جیون ساتھی سے بچھڑنے کا صدمہ امراض اور وفات کی وجہ بھی بن سکتا ہے

خصوصاً عمر رسیدہ خواتین اپنے شریکِ حیات کی وفات کے بعد موت کی زیادہ شکار ہوسکتی ہیں


ویب ڈیسک December 26, 2018
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا مسلسل غم جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ہم نے دیکھا ہے کہ سارسوں کے جوڑے کا ایک رکن فوت ہوجاتا ہے تو دوسرا اس کے غم میں گھل کو وہ بھی جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ لیکن ماہرین نے بیوگی کا اثر (وڈو ہُڈ) خود انسانوں میں بھی جان لیوا ہوتا ہے۔

امریکہ میں رائس یونیورسٹی میں سائیکو نیورو امیونولوجی کے ماہر کرس فیگیونڈس نے ایسے 99 افراد کا سروے کیا ہے جو حال ہی میں اپنے شریکِ حیات کے صدمے سے گزرے ہیں۔ مطالعے کا مقصد اس غمِ جدائی کے دوران جسم پر پڑنے والے اثرات اور دیگر حیاتی اشاروں (بایومارکرز) کی نشاندہی بھی کرنا تھا۔

ڈاکٹر کِرس کے مطابق جسم کی اندرونی سوزش کئی امراض کی وجہ بنتی ہے جن میں بلڈ پریشر سے لے کر کینسر اور عارضہ قلب سبھی شامل ہیں۔ اور عمررسیدہ افراد میں ڈپریشن بھی اس سوزش (انفلیمیشن) کی وجہ بن سکتی ہے۔

ماہرین نے دیکھا کہ اپنے جیون ساتھی کی رحلت کے صدمے سےدوچار مردوخواتین میں ایسے بایومارکرز دیکھے گئے جو جسم کے اندر سوزش اور جلن کو بڑھاتےہیں۔ اس کے ساتھ ان سے سوالنامے بھروائے گئے اور انٹرویو بھی لیے گئے۔ غمِ تنہائی سے دوچار اکثر افراد کے خون میں اندرونی سوزش سے وابستہ پروٹین سائٹوکائنس کی شرح زیادہ تھی۔

جیون ساتھی کی وفات کے بعد خصوصاً عمررسیدہ افراد میں سائٹوکائنز بڑھانے والے سگنل پروٹین بھی زیادہ تھے جن میں IFN-γ اور TNF-α قابلِ ذکر ہیں۔ جو لوگ صدمے کے زیادہ شکار رہے ان میں سوزش کی شرح دیگر کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ تھی۔ انہی افراد کے بدن کے اندرونی جلن کی شکایت بھی کی جس سے اداسی اور سوزش کا باہمی تعلق سامنے آیا۔

اپنی نوعیت کے اس پہلے اہم مطالعے سے انکشاف ہوا کہ شریکِ حیات سے بچھڑنے کا غم نہ صرف نفسیاتی اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ جسمانی صحت کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ اس طرح سوزش سے عارضہ قلب، فالج اور کینسر جیسے امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ اپنے شریکِ حیات سے بچھڑنے والے افراد غم و اندوہ کے مسلسل چکر سے پیچھا چھڑانے کے لیے نفسیاتی معالج سے رابطہ ضرور کریں، زندگی کےمثبت پہلو پر توجہ دیں اور خود کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں