ذرا سوچیے
صحافت ایک معززپیشہ ہے اگر اس پیشہ کی ادائیگی میں صحافتی آداب، ایمانداری ، ذمے داری اور غیرجانبداری کامکمل خیال رکھا...
صحافت ایک معززپیشہ ہے اگر اس پیشہ کی ادائیگی میں صحافتی آداب، ایمانداری ، ذمے داری اور غیرجانبداری کا مکمل خیال رکھا جائے اور عوام الناس کو پوری دیانتداری کے ساتھ حقائق سے روشناس کرایاجائے تو صحافت کاپیشہ معاشرے کی صحیح سمت میں رہنمائی میں اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے ۔کوئی بھی ذی شعور اس حقیقت سے منکر نہیں ہوسکتا کہ صحافت معزز، محترم اورجمہوریت کے ستون کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی ذمے دارانہ پیشہ بھی ہے ۔
صحافت ،نشریاتی ہو یا اشاعتی ،اس کی پہنچ کسی بھی ملک اورمعاشرے کے ہرگھرمیں بلاامتیازاور بلاروک ٹوک ہوتی ہے۔یہ میڈیم اپنے ناظرین وقارئین تک آسانی سے رسائی حاصل کرتاہے اور رائے عامہ بنانے میں کلیدی کردار اداکرتا ہے ۔لہٰذا نشریاتی یا اشاعتی ذرایع ابلاغ کو اپنی رپورٹ، تبصرے اور تجزیے میں پیشہ وارانہ ذمے داری کا احساس ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کیونکہ اگر یہ معزز پیشہ کسی معاشرے کی صحیح سمت میں رہنمائی کرسکتا ہے تو غیرذمے دارانہ اورغیرپیشہ وارانہ طرزعمل سے کسی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔
پاکستان ایک ترقی پذیرملک ہے اوراس ملک میں جمہوریت کاپودا ابھی پنپ رہا ہے ،باوجود اس کے کہ ''ملک کے وسیع ترمفاد''میں بارہا جمہوری اداروں اورجمہوری حکومتوں کو کان پکڑ کر نکالاجاتارہا ہے ،رفتار آہستہ صحیح لیکن وطن عزیز میںجمہوریت پروان چڑھ رہی ہے ۔وطن عزیزمیں آزادی صحافت کے احترام کی بات بھی کی جاتی ہے اور صحافت کے غیرپیشہ وارانہ رویوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے ۔ تنقید برائے اصلاح ہو تو صحافت سے وابستہ افراد کو اسے آزادی صحافت پر حملہ ہرگز تصورنہیں کرنا چاہیے۔صحافت میں غیرذمے دارانہ طرزعمل کی نشاندہی کرنا اور اسے اجاگر کرنا بھی پیشہ وارانہ صحافت کے زمرے میں آتا ہے اور وہ لوگ کسی بھی معاشرے کا اہم عنصر ہوتے ہیں جو اپنی غلطیوں اور خامیوں کو نہ صرف خندہ پیشانی سے تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کی اصلاح بھی کرتے ہیں ۔ یہ عمل مسلسل جاری رہے تو ایک مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
یہ انتہائی تلخ وترش حقیقت ہے کہ پاکستان میں نشریاتی واشاعتی ذرایع ابلاغ آزاد تو ہیں لیکن ذمے دار نہیں ہیں۔خاص طور پر ہمارے نشریاتی ذرایع ابلاغ کا طرزعمل بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا ہے ۔ خبروں کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی خواہش میں رپورٹرزسے لے کر اینکر پرسنز سبھی بے قراردکھائی دیتے ہیں اور اس کوشش میں بسااوقات غیرمصدقہ خبرنشرکردی جاتی ہے جوبعد میں معذرت پر ختم ہوتی ہے لیکن کوئی رپورٹر اور اینکرپرسن یہ نہیں سوچتا کہ وہ جس کسی کے بارے میں کوئی خبرنشرکررہے ہیں ، جانبدارانہ تجزیہ کررہے ہیں، عصبیت کامظاہرہ کررہے ہیں یااپنے مہمانوں کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال رہے ہیں، اس خبرکے غیرمصدقہ ہونے پر وہ معذرت تو کرلیں گے لیکن جس کے بارے میں وہ یہ عمل کررہے ہیں، اس خبر کے نشرہونے اور لاکھوں کروڑوں عوام تک پہنچنے کے بعد اس شخص یا اس کے خاندان پر کیا قیامت گزرچکی ہوتی ہے ۔ میرے معززومحترم رپورٹرز اور اینکرپرسنز اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ غیرمصدقہ خبرپر محض معذرت کیا ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکتی ہے؟
آج کل یہ بات زبان زدخاص عام ہے کہ صحافت بنیادی طورپر پروفیشنلزم ہے لیکن اب ہمارے نشریاتی ادارے اس سے وابستہ افراد پروفیشنلزم کے بجائے کمرشلزم پر توجہ مرکوز کیے بیٹھے ہیں۔ اب ہر وہ خبرنمک مرچ لگاکر نشرکرنے میں مستعدی دکھائی جاتی ہے جس میں کسی کی کردار کشی کی جاسکے اور حد تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر بعض مہمان ایسی زبان تک استعمال کرجاتے ہیں جسے سن کر ہرگھر میں توبہ استغفار پڑھی جاتی ہے ۔
غیرمصدقہ خبرکسی عام شہری کے حوالے سے نشرکرنا بھی اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے چہ جائیکہ ایسی شخصیت جوملک اور بیرون ملک نمایاں مقام رکھتی ہو،جس کے چاہنے والے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہوں اور لوگ جن سے والہانہ عقیدت ومحبت رکھتے ہوں، محض تعصب، نفرت، عصبیت اور بغض کی بنیاد پر ایسی شخصیت کی پگڑی اچھالنا کیا لاکھوں ،کروڑوں افراد کی دل آزاری کا سبب نہیں ہوگا؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب ومتوسط طبقہ سے جنم لینے والی متحدہ قومی موومنٹ کے حوالہ سے بعض ''بڑے بھائیوں'' اینکرپرسنز، رپورٹرز، تبصرہ نگار، تجزیہ نگار اور دانشور وں کے دلوں پر ''مہر '' لگی ہوئی ہے ، یہ معزز حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ نظام اور کرپٹ سیاسی کلچر میں ملک بھر کے غریب ومتوسط طبقہ کے عوام کی بلاامتیاز نمایندگی کرنے والی یہ جماعت پاکستان کے حبس اورگھٹن زدہ ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے لیکن چونکہ فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے باعث ان بعض ''معززین'' کی ذہنیت بھی جاگیردارانہ ہوچکی ہے لہٰذا وہ اس تازہ ہوا کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
برطانیہ میں ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین کے گھرمیں اسکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانوی پولیس کے چھاپے کی خبروں کو نشریاتی اداروں میں اچھالنے اور اجاگرکرنے کی کوشش میں ہمارے معززین صحافتی اصول وآداب کو یکسرفراموش کربیٹھے، بعض اینکرپرسنز، تجزیہ نگاروں اورتبصرہ نگاروں نے تو اس موقع کو غنیمت جان کر ایم کیوایم اور جناب الطاف حسین سے اپنی نفرت اور عصبیت کا کھل کرمظاہرہ کردیا۔بعض نے کہاکہ جناب الطاف حسین کے گھرسے چارملین پاؤنڈز اور ہیرے جواہرات برآمد ہوئے ہیں، بعض نے خود کو انتہائی باخبر گردانتے ہوئے ایم کیوایم کے رہنماء سلیم شہزاد اوررضا ہارون کے گھرچھاپے کی خبریں فراہم کردیں اور صحافتی بددیانتی کی انتہاء کرتے ہوئے یہاں تک کہاگیا کہ ایم کیوایم کے رہنماء رضاہارون کی اہلیہ محترمہ بشریٰ رضاکو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔
ٹیلی ویژن پر لاکھوں کروڑوں ناظرین کے سامنے جب اس قسم کی غیرمصدقہ اطلاعات عجیب عجیب سے منہ بناکر دی جائیں گئی تو ان خبروں سے متاثر ہونے والے خاندان ، دوست احباب اور عزیزواقارب کے دل پر کیا گزری ہوگی ؟من گھڑت ، بے بنیاد اور جھوٹی اطلاعات دینے والے اس کا تصور بھی کرسکتے ہیں؟کوئی سیاسی کارکن کسی صحافی سے ازراہ مذاق کوئی بات کہہ دے تو بات کا بتنگڑ بنادیا جاتا ہے ، ٹی وی ٹاک شوز میں مذمتی ڈرامے شروع ہوجاتے ہیں، صحافتی انجمنیں حرکت میں آجاتی ہیں اور اسے آزادی صحافت پر حملہ گردانا جاتا ہے لیکن لاکھوں کروڑوں عوام کی دل آزاری کے عمل کو کس پر حملہ تصورکیاجائے؟ ذرا سوچیے!
صحافت ،نشریاتی ہو یا اشاعتی ،اس کی پہنچ کسی بھی ملک اورمعاشرے کے ہرگھرمیں بلاامتیازاور بلاروک ٹوک ہوتی ہے۔یہ میڈیم اپنے ناظرین وقارئین تک آسانی سے رسائی حاصل کرتاہے اور رائے عامہ بنانے میں کلیدی کردار اداکرتا ہے ۔لہٰذا نشریاتی یا اشاعتی ذرایع ابلاغ کو اپنی رپورٹ، تبصرے اور تجزیے میں پیشہ وارانہ ذمے داری کا احساس ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کیونکہ اگر یہ معزز پیشہ کسی معاشرے کی صحیح سمت میں رہنمائی کرسکتا ہے تو غیرذمے دارانہ اورغیرپیشہ وارانہ طرزعمل سے کسی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔
پاکستان ایک ترقی پذیرملک ہے اوراس ملک میں جمہوریت کاپودا ابھی پنپ رہا ہے ،باوجود اس کے کہ ''ملک کے وسیع ترمفاد''میں بارہا جمہوری اداروں اورجمہوری حکومتوں کو کان پکڑ کر نکالاجاتارہا ہے ،رفتار آہستہ صحیح لیکن وطن عزیز میںجمہوریت پروان چڑھ رہی ہے ۔وطن عزیزمیں آزادی صحافت کے احترام کی بات بھی کی جاتی ہے اور صحافت کے غیرپیشہ وارانہ رویوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے ۔ تنقید برائے اصلاح ہو تو صحافت سے وابستہ افراد کو اسے آزادی صحافت پر حملہ ہرگز تصورنہیں کرنا چاہیے۔صحافت میں غیرذمے دارانہ طرزعمل کی نشاندہی کرنا اور اسے اجاگر کرنا بھی پیشہ وارانہ صحافت کے زمرے میں آتا ہے اور وہ لوگ کسی بھی معاشرے کا اہم عنصر ہوتے ہیں جو اپنی غلطیوں اور خامیوں کو نہ صرف خندہ پیشانی سے تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کی اصلاح بھی کرتے ہیں ۔ یہ عمل مسلسل جاری رہے تو ایک مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
یہ انتہائی تلخ وترش حقیقت ہے کہ پاکستان میں نشریاتی واشاعتی ذرایع ابلاغ آزاد تو ہیں لیکن ذمے دار نہیں ہیں۔خاص طور پر ہمارے نشریاتی ذرایع ابلاغ کا طرزعمل بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا ہے ۔ خبروں کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی خواہش میں رپورٹرزسے لے کر اینکر پرسنز سبھی بے قراردکھائی دیتے ہیں اور اس کوشش میں بسااوقات غیرمصدقہ خبرنشرکردی جاتی ہے جوبعد میں معذرت پر ختم ہوتی ہے لیکن کوئی رپورٹر اور اینکرپرسن یہ نہیں سوچتا کہ وہ جس کسی کے بارے میں کوئی خبرنشرکررہے ہیں ، جانبدارانہ تجزیہ کررہے ہیں، عصبیت کامظاہرہ کررہے ہیں یااپنے مہمانوں کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال رہے ہیں، اس خبرکے غیرمصدقہ ہونے پر وہ معذرت تو کرلیں گے لیکن جس کے بارے میں وہ یہ عمل کررہے ہیں، اس خبر کے نشرہونے اور لاکھوں کروڑوں عوام تک پہنچنے کے بعد اس شخص یا اس کے خاندان پر کیا قیامت گزرچکی ہوتی ہے ۔ میرے معززومحترم رپورٹرز اور اینکرپرسنز اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ غیرمصدقہ خبرپر محض معذرت کیا ان کے دکھوں کا مداوا ہوسکتی ہے؟
آج کل یہ بات زبان زدخاص عام ہے کہ صحافت بنیادی طورپر پروفیشنلزم ہے لیکن اب ہمارے نشریاتی ادارے اس سے وابستہ افراد پروفیشنلزم کے بجائے کمرشلزم پر توجہ مرکوز کیے بیٹھے ہیں۔ اب ہر وہ خبرنمک مرچ لگاکر نشرکرنے میں مستعدی دکھائی جاتی ہے جس میں کسی کی کردار کشی کی جاسکے اور حد تو یہ ہے کہ ٹیلی ویژن پر بعض مہمان ایسی زبان تک استعمال کرجاتے ہیں جسے سن کر ہرگھر میں توبہ استغفار پڑھی جاتی ہے ۔
غیرمصدقہ خبرکسی عام شہری کے حوالے سے نشرکرنا بھی اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے چہ جائیکہ ایسی شخصیت جوملک اور بیرون ملک نمایاں مقام رکھتی ہو،جس کے چاہنے والے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہوں اور لوگ جن سے والہانہ عقیدت ومحبت رکھتے ہوں، محض تعصب، نفرت، عصبیت اور بغض کی بنیاد پر ایسی شخصیت کی پگڑی اچھالنا کیا لاکھوں ،کروڑوں افراد کی دل آزاری کا سبب نہیں ہوگا؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب ومتوسط طبقہ سے جنم لینے والی متحدہ قومی موومنٹ کے حوالہ سے بعض ''بڑے بھائیوں'' اینکرپرسنز، رپورٹرز، تبصرہ نگار، تجزیہ نگار اور دانشور وں کے دلوں پر ''مہر '' لگی ہوئی ہے ، یہ معزز حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ نظام اور کرپٹ سیاسی کلچر میں ملک بھر کے غریب ومتوسط طبقہ کے عوام کی بلاامتیاز نمایندگی کرنے والی یہ جماعت پاکستان کے حبس اورگھٹن زدہ ماحول میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے لیکن چونکہ فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے باعث ان بعض ''معززین'' کی ذہنیت بھی جاگیردارانہ ہوچکی ہے لہٰذا وہ اس تازہ ہوا کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
برطانیہ میں ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین کے گھرمیں اسکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانوی پولیس کے چھاپے کی خبروں کو نشریاتی اداروں میں اچھالنے اور اجاگرکرنے کی کوشش میں ہمارے معززین صحافتی اصول وآداب کو یکسرفراموش کربیٹھے، بعض اینکرپرسنز، تجزیہ نگاروں اورتبصرہ نگاروں نے تو اس موقع کو غنیمت جان کر ایم کیوایم اور جناب الطاف حسین سے اپنی نفرت اور عصبیت کا کھل کرمظاہرہ کردیا۔بعض نے کہاکہ جناب الطاف حسین کے گھرسے چارملین پاؤنڈز اور ہیرے جواہرات برآمد ہوئے ہیں، بعض نے خود کو انتہائی باخبر گردانتے ہوئے ایم کیوایم کے رہنماء سلیم شہزاد اوررضا ہارون کے گھرچھاپے کی خبریں فراہم کردیں اور صحافتی بددیانتی کی انتہاء کرتے ہوئے یہاں تک کہاگیا کہ ایم کیوایم کے رہنماء رضاہارون کی اہلیہ محترمہ بشریٰ رضاکو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔
ٹیلی ویژن پر لاکھوں کروڑوں ناظرین کے سامنے جب اس قسم کی غیرمصدقہ اطلاعات عجیب عجیب سے منہ بناکر دی جائیں گئی تو ان خبروں سے متاثر ہونے والے خاندان ، دوست احباب اور عزیزواقارب کے دل پر کیا گزری ہوگی ؟من گھڑت ، بے بنیاد اور جھوٹی اطلاعات دینے والے اس کا تصور بھی کرسکتے ہیں؟کوئی سیاسی کارکن کسی صحافی سے ازراہ مذاق کوئی بات کہہ دے تو بات کا بتنگڑ بنادیا جاتا ہے ، ٹی وی ٹاک شوز میں مذمتی ڈرامے شروع ہوجاتے ہیں، صحافتی انجمنیں حرکت میں آجاتی ہیں اور اسے آزادی صحافت پر حملہ گردانا جاتا ہے لیکن لاکھوں کروڑوں عوام کی دل آزاری کے عمل کو کس پر حملہ تصورکیاجائے؟ ذرا سوچیے!