مقتدا منصور اب انھیں ڈھونڈھ چراغِ رخِ زیبا لے کر
میں ان دنوں ’’روشن خیال‘‘ نکالتی تھی۔ ندیم اختر اور اظہر عباس اس ٹیم کا حصہ تھے
'' خانہ بدوش '' کی طرف سے حیدرآباد میں ہونے والے '' ایاز جو میلو '' میں شرکت کے لیے کراچی سے روانہ ہوچکی تھی کہ میرے موبائل پر امداد کا نام نمودار ہوا اور میرا دل بیٹھ گیا ۔ امداد اب برسوں سے مقتدا منصورکی گاڑی چلاتا ہے، اس سے پہلے وہ میری بیٹی فینانہ اور داماد کامران کا ڈرائیور تھا، نہایت ذمے دار انسان ۔ امداد وہ خبر دے رہا تھا جس کے لیے میں کئی دن سے تیار تھی ۔
مجھے یاد نہیں مقتدا علی خاں سے پہلی ملاقات کب اورکہاں ہوئی تھی ۔ شاید اس وقت جب میں اپنے بچوں کے لیے ریاضی کا کوئی اچھا استاد ڈھونڈھ رہی تھی ۔ ان دنوں وہ حسن عادل صاحب اور نجمہ کے نیشنل اسکول میں پڑھاتے تھے ۔ شایدکوئی سرکاری ملازمت بھی کرتے تھے۔ انہو ںنے میری بیٹی سحینا اور بیٹے زریون کو ریاضی پڑھائی ۔ دونوں بچے ان پر فدا تھے، وہ بچوں کو زندگی کے آداب بھی سکھاتے۔ یوں وہ آہستہ آہستہ ہمارے گھرکا ایک فرد بن گئے ۔ ایک برد بار اور وضع دار شخص۔ میرے لیے وہ چھوٹے بھائی کی طرح تھے، اسی طوروہ میرا احترام کرتے۔
میں ان دنوں ''روشن خیال'' نکالتی تھی۔ ندیم اختر اور اظہر عباس اس ٹیم کا حصہ تھے ، مقتدا بھی اس میں شامل ہوگئے ۔ انھوں نے ہمارے لیے بہت کچھ لکھا ، بہت سے مضامین ترجمہ کیے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی اخبار سے وابستہ ہوجائیں،اس کام میں ندیم اختر نے ان کی بہت مدد کی ۔ انھوں نے اپنی صحافتی زندگی امت ، قومی اخبار، نوائے وقت سے آغاز کی اور پھر 1998ء میں روزنامہ ایکسپریس سے ایسے وابستہ ہوئے کہ سانس کی ڈوری ٹوٹی تب ہی اس سے تعلق ختم ہوا ۔
ان کی پہلی کتاب ''سندھ کا سماجی بحران '' 1997ء میں شایع ہوئی اور آخری کتاب ''سیاست اور فکری مغالطے'' تھی ۔
موت ہم سب کے پہلو سے لگی بیٹھی ہے،کہا جاتا ہے کہ موت، ہماری زندگی کی حفاظت کرتی ہے،کچھ بے ریا اور باصفا ایسے بھی ہوتے ہیں، جنھیں اس کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ مجھے کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقتدا نے اس کی آہٹ کو سن لیا تھا ، تب ہی انھوں نے اپنا آخری کالم '' وابستگی کے 22 سال '' لکھا جو 22 اکتوبر 2018ء کو شایع ہوا، کالم لکھنے کے بعد وہ اپنے قدموں سے چل کر مقتل کی طرف چلے گئے ۔ اسپتال کو مقتل کیوں نہ کہوں ، ایک توانا اور ہنستا مسکراتا ہوا شخص جس نے اپنے ہاتھ سے اسپتال کے متعلقہ کاغذات پر دستخط کیے تھے ، جس کا آپریشن کامیاب ہوا تھا لیکن پوسٹ آپریشن کیئر کے حوالے سے اس کے ساتھ جو غیر ذمے داری برتی گئی ، اس کے نتیجے میں اس کا سینہ مزید 3 مرتبہ چاک کیا گیا، زخم کسی طور نہ بھرا ، خون رستا رہا، اسے بار بار وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا ۔
اس کی شریک حیات عطیہ ، اس کے بیٹے فیضان اور کامران، اس کے داماد فرحان اورکاشف ، بیٹیاں ثمرین ، افشین ، ارم اور کرن سب ہی نے اپنی ہمت سے بڑھ کر اس کی خدمت کی اور ہمہ وقت اسپتال میں حاضر رہے ۔ ندیم اختر ، سہیل احمد صدیقی ، انجم رضوی ، توصیف احمد ، ریاض شیخ اور ان کے دوسرے دوست ان کی خبرگیری کرتے رہے ۔ مجھے ان کی صحت کی خبر ہر دوسرے دن ندیم سے مل جاتی تھی جو پابندی سے ان کی عیادت کے لیے جاتے تھے اور دل گیر واپس آتے تھے ۔ مقتدا کی رخصت سے کئی دن پہلے انھوں نے کہہ دیا تھا کہ دل کا جانا ٹھہرگیا ہے ، صبح گیا یا شام گیا ۔ کسی دوست کی رخصت کے بارے میں سمجھ لینا ، جان لیوا ہوتا ہے ۔
انھوں نے اپنے آخری کالم میں لکھا ہے :
''آج جب کہ آزادی اظہار مختلف خطرات میں گھری ہوئی ہے ، ایکسپریس کمال مہارت سے درمیانے راستے پر چلتے ہوئے قارئین تک درست معلومات اور اطلاعات فراہم کررہا ہے ۔ یہی صاف ستھری اور غیر جانبدار صحافت کا وصف ہے ۔ امید ہے کہ ایکسپریس اسی طرح اپنا مقام و مرتبہ کسی تنازع میں شریک ہوئے بغیر برقرار رکھے گا ۔ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کس طرح ہنستے کھیلتے ، دوستیاں نبھاتے، محبتیں بانٹتے اور سمیٹتے بیس برس بیت گئے، اگر زندگی نے وفا کی تو اگلی دہائیاں بھی اسی طرح گزر جائیں گی ۔ انشاء اللہ ۔''
وہ ایک اُمید پرست انسان تھے، دہائیوں کی بات کر رہے تھے لیکن انھیں تو اگلا کالم لکھنے کی بھی مہلت نہیں ملی ۔ ان کی اسی اُمید پرستی نے انھیں پاک ہند دوستی کی انجمن سے جوڑ کر رکھا ۔ وہ کئی مرتبہ ہندوستان گئے اور ہر مرتبہ دل فگار آئے ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دونوں طرف غربت کی بھیانک دلدل ہے جس میں کروڑوں انسان پھنسے ہوئے تڑپتے ہیں اور دونوں کی نئی نسل جہل کے گرداب میں غرق ہو رہی ہے تو اس کے وسائل اسلحے کی غیر ضروری ذخیرہ اندوزی پرکیوں خرچ کیے جائیں ۔ اس بارے میں وہ وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے تھے لیکن ان کا ایک کالم ''کم بخت نے رُلادیا '' اس وقت یاد آیا ہے تو رُلا گیا ہے۔ چند سطریں آپ کی نذر ہیں :
''گوگل انڈیا نے ایک اشتہاری فلم بنائی، جسے دوستوں نے فیس بک کے ذریعہ شیئر کیا ہے ۔ یہ تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہجرتوں میں بچھڑ جانے والے دو دوستوں یوسف اور بلدیوکی کہانی ہے، جنھیں گوگل نے 66 برس بعد ڈھونڈ نکالنے اور ایک دوسرے سے ملنے کا موقع فراہم کیا ۔
یوسف تو لاہور ہی میں رہ گیا ، مگر بلدیوکا گھرانہ فسادات کے نتیجے میں دہلی منتقل ہوگیا ۔ یوں دونوں ایک دوسرے سے اچانک بچھڑگئے۔کئی دہائیاں گذرنے کے باوجود دونوں میں ایک دوسرے کی یاد تو تازہ تھی ، مگر ملنے کی کوئی امید باقی نہیں تھی ، لیکن گوگل جو دنیا بھرکی معلومات چٹکیوں میں آپ کی دہلیز پر پہنچاتی ہے ، ان کی ناامیدی کو امید بلکہ حقیقت میں بدل دیا ۔ گوگل پر سرچ کے ذریعہ دونوں خاندانوں کی نہ صرف ایک دوسرے تک رسائی ہوئی ، بلکہ ایک دن یوسف بلدیو سے ملنے دہلی بھی پہنچ جاتا ہے ۔ یوں یوسف اور بلدیو کا ملاپ ہوتا ہے ، جو ایک انتہائی جذباتی منظر ہے ۔ جاندار اسکرپٹ اور خوبصورت فلمبندی نے اس اشتہارکو انتہائی پراثر فلم بنادیا ہے ، جس نے حساس قلب و ذہن رکھنے والے بہت سے لوگوں کو رلادیا ۔ ایسے بیشمار واقعات ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے ہیں ، جو زبانی تاریخ (Oral History) کا حصہ ہیں اور جنھیں جمع کرکے دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے ۔''
اپنے آخری کالم میں انھوں نے ہر اس شخص کو یاد کیا ہے جس نے ان کی صحافتی زندگی میں ان کی رہنمائی ۔ وہ مرحومین کو یاد کرتے ہیں ۔ نیر علوی ، ذاکر نسیم ، حمید اختر ، شمیم نوید ، انور احسن صدیقی ، لالہ لعل بخش رند ، عباس اطہر اور پھر ایاز خان ، لطیف چوہدری ، اعجاز الحق ، طاہر نجمی ، نادر شاہ عادل کون ہے جسے انھوں نے اپنی اس آخری تحریر میں یاد نہیں کیا ۔
وہ ایک ایسی بیوہ ماں کے بیٹے تھے جس نے نابینا ہونے کے باوجود مقتدا کی پرورش و پرداخت میں کوئی کمی نہ چھوڑی اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں کمال کردار ادا کیا ۔ ان کے نام کا قصہ بھی عجیب ہے ۔ ''روشن خیال'' میں لکھنا شروع کیا تو ان کی خواہش ہوئی کہ نام کچھ نیا ہو اور ہم نے انھیں ''مقتدا علی خاں '' سے ''مقتدا منصور'' بنا دیا۔
وہ پاکستان پریس فاؤنڈیشن سے وابستہ رہے ۔ کئی سندھی چینلوں کے لیے پروگرام کرتے رہے ۔ ''پائیلر'' سے بھی متعلق رہے ، سکھر میں پیدا ہوئے تھے، سندھی روانی سے بولتے تھے ۔ ان کے سیاسی خیالات سے کئی مرتبہ شدید اختلاف ہوا لیکن ان میں مروت اس قدر تھی کہ وہ ہر اختلاف کو بھول جاتے اور پھرکھانے کی میز پر صلح صفائی ہوجاتی ۔ یہ محفلیں یاد آ رہی ہیں تو یقین نہیں آرہا ہے کہ وہ شخص چلا گیا ہے جو بلبل ہزار داستان کی طرح چہکتا تھا۔
جس رات وہ دفن ہوچکے تھے اور میں حیدرآباد میں تھی تو ان کی ایک قاری شبنم گل بہت اداسی سے انھیں یاد کر رہی تھیں ۔ وہ کبھی مقتدا کے روبرو نہیں ہوئی تھیں لیکن ان کی سنجیدہ تحریروں کی داد دے رہی تھیں ۔ تو یوں ہے مقتدا منصور کہ ہمارے یہ ان دیکھے ، ان جانے قاری ہی ہماری اصل کمائی ہیں ۔ شبنم گل اور میں اداسی سے سرجھکائے بیٹھے رہے ۔ ہم اس کے سوا اورکیا کہہ سکتے تھے کہ :
اب انھیں ڈھونڈھ چراغِ رخِ زیبا لے کر
مجھے یاد نہیں مقتدا علی خاں سے پہلی ملاقات کب اورکہاں ہوئی تھی ۔ شاید اس وقت جب میں اپنے بچوں کے لیے ریاضی کا کوئی اچھا استاد ڈھونڈھ رہی تھی ۔ ان دنوں وہ حسن عادل صاحب اور نجمہ کے نیشنل اسکول میں پڑھاتے تھے ۔ شایدکوئی سرکاری ملازمت بھی کرتے تھے۔ انہو ںنے میری بیٹی سحینا اور بیٹے زریون کو ریاضی پڑھائی ۔ دونوں بچے ان پر فدا تھے، وہ بچوں کو زندگی کے آداب بھی سکھاتے۔ یوں وہ آہستہ آہستہ ہمارے گھرکا ایک فرد بن گئے ۔ ایک برد بار اور وضع دار شخص۔ میرے لیے وہ چھوٹے بھائی کی طرح تھے، اسی طوروہ میرا احترام کرتے۔
میں ان دنوں ''روشن خیال'' نکالتی تھی۔ ندیم اختر اور اظہر عباس اس ٹیم کا حصہ تھے ، مقتدا بھی اس میں شامل ہوگئے ۔ انھوں نے ہمارے لیے بہت کچھ لکھا ، بہت سے مضامین ترجمہ کیے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ کسی اخبار سے وابستہ ہوجائیں،اس کام میں ندیم اختر نے ان کی بہت مدد کی ۔ انھوں نے اپنی صحافتی زندگی امت ، قومی اخبار، نوائے وقت سے آغاز کی اور پھر 1998ء میں روزنامہ ایکسپریس سے ایسے وابستہ ہوئے کہ سانس کی ڈوری ٹوٹی تب ہی اس سے تعلق ختم ہوا ۔
ان کی پہلی کتاب ''سندھ کا سماجی بحران '' 1997ء میں شایع ہوئی اور آخری کتاب ''سیاست اور فکری مغالطے'' تھی ۔
موت ہم سب کے پہلو سے لگی بیٹھی ہے،کہا جاتا ہے کہ موت، ہماری زندگی کی حفاظت کرتی ہے،کچھ بے ریا اور باصفا ایسے بھی ہوتے ہیں، جنھیں اس کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ مجھے کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقتدا نے اس کی آہٹ کو سن لیا تھا ، تب ہی انھوں نے اپنا آخری کالم '' وابستگی کے 22 سال '' لکھا جو 22 اکتوبر 2018ء کو شایع ہوا، کالم لکھنے کے بعد وہ اپنے قدموں سے چل کر مقتل کی طرف چلے گئے ۔ اسپتال کو مقتل کیوں نہ کہوں ، ایک توانا اور ہنستا مسکراتا ہوا شخص جس نے اپنے ہاتھ سے اسپتال کے متعلقہ کاغذات پر دستخط کیے تھے ، جس کا آپریشن کامیاب ہوا تھا لیکن پوسٹ آپریشن کیئر کے حوالے سے اس کے ساتھ جو غیر ذمے داری برتی گئی ، اس کے نتیجے میں اس کا سینہ مزید 3 مرتبہ چاک کیا گیا، زخم کسی طور نہ بھرا ، خون رستا رہا، اسے بار بار وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا ۔
اس کی شریک حیات عطیہ ، اس کے بیٹے فیضان اور کامران، اس کے داماد فرحان اورکاشف ، بیٹیاں ثمرین ، افشین ، ارم اور کرن سب ہی نے اپنی ہمت سے بڑھ کر اس کی خدمت کی اور ہمہ وقت اسپتال میں حاضر رہے ۔ ندیم اختر ، سہیل احمد صدیقی ، انجم رضوی ، توصیف احمد ، ریاض شیخ اور ان کے دوسرے دوست ان کی خبرگیری کرتے رہے ۔ مجھے ان کی صحت کی خبر ہر دوسرے دن ندیم سے مل جاتی تھی جو پابندی سے ان کی عیادت کے لیے جاتے تھے اور دل گیر واپس آتے تھے ۔ مقتدا کی رخصت سے کئی دن پہلے انھوں نے کہہ دیا تھا کہ دل کا جانا ٹھہرگیا ہے ، صبح گیا یا شام گیا ۔ کسی دوست کی رخصت کے بارے میں سمجھ لینا ، جان لیوا ہوتا ہے ۔
انھوں نے اپنے آخری کالم میں لکھا ہے :
''آج جب کہ آزادی اظہار مختلف خطرات میں گھری ہوئی ہے ، ایکسپریس کمال مہارت سے درمیانے راستے پر چلتے ہوئے قارئین تک درست معلومات اور اطلاعات فراہم کررہا ہے ۔ یہی صاف ستھری اور غیر جانبدار صحافت کا وصف ہے ۔ امید ہے کہ ایکسپریس اسی طرح اپنا مقام و مرتبہ کسی تنازع میں شریک ہوئے بغیر برقرار رکھے گا ۔ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کس طرح ہنستے کھیلتے ، دوستیاں نبھاتے، محبتیں بانٹتے اور سمیٹتے بیس برس بیت گئے، اگر زندگی نے وفا کی تو اگلی دہائیاں بھی اسی طرح گزر جائیں گی ۔ انشاء اللہ ۔''
وہ ایک اُمید پرست انسان تھے، دہائیوں کی بات کر رہے تھے لیکن انھیں تو اگلا کالم لکھنے کی بھی مہلت نہیں ملی ۔ ان کی اسی اُمید پرستی نے انھیں پاک ہند دوستی کی انجمن سے جوڑ کر رکھا ۔ وہ کئی مرتبہ ہندوستان گئے اور ہر مرتبہ دل فگار آئے ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دونوں طرف غربت کی بھیانک دلدل ہے جس میں کروڑوں انسان پھنسے ہوئے تڑپتے ہیں اور دونوں کی نئی نسل جہل کے گرداب میں غرق ہو رہی ہے تو اس کے وسائل اسلحے کی غیر ضروری ذخیرہ اندوزی پرکیوں خرچ کیے جائیں ۔ اس بارے میں وہ وقتاً فوقتاً لکھتے رہتے تھے لیکن ان کا ایک کالم ''کم بخت نے رُلادیا '' اس وقت یاد آیا ہے تو رُلا گیا ہے۔ چند سطریں آپ کی نذر ہیں :
''گوگل انڈیا نے ایک اشتہاری فلم بنائی، جسے دوستوں نے فیس بک کے ذریعہ شیئر کیا ہے ۔ یہ تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہجرتوں میں بچھڑ جانے والے دو دوستوں یوسف اور بلدیوکی کہانی ہے، جنھیں گوگل نے 66 برس بعد ڈھونڈ نکالنے اور ایک دوسرے سے ملنے کا موقع فراہم کیا ۔
یوسف تو لاہور ہی میں رہ گیا ، مگر بلدیوکا گھرانہ فسادات کے نتیجے میں دہلی منتقل ہوگیا ۔ یوں دونوں ایک دوسرے سے اچانک بچھڑگئے۔کئی دہائیاں گذرنے کے باوجود دونوں میں ایک دوسرے کی یاد تو تازہ تھی ، مگر ملنے کی کوئی امید باقی نہیں تھی ، لیکن گوگل جو دنیا بھرکی معلومات چٹکیوں میں آپ کی دہلیز پر پہنچاتی ہے ، ان کی ناامیدی کو امید بلکہ حقیقت میں بدل دیا ۔ گوگل پر سرچ کے ذریعہ دونوں خاندانوں کی نہ صرف ایک دوسرے تک رسائی ہوئی ، بلکہ ایک دن یوسف بلدیو سے ملنے دہلی بھی پہنچ جاتا ہے ۔ یوں یوسف اور بلدیو کا ملاپ ہوتا ہے ، جو ایک انتہائی جذباتی منظر ہے ۔ جاندار اسکرپٹ اور خوبصورت فلمبندی نے اس اشتہارکو انتہائی پراثر فلم بنادیا ہے ، جس نے حساس قلب و ذہن رکھنے والے بہت سے لوگوں کو رلادیا ۔ ایسے بیشمار واقعات ہمارے اطراف میں بکھرے ہوئے ہیں ، جو زبانی تاریخ (Oral History) کا حصہ ہیں اور جنھیں جمع کرکے دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے ۔''
اپنے آخری کالم میں انھوں نے ہر اس شخص کو یاد کیا ہے جس نے ان کی صحافتی زندگی میں ان کی رہنمائی ۔ وہ مرحومین کو یاد کرتے ہیں ۔ نیر علوی ، ذاکر نسیم ، حمید اختر ، شمیم نوید ، انور احسن صدیقی ، لالہ لعل بخش رند ، عباس اطہر اور پھر ایاز خان ، لطیف چوہدری ، اعجاز الحق ، طاہر نجمی ، نادر شاہ عادل کون ہے جسے انھوں نے اپنی اس آخری تحریر میں یاد نہیں کیا ۔
وہ ایک ایسی بیوہ ماں کے بیٹے تھے جس نے نابینا ہونے کے باوجود مقتدا کی پرورش و پرداخت میں کوئی کمی نہ چھوڑی اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں کمال کردار ادا کیا ۔ ان کے نام کا قصہ بھی عجیب ہے ۔ ''روشن خیال'' میں لکھنا شروع کیا تو ان کی خواہش ہوئی کہ نام کچھ نیا ہو اور ہم نے انھیں ''مقتدا علی خاں '' سے ''مقتدا منصور'' بنا دیا۔
وہ پاکستان پریس فاؤنڈیشن سے وابستہ رہے ۔ کئی سندھی چینلوں کے لیے پروگرام کرتے رہے ۔ ''پائیلر'' سے بھی متعلق رہے ، سکھر میں پیدا ہوئے تھے، سندھی روانی سے بولتے تھے ۔ ان کے سیاسی خیالات سے کئی مرتبہ شدید اختلاف ہوا لیکن ان میں مروت اس قدر تھی کہ وہ ہر اختلاف کو بھول جاتے اور پھرکھانے کی میز پر صلح صفائی ہوجاتی ۔ یہ محفلیں یاد آ رہی ہیں تو یقین نہیں آرہا ہے کہ وہ شخص چلا گیا ہے جو بلبل ہزار داستان کی طرح چہکتا تھا۔
جس رات وہ دفن ہوچکے تھے اور میں حیدرآباد میں تھی تو ان کی ایک قاری شبنم گل بہت اداسی سے انھیں یاد کر رہی تھیں ۔ وہ کبھی مقتدا کے روبرو نہیں ہوئی تھیں لیکن ان کی سنجیدہ تحریروں کی داد دے رہی تھیں ۔ تو یوں ہے مقتدا منصور کہ ہمارے یہ ان دیکھے ، ان جانے قاری ہی ہماری اصل کمائی ہیں ۔ شبنم گل اور میں اداسی سے سرجھکائے بیٹھے رہے ۔ ہم اس کے سوا اورکیا کہہ سکتے تھے کہ :
اب انھیں ڈھونڈھ چراغِ رخِ زیبا لے کر