مصطفی قریشی نے پہلی فلم میں ہی اداکاری کی دھاک بٹھادی
11مئی 1937کو حیدرآباد (سندھ)میں پیدا ہوئے،مسلم ہسٹری میں ایم اے کیا
پاکستان فلم انڈسٹری پر برسوں سے راج کرنیوالے سینئراداکارمصطفی قریشی 11 مئی 1937 کو حیدرآباد (سندھ) میں پیدا ہوئے۔
ان کی پہلی فلم1958میں ریلیز ہوئی ،جس نے باکس آفس پر زبردست بزنس کیا۔ اس فلم میں نے انھیں منفرد شناخت اور پہچان دیدی اور اس پہلی فلم میں ہی مصطفیٰ قریشی نے اداکاری کی دھاک بٹھادی۔اس فلم کے پروڈیوسر و ہدایتکار رضا میر جو فلم ''آگ کا دریا ''کے کیمرہ مین تھے جنہوں نے ایک ملاقات کے دوران مصطفیٰ قریشی کواس فلم میں کام کرنے کی پیشکش کی جسے انھوں نے فوری طور پر قبول نہ کیا مگر بعد ازاں اپنے ایک استاد کے مشورے پر راضی ہوگئے ۔اس فلم میں مصطفیٰ قریشی کی اداکاری کوسب نے سراہا ۔ پنجابی فلموں نے ان کی شہرت کو چارچاند لگادیے ۔ پہلی پنجابی فلم ''چارخون دے پیاسے''میں بھی یادگار کردار نبھایا ۔
اسی طرح '' مولا جٹ '' میں سپر اسٹار مصطفیٰ قریشی نے نوری نت کے کردار کو بھی انمول بنادیا ۔ مصطفیٰ قریشی پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ، انھوں نے مسلم ہسٹری میں 'ایم اے' کیا ۔ان کے والد نظام الدین قریشی ریونیو افسر تھے جب کہ اہلیہ روبینہ قریشی خود ان کے فلم میں آنے سے قبل اعلیٰ پائے کی فنکارہ رہی ہیں، منفرد آواز کے ساتھ کئی لازوال گیت گائے ۔
دو بچے ہیں جن میں بیٹا عامر قریشی ٹی وی پر پرفارم کررہے ہیں، اداکاری کے ساتھ گلوکاری اور موسیقاری کے میدان میں بھی اچھی پرفارمنس دے رہے ہیں، مصطفی قریشی نے ریڈیو حیدرآباد سے صداکاری سے کیرئیر کا آغاز کیا ،فلم کے ساتھ ٹی وی پر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
40سال سے زائد عرصہ کے دوران ساڑھے 600سے زائد فلموں میں پرفارم کرکے اپنی صلایحتوں کا لوہا منوایا ۔ ان میں ''لاکھوں میں ایک، جی دار، سلطنت، حاجی بابا، پیاملن کی آس، کٹاری، آسرا، آرزو، ظل شاہ، سہاگن، سوہا جوڑا، انگارے، چیف صاحب، ممی، سرگم، جیوا، ناگ دیوتا، وڈیراسائیں، جوشیلے، گاڈ فادر، دریاخان، کوبرا، انٹرنیشنل گوریلے، شادمانی، قسمت والہ، سانجھی ہتھکڈی، ضدی خان، خودار، بدلے دی آگ، ہانگ کانگ کے شعلے، سجاول ڈاکو، شعلے، سنگسار، جٹ دا ویر، حراست، ہٹلر، اسمگلر، گرفتار، خان دوست، چورسپاہی، حشرنشر، ہتھکڑی، پردیسی اورعندلیب ''سمیت دیگرشامل ہیں۔ مصطفیٰ قریشی نے جہاںفلم کے لیے بہت کام کیا وہیں آج کل وہ ڈراموںمیں بھی اہم کردار نبھارہے ہیں۔ ان کافنی سفرکامیابی کے ساتھ جاری ہے۔
ان کی پہلی فلم1958میں ریلیز ہوئی ،جس نے باکس آفس پر زبردست بزنس کیا۔ اس فلم میں نے انھیں منفرد شناخت اور پہچان دیدی اور اس پہلی فلم میں ہی مصطفیٰ قریشی نے اداکاری کی دھاک بٹھادی۔اس فلم کے پروڈیوسر و ہدایتکار رضا میر جو فلم ''آگ کا دریا ''کے کیمرہ مین تھے جنہوں نے ایک ملاقات کے دوران مصطفیٰ قریشی کواس فلم میں کام کرنے کی پیشکش کی جسے انھوں نے فوری طور پر قبول نہ کیا مگر بعد ازاں اپنے ایک استاد کے مشورے پر راضی ہوگئے ۔اس فلم میں مصطفیٰ قریشی کی اداکاری کوسب نے سراہا ۔ پنجابی فلموں نے ان کی شہرت کو چارچاند لگادیے ۔ پہلی پنجابی فلم ''چارخون دے پیاسے''میں بھی یادگار کردار نبھایا ۔
اسی طرح '' مولا جٹ '' میں سپر اسٹار مصطفیٰ قریشی نے نوری نت کے کردار کو بھی انمول بنادیا ۔ مصطفیٰ قریشی پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ، انھوں نے مسلم ہسٹری میں 'ایم اے' کیا ۔ان کے والد نظام الدین قریشی ریونیو افسر تھے جب کہ اہلیہ روبینہ قریشی خود ان کے فلم میں آنے سے قبل اعلیٰ پائے کی فنکارہ رہی ہیں، منفرد آواز کے ساتھ کئی لازوال گیت گائے ۔
دو بچے ہیں جن میں بیٹا عامر قریشی ٹی وی پر پرفارم کررہے ہیں، اداکاری کے ساتھ گلوکاری اور موسیقاری کے میدان میں بھی اچھی پرفارمنس دے رہے ہیں، مصطفی قریشی نے ریڈیو حیدرآباد سے صداکاری سے کیرئیر کا آغاز کیا ،فلم کے ساتھ ٹی وی پر بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
40سال سے زائد عرصہ کے دوران ساڑھے 600سے زائد فلموں میں پرفارم کرکے اپنی صلایحتوں کا لوہا منوایا ۔ ان میں ''لاکھوں میں ایک، جی دار، سلطنت، حاجی بابا، پیاملن کی آس، کٹاری، آسرا، آرزو، ظل شاہ، سہاگن، سوہا جوڑا، انگارے، چیف صاحب، ممی، سرگم، جیوا، ناگ دیوتا، وڈیراسائیں، جوشیلے، گاڈ فادر، دریاخان، کوبرا، انٹرنیشنل گوریلے، شادمانی، قسمت والہ، سانجھی ہتھکڈی، ضدی خان، خودار، بدلے دی آگ، ہانگ کانگ کے شعلے، سجاول ڈاکو، شعلے، سنگسار، جٹ دا ویر، حراست، ہٹلر، اسمگلر، گرفتار، خان دوست، چورسپاہی، حشرنشر، ہتھکڑی، پردیسی اورعندلیب ''سمیت دیگرشامل ہیں۔ مصطفیٰ قریشی نے جہاںفلم کے لیے بہت کام کیا وہیں آج کل وہ ڈراموںمیں بھی اہم کردار نبھارہے ہیں۔ ان کافنی سفرکامیابی کے ساتھ جاری ہے۔