بعض شہروں کی ماتحت عدلیہ میں ہڑتالیں
عدالتوں میں ہڑتالوں سے وکلاء بھی تنگ ہیں۔ عام اور چھوٹے وکیل کا روزگار بھی ختم ہو گیا ہے
ایک طرف ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں بڑے بڑے فیصلے ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف کئی شہروں میں ماتحت عدالتی نظام جامد پڑا ہے۔ اور وکلاء کی ہڑتالیں بھی جا رہی ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں کو توہین عدالت کے جرم میں سزائیں سنائی گئی ہیں، انھیں نا اہل کر دیا گیا ہے لیکن کیا عدالتوں کا بائیکاٹ، ہڑتالیں اور تالہ بندی توہین عدالت نہیں ہے؟ پنجاب کے مختلف اضلاع میں دو ماہ سے تالہ بندی بھی ہے۔ ایک طرف تجاوزات اور ناجائز قابضین کے خلاف گرینڈ آپریشن جاری ہے لیکن تالہ بندی پر خاموشی ہے۔
سرگودھا فیصل آباد سمیت متعدد اضلاع میں ہائی کورٹ کے بنچ کے قیام کے لیے ماتحت عدالتوں کی تالہ بندی اور ہڑتال جاری ہے۔ حیرانگی کی بات تو یہ بھی ہے کہ جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں دو ہائی کورٹس ہیں پھر بھی وہاں ہڑتالیں ہیں۔ لاہور میں ہائی کورٹ کے بنچ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لاہور میں بھی ہڑتال ہو تی رہتی ہے۔ وکلاء کی ہڑتالیں ایک رواج بن گئی ہیں۔ ایک فیشن بن گئی ہیں۔ اس کا کسی ایک مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جن مسائل کا تعلق عدالتی معاملات سے نہیں بھی ہوتا ان پر بھی بائیکاٹ اور ہڑتالیں کی جا تی ہیں۔ شاید کسی کو احساس نہیں کہ ایک دن کی ہڑتال کا کیا مطلب ہے۔ اور کس کا کتنا نقصان ہے۔ دو ماہ سے جاری ہڑتالوں پر سب نے ایسے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
حکومت کا خیال ہے کہ عدالتوں کا بائیکاٹ اس کا مسئلہ نہیں ہے، یہ عدلیہ کا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس لیے حکومت اس مسئلے سے خود کو الگ ہی رکھ رہی ہے۔ دوسری طرف بھی ایک خا موشی ہے۔ کیوں بار اور بنچ مل کر اس ہڑتالی کلچر کے خاتمے کی کوئی راہ نہیں نکالتے۔ کیوں کوئی کوڈ آف کنڈکٹ طے نہیں ہوتا۔ بار کونسل کے قوانین اور کلائنٹ اور وکیل کے درمیان معاہدہ میں ہڑتال کی کس قدر گنجائش ہے، یہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ کیا کسی مہذب معاشرے میں نظام انصاف کی ہڑتال کا کوئی جواز ہے۔
عدالتوں میں ہڑتالوں سے وکلاء بھی تنگ ہیں۔ عام اور چھوٹے وکیل کا روزگار بھی ختم ہو گیا ہے۔ اسی صورتحال میں سر گودھا کے ایک سنیئر وکیل اقبا ل احمد گوندل کا ایک سپاسنامہ موصول ہوا ہے، بڑا جذباتی ہے، اس لیے اقبال احمد گوندل کی اجازت سے کچھ ترمیم واضافے کے ساتھ اسے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
جناب صدر جناب جنرل سیکریٹری دیگر ممبران مجلس ڈسٹرکٹ بار سرگودھا و تین ہزار وکلا صاحبان۔ آپ نے پچھلے چالیس سال سے ہائی کورٹ بنچ تحریک شروع کر رکھی ہے۔ میں نے زندگی کے اٹھارہ قیمتی سال اس پیشہ وکالت میں صرف کر دیے ہیں۔ میں نے دو اڑھائی لاکھ روپے لگا کر قانون کی کتابیں خریدیںاور اپنی چھوٹی سے لائبریری بنالی۔ میں اپنے آپ کو وکیل بنا کر جیورسٹ بننے کا خواب دیکھا تھا لیکن آج میرے گھر میں آٹا نہیں تھا ۔ صبح میری بیوی نے طعنے دے کر مجھے گھر سے نکالااور میری جوان بچیوں کی آ نکھوں میں آنسو تھے۔ڈیڑھ ماہ سے جاری ہڑتال، تالہ بندی اور دھرنا اور آپ کی اس تحریک کو مزید تقویت دینے کے لیے تجویز عرض ہے۔ دو لیٹر پٹرول لے کر ایک لیٹر میرے اوپر پھینک کر اور ایک لیٹر میری کتابوں پر پھینک کر ماچس سے آگ لگا دیجیے۔
والسلام! اقبال احمد گوندل ایڈوکیٹ
میں کسی حد تک اقبال احمد گوندل سے متفق ہوں۔ ان ہڑتالوں سے کئی وکلا کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ ان کے گھروں میں بھی فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ لیکن وہ بھی مجبور ہیں۔ کیا کسی کو احساس ہے ۔ کیا کسی کو احساس ہے کہ مقدمات میں تاخیر پاکستان میں نظام انصاف کے چہرہ پر ایک بد نما داغ سے کم نہیں۔
پاکستان میں نظام انصاف کی معذوری کی ایک بڑی وجہ ماتحت عدلیہ کی کمزوری بھی ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ عدلیہ میں ہڑتال کرنے کی جرات نہیں کر تا۔ لیکن ماتحت عدلیہ کو گھر کی لونڈی سمجھا جاتا ہے۔ آج وقت آگیا ہے کہ ماتحت عدلیہ کو مضبوط کیا جائے۔ ہم کب سمجھیں گے کہ اعلیٰ عدلیہ کی بنیاد ماتحت عدلیہ ہے۔ کمزور ماتحت عدلیہ کے ساتھ نظام انصاف کو نہ تو فعال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کو توہین عدالت کے اختیارات دیے جائیں تا کہ وہ اپنی عدالتوں کی توہین کرنے والوں کو توہین عدالت کے تحت سزا دے سکیں۔ آج ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان توہین عدالت کے اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے بے اختیار نظر آتے ہیں۔ روز ماتحت عدلیہ کی عدالتوں میں توہین عدالت کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن جج صاحبان بے بس نظر آتے ہیں۔
جب تک پاکستان میں نظام انصاف مضبوط اور فعال نہیں ہوگا۔ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ڈیم بھی ضروری ہیں لیکن انصاف بھی ضروری ہے۔ ہائی کورٹس کے نئے بنچ بننے ہیں کہ نہیں۔ ایک فائنل فیصلہ ہونا چاہیے۔ ہڑتال کو جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ سیاسی معاملات پر بھی ہڑتال نظام انصاف کے منہ پر طما نچہ ہیں۔ بار کے نمایندوں کو بنچ کے ساتھ بیٹھ کر ہڑتالوں کے خاتمہ پر ایک چارٹر پر دستخط کرنے چاہیے۔ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ چور آزاد ہیں۔ بے گناہ اندر ہیں۔ لوگ ضمانتوں سے محروم ہیں۔ ایک ایک دن نظام انصاف پر قرض ہے۔ اگر چیف جسٹس سمجھیں تو ان پر قرض ہے۔ پاکستان کا نظام انصاف بھی وینٹی لیٹر پر ہے، اس میں ہڑتال اس کی سسکتی سانسوں کو بند کردیتی ہے۔ لیکن کوئی سمجھنے کو تیار نہیںس۔ ہم نے عدالتوں میں ہڑتال کو مذاق بنا دیا ہے۔
سرگودھا فیصل آباد سمیت متعدد اضلاع میں ہائی کورٹ کے بنچ کے قیام کے لیے ماتحت عدالتوں کی تالہ بندی اور ہڑتال جاری ہے۔ حیرانگی کی بات تو یہ بھی ہے کہ جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں دو ہائی کورٹس ہیں پھر بھی وہاں ہڑتالیں ہیں۔ لاہور میں ہائی کورٹ کے بنچ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن لاہور میں بھی ہڑتال ہو تی رہتی ہے۔ وکلاء کی ہڑتالیں ایک رواج بن گئی ہیں۔ ایک فیشن بن گئی ہیں۔ اس کا کسی ایک مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جن مسائل کا تعلق عدالتی معاملات سے نہیں بھی ہوتا ان پر بھی بائیکاٹ اور ہڑتالیں کی جا تی ہیں۔ شاید کسی کو احساس نہیں کہ ایک دن کی ہڑتال کا کیا مطلب ہے۔ اور کس کا کتنا نقصان ہے۔ دو ماہ سے جاری ہڑتالوں پر سب نے ایسے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
حکومت کا خیال ہے کہ عدالتوں کا بائیکاٹ اس کا مسئلہ نہیں ہے، یہ عدلیہ کا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس لیے حکومت اس مسئلے سے خود کو الگ ہی رکھ رہی ہے۔ دوسری طرف بھی ایک خا موشی ہے۔ کیوں بار اور بنچ مل کر اس ہڑتالی کلچر کے خاتمے کی کوئی راہ نہیں نکالتے۔ کیوں کوئی کوڈ آف کنڈکٹ طے نہیں ہوتا۔ بار کونسل کے قوانین اور کلائنٹ اور وکیل کے درمیان معاہدہ میں ہڑتال کی کس قدر گنجائش ہے، یہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ کیا کسی مہذب معاشرے میں نظام انصاف کی ہڑتال کا کوئی جواز ہے۔
عدالتوں میں ہڑتالوں سے وکلاء بھی تنگ ہیں۔ عام اور چھوٹے وکیل کا روزگار بھی ختم ہو گیا ہے۔ اسی صورتحال میں سر گودھا کے ایک سنیئر وکیل اقبا ل احمد گوندل کا ایک سپاسنامہ موصول ہوا ہے، بڑا جذباتی ہے، اس لیے اقبال احمد گوندل کی اجازت سے کچھ ترمیم واضافے کے ساتھ اسے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
جناب صدر جناب جنرل سیکریٹری دیگر ممبران مجلس ڈسٹرکٹ بار سرگودھا و تین ہزار وکلا صاحبان۔ آپ نے پچھلے چالیس سال سے ہائی کورٹ بنچ تحریک شروع کر رکھی ہے۔ میں نے زندگی کے اٹھارہ قیمتی سال اس پیشہ وکالت میں صرف کر دیے ہیں۔ میں نے دو اڑھائی لاکھ روپے لگا کر قانون کی کتابیں خریدیںاور اپنی چھوٹی سے لائبریری بنالی۔ میں اپنے آپ کو وکیل بنا کر جیورسٹ بننے کا خواب دیکھا تھا لیکن آج میرے گھر میں آٹا نہیں تھا ۔ صبح میری بیوی نے طعنے دے کر مجھے گھر سے نکالااور میری جوان بچیوں کی آ نکھوں میں آنسو تھے۔ڈیڑھ ماہ سے جاری ہڑتال، تالہ بندی اور دھرنا اور آپ کی اس تحریک کو مزید تقویت دینے کے لیے تجویز عرض ہے۔ دو لیٹر پٹرول لے کر ایک لیٹر میرے اوپر پھینک کر اور ایک لیٹر میری کتابوں پر پھینک کر ماچس سے آگ لگا دیجیے۔
والسلام! اقبال احمد گوندل ایڈوکیٹ
میں کسی حد تک اقبال احمد گوندل سے متفق ہوں۔ ان ہڑتالوں سے کئی وکلا کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں۔ ان کے گھروں میں بھی فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ لیکن وہ بھی مجبور ہیں۔ کیا کسی کو احساس ہے ۔ کیا کسی کو احساس ہے کہ مقدمات میں تاخیر پاکستان میں نظام انصاف کے چہرہ پر ایک بد نما داغ سے کم نہیں۔
پاکستان میں نظام انصاف کی معذوری کی ایک بڑی وجہ ماتحت عدلیہ کی کمزوری بھی ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ عدلیہ میں ہڑتال کرنے کی جرات نہیں کر تا۔ لیکن ماتحت عدلیہ کو گھر کی لونڈی سمجھا جاتا ہے۔ آج وقت آگیا ہے کہ ماتحت عدلیہ کو مضبوط کیا جائے۔ ہم کب سمجھیں گے کہ اعلیٰ عدلیہ کی بنیاد ماتحت عدلیہ ہے۔ کمزور ماتحت عدلیہ کے ساتھ نظام انصاف کو نہ تو فعال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کو توہین عدالت کے اختیارات دیے جائیں تا کہ وہ اپنی عدالتوں کی توہین کرنے والوں کو توہین عدالت کے تحت سزا دے سکیں۔ آج ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان توہین عدالت کے اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے بے اختیار نظر آتے ہیں۔ روز ماتحت عدلیہ کی عدالتوں میں توہین عدالت کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن جج صاحبان بے بس نظر آتے ہیں۔
جب تک پاکستان میں نظام انصاف مضبوط اور فعال نہیں ہوگا۔ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ڈیم بھی ضروری ہیں لیکن انصاف بھی ضروری ہے۔ ہائی کورٹس کے نئے بنچ بننے ہیں کہ نہیں۔ ایک فائنل فیصلہ ہونا چاہیے۔ ہڑتال کو جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ سیاسی معاملات پر بھی ہڑتال نظام انصاف کے منہ پر طما نچہ ہیں۔ بار کے نمایندوں کو بنچ کے ساتھ بیٹھ کر ہڑتالوں کے خاتمہ پر ایک چارٹر پر دستخط کرنے چاہیے۔ لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں۔ چور آزاد ہیں۔ بے گناہ اندر ہیں۔ لوگ ضمانتوں سے محروم ہیں۔ ایک ایک دن نظام انصاف پر قرض ہے۔ اگر چیف جسٹس سمجھیں تو ان پر قرض ہے۔ پاکستان کا نظام انصاف بھی وینٹی لیٹر پر ہے، اس میں ہڑتال اس کی سسکتی سانسوں کو بند کردیتی ہے۔ لیکن کوئی سمجھنے کو تیار نہیںس۔ ہم نے عدالتوں میں ہڑتال کو مذاق بنا دیا ہے۔