ترک فوج کی شام میں صف بندی
فوجی قافلے میں ٹینک، مشین گنیں اور بسیں بھی شامل ہیں جن پر کمانڈو سوار ہیں
KARACHI:
شامی خبررساں ایجنسی ڈی ایچ اے نے خبر دی ہے کہ ترکی نے شام سے ملنے والی اپنی سرحد پر مزید فوج بھیج دی ہے۔ ایجنسی کے مطابق کم ازکم ایک سو فوجی گاڑیاں سرحد کی طرف جاتے دیکھی گئی ہیں جن میں پک اپ ٹرک بھی شامل ہیں جن پر کمانڈو فوجی سوار ہیں۔ علاوہ ازیں اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بھی بھیجا جا رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترکی کا فوجی قافلہ شام کے جنوبی صوبے کی طرف بڑھ رہا ہے جو کہ پہلے سے وہاں ایک دوسرے صوبے میں موجود تھا۔ اس فوجی قافلے میں ٹینک، مشین گنیں اور بسیں بھی شامل ہیں جن پر کمانڈو سوار ہیں۔
یہ ساز و سامان شامی سرحد کے ساتھ متعین کر دیا جائے گا جب کہ تھوڑی فوج شامی سرحد عبور کر کے ایلبیلی کے ضلع سے اندر لے جائی جائے گی۔ ضلع ایلبیلی جنوبی شام میں شمالی شہر مانبیج سے 45 کلومیٹر دور واقع ہے جہاں انقرہ اور واشنگٹن کی فوج میں معرکے برپا ہوتے رہے ہیں۔ جون کے مہینے میں نیٹو کے اتحادیوں کا کرد جنگجوؤں کے ساتھ ہتھیار رکھ دینے کا سمجھوتہ ہو گیا لیکن ترکی نے شکایت کی کہ روڈمیپ پر عملدرآمد میں تاخیر روا رکھی جا رہی ہے۔ یہ فوجی کارروائیاں اس علاقے میں کی جا رہی ہیں جہاں پہلے سے کچھ ترک فوجی موجود ہیں جب کہ تازہ کارروائیوں کا مقصد ترک فوج کو تقویت فراہم کرنا ہے۔ صدر رجب طیب اردوان نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ان کی فوج اس علاقے سے امریکا کے انخلاء کے بعد آئی ایس سے جنگ لڑے گی اور کرد جنگجوؤں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔
انقرہ کا کہنا ہے کہ امریکا کردش ورکرز پارٹی کی بھی حمایت کر رہا ہے جو کہ ترکی کے خلاف برسرپیکار ہے اور یہ باغیانہ سرگرمیاں 1980ء کے عشرے سے جاری ہیں۔ حالات سے یہی نظر آ رہا ہے کہ ترک فوجیں شام میں داعش کے خلاف فوجی کارروائی کریں گی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اعلان کیا ہے کہ رجب طیب اردوان ہی ایسے واحد لیڈر ہیں جو داعش کو شکست دے سکتے ہیں۔ شام کا بحران تاحال کسی کروٹ بیٹھتے نظر نہیں آرہا،امریکا نے اپنی فوجیں نکلنے کا اعلان کردیا ہے جب کہ ترکی اب وہاں نئے کردار کے لیے متحرک ہے۔داعش کو شکست دینا انتہائی اہم ہے۔ترکی کی فوج میں بہرحال اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ داعش کو شکست دے سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مشرق وسطیٰ کی دیگر طاقتوں کو بھی ایسی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے جس سے شام میں قیام امن کی راہ ہموار ہوسکے۔
شامی خبررساں ایجنسی ڈی ایچ اے نے خبر دی ہے کہ ترکی نے شام سے ملنے والی اپنی سرحد پر مزید فوج بھیج دی ہے۔ ایجنسی کے مطابق کم ازکم ایک سو فوجی گاڑیاں سرحد کی طرف جاتے دیکھی گئی ہیں جن میں پک اپ ٹرک بھی شامل ہیں جن پر کمانڈو فوجی سوار ہیں۔ علاوہ ازیں اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بھی بھیجا جا رہا ہے۔ خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترکی کا فوجی قافلہ شام کے جنوبی صوبے کی طرف بڑھ رہا ہے جو کہ پہلے سے وہاں ایک دوسرے صوبے میں موجود تھا۔ اس فوجی قافلے میں ٹینک، مشین گنیں اور بسیں بھی شامل ہیں جن پر کمانڈو سوار ہیں۔
یہ ساز و سامان شامی سرحد کے ساتھ متعین کر دیا جائے گا جب کہ تھوڑی فوج شامی سرحد عبور کر کے ایلبیلی کے ضلع سے اندر لے جائی جائے گی۔ ضلع ایلبیلی جنوبی شام میں شمالی شہر مانبیج سے 45 کلومیٹر دور واقع ہے جہاں انقرہ اور واشنگٹن کی فوج میں معرکے برپا ہوتے رہے ہیں۔ جون کے مہینے میں نیٹو کے اتحادیوں کا کرد جنگجوؤں کے ساتھ ہتھیار رکھ دینے کا سمجھوتہ ہو گیا لیکن ترکی نے شکایت کی کہ روڈمیپ پر عملدرآمد میں تاخیر روا رکھی جا رہی ہے۔ یہ فوجی کارروائیاں اس علاقے میں کی جا رہی ہیں جہاں پہلے سے کچھ ترک فوجی موجود ہیں جب کہ تازہ کارروائیوں کا مقصد ترک فوج کو تقویت فراہم کرنا ہے۔ صدر رجب طیب اردوان نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ان کی فوج اس علاقے سے امریکا کے انخلاء کے بعد آئی ایس سے جنگ لڑے گی اور کرد جنگجوؤں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔
انقرہ کا کہنا ہے کہ امریکا کردش ورکرز پارٹی کی بھی حمایت کر رہا ہے جو کہ ترکی کے خلاف برسرپیکار ہے اور یہ باغیانہ سرگرمیاں 1980ء کے عشرے سے جاری ہیں۔ حالات سے یہی نظر آ رہا ہے کہ ترک فوجیں شام میں داعش کے خلاف فوجی کارروائی کریں گی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اعلان کیا ہے کہ رجب طیب اردوان ہی ایسے واحد لیڈر ہیں جو داعش کو شکست دے سکتے ہیں۔ شام کا بحران تاحال کسی کروٹ بیٹھتے نظر نہیں آرہا،امریکا نے اپنی فوجیں نکلنے کا اعلان کردیا ہے جب کہ ترکی اب وہاں نئے کردار کے لیے متحرک ہے۔داعش کو شکست دینا انتہائی اہم ہے۔ترکی کی فوج میں بہرحال اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ داعش کو شکست دے سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے مشرق وسطیٰ کی دیگر طاقتوں کو بھی ایسی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے جس سے شام میں قیام امن کی راہ ہموار ہوسکے۔