ریاست کی ناکامیاں
حکمران طبقے جو عہدے‘تنخواہ‘مراعات اور مفادات مل جانے کو ہی پاکستان کا آئینی نظام کہتے ہیں
ریاست اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہے' جب کہ رعایا اپنے فرائض ادا کر رہی ہے'اس سلسلے میں ہم نے ریاست کے چار اہم ترین فرائض کا ذکر کیا تھا'ان میں جان و مال کی حفاظت'تعلیم'صحت کی سہولیات اور روزگار کی فراہمی کا ذکر تھا ۔سابقہ کالم میں ریاست کی طرف سے جان و مال کی حفاظت اورتعلیم کے شعبوں میں ناکامی کا ذکر کیا گیا تھا'آج کے کالم میں ریاست کے دیگر فرائض کا ذکر کریں گے اور پھر یہ سوال قارئین پر چھوڑیں گے'کہ ریاست پاکستان ایک کامیاب ریاست ہے کہ ناکام؟
آئین کیا ہوتا ہے؟ عوام اور ریاست کے درمیان معاہدہ عمرانی یا Social Contract'اس دستاویزکے ذریعے عوام اور ریاست کے حقوق و فرائض کا واضح تعین کیا جاتا ہے اوران کے حصول کا طریقہ کار بھی دیا جاتا ہے' پاکستان میں حکمرانوں نے ہر طرح کی بے اصولی اور بے ایمانی کو روا رکھا ہے 'ریاست اپنے حقوق پر تو عوام کو مجبور کرتی ہے لیکن اپنے فرائض اور عوام کے حقوق کے بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھتی ہے'اسی طرح عوام کے ساتھ کیے گئے معاہدہ عمرانی کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے'آج ہم حکمرانوں کی طرف سے اس معاہدے پر عمل درآمد کا مزید جائزہ لیں گے۔
ْمحترم ناصر الملک چیف جسٹس پاکستان نے سابق چیف جسٹس کو خدا حافظ کہتے ہوئے ریفرنس میں کہا تھاکہ ''ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے اداروں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے' گڈ گورننس قانون پر عمل درآمد سے آئے گی 'آئین میں ریاستی ستونوں کے اختیارات واضح ہیں'ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہ کی جائے'آزاد عدلیہ وقت کی ضرورت ہے'عدلیہ'انتظامیہ اور مقننہ کے غیر آئینی اقدامات پر نظر ثانی کا اختیار رکھتی ہے'عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے عدلیہ کو مضبوط بنانا ہوگا'ادارے آئینی حدود میں نہ رہیں تو عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے(موجودہ صورت حال میں عدلیہ کے کردار پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں) ''۔ سابق چیف جسٹس نے جن اداروں کی مداخلت کی نشاندہی کی ہے اس کے کچھ گوشے ایسے ہیں جن کو نا محرم سمجھ کر ان کا نام لینا پارلیمنٹ اور حکمران شجر ممنوعہ گردانتے ہیں'آئین کا مطلب صرف صدر'وزیر اعظم 'وزیر' مشیر' گاڑی اور بیان بازی نہیں' نہ ہی جمہوریت کا مطلب صرف حکمران ٹولہ یا سرمایہ دار شرافیہ ہے بلکہ یہ حکمرانوں اور رعایا کے درمیان معاہدہ عمرانی پر عمل درآمد کا آلہ ہوتا ہے۔
12اپریل 1973ء کے روز ہمارا آئین نافذ ہوا' آئین کا دیباچہ عوام کی طاقت کے گرد گھومتا ہے اسی لیے دیباچے میں ریاست نے اپنے شہریوںکے ساتھ عمرانی معاہدہ کر رکھا ہے'ایسا معاہدہ جسے آئین کے جنرل آرڈر سپلائرز اور جمہوریت کے پرچون فروش دونوں نے بھلا دیا ہے'یہ واحد دستاویز ہے جو ریاست کو شہریوں کے حق میں بنیادی ضمانتوں کا پابند بناتی ہے اس کے اہم نکات یہ ہیں۔
1۔ملک میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔
2۔ان حقوق میں equality of status ہوگی یعنی پاکستان کا ہر آدمی بحیثیت شہری برابر درجہ اور اہمیت رکھے گا۔
3۔سب کے لیے مواقع کی مساوات ہوگی۔ 4۔قانون کی نظر میں تمام پاکستانی برابر ہیں۔5۔سماجی طور پر سب ایک جیسے ہیں۔ 6۔معاشی مساوات سب کا حق ہے۔ 7۔کوئی شہری بھی سیاسی انصاف سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔8۔سب کو Freedom of Thoughtیعنی سوچ کی آزادی ہوگی۔ 9۔اظہار رائے کی آزادی بنیادی حق ہوگا۔10 ۔عقیدہ اور عبادت میں آزادی ہوگی۔ 11۔اجتماع منعقد کرنے کا حق ہوگا۔
حکمران طبقے جو عہدے'تنخواہ'مراعات اور مفادات مل جانے کو ہی پاکستان کا آئینی نظام کہتے ہیں' آئین کے ان حصوں کا ذکر کبھی نہیں کرتے'کیا آئین اور جمہوریت اس وقت مکمل ہوجاتی ہے جب کوئی الیکشن جیت کر اسمبلی کی سیٹ حاصل کرتا ہے اور وزارت مل جائے؟آئین کہتا ہے جی نہیں'اسی آئین کے آرٹیکل 3میں پاکستان کی ریاست نے اپنے ذمے لے رکھا ہے کہ!
الف۔پاکستان میں ہر قسم کے استحصال (Exploitation)کا خاتمہ ہوگا۔ب۔ہر کسی کو اس کی اہلیت کے مطابق ملازمت دی جائے گی۔پ۔ہر شہری کو اس کے کام سے مطابقت رکھنے والا معاوضہ (تنخواہ) ملے گا۔
سوال تو یہاںبھی پیدا ہوتا ہے کہ آئین بننے کے چالیس سال بعد بھی وہ کون سا ادارہ ہے جو عوام کے حقوق کا ضامن ہے'اگر کوئی نہیں اور حقیقت میں کوئی بھی نہیںتو پھر آئین کے اس حصے کو پامال کرنے کی ذمے داری کس پر ہے 'آئین میں درج ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ توڑنے کا ٹرائل کون کرے گا۔73ء کے آئین میں جمہوریت کی مکمل تعریف کی گئی ہے' آئین کے آرٹیکل 36/37/38کے چیدہ چیدہ نکات خود اس سوال کا جواب ہیں۔
٭۔آئین(آرٹیکل 36) میں اقلیتوں 'پسماندہ اورپست ترین طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کا انتظام بھی آئین میں درج ہے 'اس وقت اقلیتیں الگ عذاب میں ہیں'ان پر حملے اور ان کے گھر جلانا ایک عام بات سمجھی جاتی ہے 'پاکستان کے واحد نوبل یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کا نام حکومت بھی نہیں لے سکتی'کیونکہ ان کا تعلق اقلیت سے ہے 'اقلیت تو اپنے ووٹ سے اپنا نمایندہ بھی منتخب نہیں کرسکتی'سفارش'سخاوت یا رشوت کے نتیجے میں جو لوگ اقلیتی سیٹوں پر پارلیمنٹ میں آتے ہیں ان کی نمایندگی نہ بجٹ بنانے والی فنانس کمیٹی میں ہوتی ہے'نہ جج لگانے والی جوڈیشل کمیٹی میں'نہ ہی الیکشن کمیشن تشکیل دینے والی پارلیمانی کمیٹی میں۔پسماندہ علاقے مزید پسماندگی کا شکار ہیں'بجٹ ہرسال بڑے بڑے شہروں پر خرچ ہوجاتا ہے 'پسماندہ طبقے غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیںلیکن پاکستان کے موجودہ نظام میں ان کے لیے نہ کوئی حصہ ہے اور نہ کوئی آوازاور نہ ہی کوئی امید ۔کیا کوئی ان پسے ہوئے طبقوں کو اس صدی کا نام یا وہ سال بتا سکتا ہے جب ان کی تقدیر بدل جائے گی 'وہ بھی سرمایہ داروں کی نظام سرمایہ داری میں۔٭۔ریاست پسماندہ طبقے کے تعلیمی و معاشی مفادات پر خصوصی توجہ دے گی۔٭۔کم سے کم مدت میں ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی۔٭۔مفت لازمی ثانوی تعلیم دے گی۔٭۔
فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام کرے گی۔٭۔سستا انصاف یقینی بنائے گی۔ ٭۔بچوں' عورتوں سے ایسا کام نہ لیا جائے جو نا مناسب ہو۔ ٭۔ہر علاقے کو تعلیم 'تربیت اور زرعی وصنعتی ترقی سے اس قابل بنادے گی کہ وہ قومی سرگرمیوں اور ملازمت پاکستان میں حصہ لے سکیں۔٭۔عصمت فروشی 'قمار بازی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال کو روکے گی۔ ٭۔ریاست عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے' دولت و وسائل پیداوار کی تقسیم کو چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے روکے گی۔٭۔ایسے شہریوں کے لیے جو کمزوری' بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر روزی نہ کما سکتے ہوں ضروریات زندگی بشمول خوراک' لباس'رہائش'تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔ ٭۔ملازمت کے مختلف درجوں پر آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی۔
آج تک عوام کے اس آئین کو پامال کیا گیا' حکمران طبقوں نے ہمیشہ اپنے مفاد کو آئین کا تحفظ اور جمہوریت کا تسلسل کہا 'اگر عوام آئین میں دیے گئے ان حقوق کے حصول کے لیے متحد ہوجائیں تو یہ بھی ایک انقلاب ہو سکتا ہے۔جہاں تک صحت کی سہولیات کا تعلق ہے تو اگر کسی کے جیب میں رقم ہے اور وہ بڑے بڑے پرائیویٹ اسپتالوں کا خرچہ برداشت کر سکتاہے تو اچھے علاج کی سہولیات حاصل ہوں گی اور اگر وہ حکمران طبقے سے تعلق رکھتا ہے تو دنیا بھر کے اسپتال ان کی خدمت کے لیے حاضر ہیں لیکن اگر وہ بدقسمتی سے عام شہری ہے تو سرکاری اسپتالوں میں دھکے کھانا اس کا مقدر ہے 'شاید وہاں سے ان کو دو نمبر کی دوائی بھی مل جائے۔جہاں تک روزگار کا تعلق ہے تو اس کے لیے میرٹ لازمی ہے'میرٹ کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی بے روزگار 'کسی ایم پی اے'ایم این اے یا وزیر کا آدمی ہو اور وہ بھی حکومتی عہدے دار کا ہو تو سونے پر سہاگہ ہوگا اور ملازمت کی گارنٹی۔اس کالم میں خارجہ پالیسی 'سیکیورٹی پالیسی 'وفاق کے مسائل پر بحث نہیں کی گئی 'ان مسائل پر بعد میں روشنی ڈالیں گے۔اب یہ فیصلہ قارئین پر کہ یہ مملکت خداداد'فرد کے حقوق کے بارے میں ایک کامیاب ریاست ہے کہ ناکام ؟میرے خیال میں تو یہ ایک ناکام ریاست ہے۔