملک اپنے کلاسیکی ادب میں بہت زرخیز ہے اوراس کے ادیبوں،میکسم گورکی، لیوٹا لسٹائی، فیودر دوستوفسکی کا موازنہ کسی سے نہیں ہوسکتا۔ان کی تخلیقات فکشن کی دنیا میں اپنا ایک الگ جہان بسائے ہوئے ہیں۔روسی ادب کے جدید منظر نامے پر اچھے لکھنے والے سامنے آرہے ہیں ،مگر عالمی سطح پر ان کاکام ابھی تک توجہ حاصل نہیں کرسکا۔
کسی ملک کو اپنے خطے کی ثقافت اورادب کو عالمی سطح پر متعارف کروانا ہے تو اسے اپنی مادری اورعلاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی میں لکھنے کی روایت کو بھی اپنانا ہوگا۔اس کوشش میں پاکستان،بھارت،ترکی،چین اورجاپان کافی حد تک کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔
دنیا میں جن ملکوں نے بھی ترقی کی، ان سب میں ایک وصف یکساں تھاکہ انھوں نے اپنی فکراور سوچ کی رفتار کو مدھم نہیں پڑنے دیا۔براعظم ایشیا باصلاحیت لوگوں کاخطہ ہے ۔اس میں پچاس ممالک ایسے ہیں،جوترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔بہت سارے شعبوں کی طرح شعبۂ ادب میں بھی مقابلے کی فضا ہے۔ایشیا میں کامیابی جس کے قدم چومے گی، وہی عالمی دنیا میں بھی اس براعظم کی نمایندگی کرسکے گا۔
ادب ایک ایسا شعبہ ہے،جس کے ذریعے انسان اپنے جذبات کااظہار کرتاہے ،مگر یہی ادب جب ملکی سطح پر متعارف کروایا جائے ،تو کسی قوم کی تہذیب اورشناخت کا تعارف بن جاتاہے۔یہی وجہ ہے، دنیابھر میں ادبی تخلیقات اورادیبوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔براعظم ایشیا کے وہ ممالک،جنہوں نے شعروادب اورادبی تحقیق وتنقید کے میدان میں اپنی رفتارکو اپنے ہدف سے ہم آہنگ رکھا،ان ملکوں میں سرفہرست پاکستان، بھارت،بنگلہ دیش،ایران،چین، روس،جاپان،انڈونیشیا اورترکی جیسے ممالک شامل ہیں۔ان کے قلم کاروں نے بین الاقوامی ادبی منظر نامے پر اپنا جداگانہ تشخص قائم کیا۔
ساری دنیا میں کُتب میلوں کے انعقاد میں تیزی آئی ہے۔صرف یہی نہیںبلکہ عالمی شہرت یافتہ ادبی اعزازات، جن میں سویڈن کا''نوبیل ادبی انعام'' اوربرطانیہ کا'' بُکر پرائز''ہے۔یہ عالمی ادب میں معیارکاپیمانہ بن گئے ہیں۔وہ ادیب جن کی نامزدگی ان دو اعزازات کے لیے ہوتی ہے،ان کو پوری دنیا میں توجہ ملتی ہے اوراس توجہ کو حاصل کرنے والوں میں بہت تیزی سے ایشیائی ادباء شامل ہورہے ہیں۔ا س کی تازہ ترین مثال ہمارے معروف ادیب انتظارحسین ہیں۔انھیں 2013ء کے''بُکرپرائز''کی فہرستِ نامزدگی کے دس حتمی ناموں میں شامل کیاگیا۔اس فہرست میں نامزد ہونا بھی بذات خود ایک اعزاز ہے۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایشیا کا ادب پوری دنیا میں مقبول ہو رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش،ترکی ،چین اورجاپان سے انگریزی میں لکھنے والے ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے بل بوتے پر امریکی اوریورپی مصنفین کے مد مقابل اپنی شناخت بنائی اور قارئین کا حلقہ پیدا کیا۔یہی وجہ ہے ،اب عالمی ادب کی دنیا میں ایشیائی ادیب اپنی منفرد تخلیقات کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ترقی کا یہ سفر کیسے طے ہورہاہے،اس کو جاننے کے لیے ہمیں ایشیائی ممالک کے ادب کا مختصر جائزہ لینا پڑے گا۔
مشرقی ایشیاسے دو ممالک ایسے ہیں،جنہوں نے سب سے زیادہ ادب کے شعبے میں نام کمایا۔یہ چین اورجاپان ہیں۔2012ء میں ادب کا نوبیل انعام لینے والے ادیب کا تعلق چین سے ہے ،جب کہ گزشتہ کئی برس سے متواتر نوبیل ادبی انعام کے لیے نامزد ہونے والا ادیب جاپانی ہے۔یہ ثبوت ہے کہ ان ممالک کے ادیبوں کی مقبولیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے،کیونکہ جہاں بھی ادب سے لگاؤ رکھنے والے قارئین ہیں،وہ عالمی ادب کے اعزازات میں نامزد ہونے والوں پر اور اعزازات حاصل کرنے والوں کو اپنی نظر میں رکھتے ہیں۔
چین کی ادبی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔جدید چینی ادب کے چارادوارہیں۔عالمی ادب کے اعزازات حاصل کرنے والوں میں چینی ادیبوں کی نمایاں تعداد ہے۔ چین کے دو ادیبوں ''مویَن'' اور ''جاؤزینگ'' نے نوبیل ادبی اعزازات حاصل کیے،جب کہ بُکر پرائز کے لیے دومرتبہ نامزد ہونے والا ادیب''ٹیموٹے''بھی چینی نژاد برطانوی ادیب ہے۔
جاپانی ادبی تاریخ بھی کافی مفصل ہے۔چار ادبی ادوار رکھنے والے جاپان کے عالمی شہرت یافتہ ادیبوں میں ،می شیما یوکیو،یاسوناری کاواباتا، کنزابوروئے، بانانایوشی موتو،ہاروکی موراکامی اوردیگر شامل ہیں۔دو جاپانی ادیبوں''یاسوناری کاواباتا ''اور'' کنزا بوروئے'' نوبیل ادبی اعزاز حاصل کرچکے ہیں،جب کہ جدید جاپانی ادب کے عالمی شہرت یافتہ ادیب''ہاروکی موراکامی''کئی مرتبہ اس اعزاز کے لیے نامزد ہوچکے ہیں ،مگر ابھی تک انھیں یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ بُکرپرائز حاصل کرنے والے جاپانی ادیب کانام ''کازوایشی گورو''ہے۔اسی طرح جنوبی کورین ادب کے بھی دوادوار ہیں اوران کے ہاں بھی جدید ادبی منظر نامے پر بہت سے باصلاحیت لکھاری موجود ہیں،جو عالمی ادب میں اپنی مقام بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
جنوبی ایشیا سے پاکستانی اوربھارتی ادیبوں نے اپنی شناخت حاصل کی ہے۔بھارت سے نوبیل کا ادبی اعزاز حاصل کرنے والے واحد ادیب کا نام ''رابندر ناتھ ٹیگور'' ہے،مگر انھیں یہ اعزاز 1913ء میں دیاگیا۔یہ وہ وقت تھا ،جب ہندوستان غیرمنقسم تھا،لیکن سویڈش اکادمی نے ان کانام بھارت میں شامل کیا،اگر اس شمولیت کی بنیاد مادری زبان تھی،جس میں ٹیگور نے سب سے زیادہ لکھا،تو وہ ہندی یاسنسکرت نہیں تھی ،بلکہ بنگالی زبان تھی۔
سویڈش اکادمی نے اگر لسانی پیمانے پر ہی ٹیگور کے ملک کاتعین کیا،توپھر انھیں بنگلہ دیش کے خانے میں شامل کرتے ،کیونکہ ٹیگور بنگالی زبان کا ادیب تھا۔عہدِ حاضر میں بھارتی ادیبوں کی بہت بڑی تعداد منظر عام پر ہے،جن میں سے ''اَرُون دِتی رائے''اور''سلمان رُشدی''نے بُکر پرائز حاصل کیے۔ان کے علاوہ انیتاڈیسائی،شوبھاڈے اوروکرم سیٹھ جیسے ادیب بھی عالمی ادب میں بے حد مقبول ہیں۔
پاکستان کے نئے لکھنے والوں نے بہت جلدی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔یوں تو ہمارے پرانے لکھنے والے بھی کسی سے کم نہیں ،لیکن ان کی تخلیقات اردو زبان میں ہونے کی وجہ سے محدود رہیں،جب کہ نئے لکھنے والوں نے انگریزی زبان کاسہارا لیا،جس کی وجہ سے وہ عالمی ادب میں جلد اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمارے ادیبوں میں سے کسی نے عالمی سطح پرکوئی بڑا ادبی اعزاز توحاصل نہیں کیامگر کئی معروف اعزازات کے لیے نامزد ضرور ہوئے اورچند ایک درمیانے درجے کے اعزازات بھی اپنے نام کیے۔
انتظارحسین اورمحسن حامد ''بُکرپرائز ''کے لیے نامزد ہوئے،جب کہ محمد حنیف نے''گارجین فرسٹ بُک ایوارڈ''حاصل کیا۔ندیم اسلم ''کیری یاما ایوارڈ'' حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ان کے علاوہ بپسی سدھوا،ذوالفقار غوث،عامر حسین،دانیال معین،کاملہ شمسی،حنیف قریشی،ساراسلہری، منیزہ نقوی،شاندانہ منہاس اوردیگر شامل ہیں۔عالمی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہمارے کلاسیکی ادب سمیت مختلف ادوار کے بہترین ادب کاانتخاب کرکے اس کو انگریزی میں ترجمہ کیاجائے۔مشرف علی فاروقی نے''داستان امیرحمزہ''کاترجمہ کرکے اس کام کی ابتداکردی ہے۔
مغربی ایشیا سے عربی اورفارسی ادب نے بھی اپنی جداگانہ شناخت بنائی ہے۔عربی ادب میں ''خلیل جبران''کو انگریزی سمیت کئی زبانوں میں منتقل کیاگیا۔اس مصنف کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ایران ،افغانستان،تاجکستان اوراسی خطے کے اوردوسرے ممالک میں فارسی ادب تخلیق ہورہاہے،اسی کے ساتھ انگریزی میں بھی تخلیقات کاسلسلہ جاری ہے،مگر اس کاتناسب کم ہے۔جدید ادب میں افغانستان کے ''خالد حسینی''نے نمایاں مقام حاصل کیاہے۔ترکی میں بھی ادب کے کئی ادوار ہیں۔ان کے ہاں جدیدادب بہت تیزی سے تخلیق ہورہاہے اوراس کی شہرت ترکی سے باہر بھی پھیل رہی ہے۔اس کی ایک مثال''ارحان پاموک''ہے،جس نے 2006ء میں نوبیل کاادبی انعام حاصل کیا۔
جنوب مشرقی ایشیا میں برمی، کمبوڈین، ملائشین، فلپائنی، سنگاپورین،تھائی اورویت نامی ادیبوں نے بھی اپنی سی کوشش کی ہے کہ وہ عالمی ادب کے منظر نامے پر طلوع ہوسکیں اوران میں سے کچھ ادیبوںکو کامیابی بھی ہوئی ہے۔برمی ادب بنیادی طورپر بھارتی اورتھائی ادب سے متاثر ہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے، اس کے حروف تہجی کے زیادہ ترالفاظ ان دونوں زبانوں سے آئے ہیں۔ کمبوڈین ادب میں سب سے نمایاں پہلو بودھ ازم اور ہندوازم کی داستانیں ہیں۔ان کی ایک مصنفہ''سومالے مام''کی شہرت بین الاقوامی ہے اوراس کاکافی کام انگریزی کے ذریعے ترجمہ ہوکر بیرونی دنیا تک پہنچاہے۔
انڈونیشیا کاثقافتی مزاج ایسا ہے،جس میں بہت سارے رنگ بھرے ہوئے ہیں۔اس لیے ان کاادب کئی جہتوں میں تخلیق ہورہاہے۔کئی زبانوں اورکئی طرح کے ثقافتی رنگوں سے مزین انڈونیشیائی ادب اپنے ثقافتی حصار سے باہر نہیں نکل پایا۔ملائشین ادب زرخیز ہے اوربشمول انگریزی کئی زبانوں میں تخلیق ہورہاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے لکھاری عالمی ادب کے منظر نامے پر اپنامقام حاصل کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
فلپائنی ادب ہسپانوی ادب کے زیراثر ہے۔اس لیے اپنی زبان کے علاوہ ہسپانوی اورپھر انگریزی میں بھی ان کے ہاںادبی تجربات کیے جارہے ہیں۔سنگاپورین ادب بھی اپنے پڑوسی ملکوں سے اثر لیتاہے ،مگر انگریزی میں تخلیق ہونے سے اس کی شہرت بھی اپنے علاقے سے باہر تک پہنچنے لگی ہے۔ان سب میں تھائی ادب کامعاملہ بالکل مختلف ہے۔ان کے ہاں اپنی زبان میں لکھنے کی پختہ روایت موجود ہے ،جب کہ ویت نامی ادب پر چینی ثقافت کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان دونوں ممالک میں انگریزی میں لکھنے کارجحان کافی کم ہے۔
دنیا بھر میں انگریزی لکھنے اورپڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔اسرائیل جیسا ملک اپنے سیاسی پروپیگنڈے کے لیے ادب کاسہارالیتاہے، ہرچند کہ اس میں کچھ اچھے لکھنے والے بھی ہیں۔فلسطینی اورسعودی ادب کی سرگرمیاں کافی محدود ہیں۔روس جیسا ملک اپنے کلاسیکی ادب میں بہت زرخیز ہے اوراس کے ادیبوں،میکسم گورکی، لیوٹا لسٹائی، فیودر دوستوفسکی کا موازنہ کسی سے نہیں ہوسکتا۔ان کی تخلیقات فکشن کی دنیا میں اپنا ایک الگ جہان بسائے ہوئے ہیں۔روسی ادب کے جدید منظر نامے پر اچھے لکھنے والے سامنے آرہے ہیں ،مگر عالمی سطح پر ان کاکام ابھی تک توجہ حاصل نہیں کرسکا۔
کسی ملک کو اپنے خطے کی ثقافت اورادب کو عالمی سطح پر متعارف کروانا ہے تو اسے اپنی مادری اورعلاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی میں لکھنے کی روایت کو بھی اپنانا ہوگا۔اس کوشش میں پاکستان،بھارت،ترکی،چین اورجاپان کافی حد تک کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔