سیاست کا سلطان صرف ایک ہی

سارے فیصلے اُن کی سوچ و فکر کے لاثانی ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں


Dr Mansoor Norani December 26, 2018
[email protected]

کرپشن کے بے تحاشہ الزامات سے قطع نظر آصف علی زرداری کی ایک خوبی جس کے ہم توکیا سارا پاکستان ہی قائل ہے کہ وہ سیاست کے ذہین، ہشیار اور دور اندیش رہنما ہیں۔ اور وہ حالات کا دھارا اپنی ہی بنائی ہوئی سمت اور منزل کی جانب موڑ دیتے ہیں۔سیاسی بساط پر بڑی سمجھ داری اورہشیاری سے مہرے چلانا انھی کا ہنر اور خاصہ ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے رشتہ ازدواج میں بندھ جانے کے فیصلے سے لے کر آج تک اُن کے سارے فیصلے اُن کی سوچ و فکر کے لاثانی ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کو جس طرح انھوں نے بھٹو خاندان سے نکال کر اپنے خاندان کی پارٹی بنا لی ہے کہ پارٹی میں سے کسی کوکوئی اعتراض بھی نہ ہو اور سب کے سب اُن ہی کی اقتدا میں ہاتھ باندھے کھڑے ہو جائیں یہ کسی اور سیاستداں کے بس کی بات نہ تھی ۔ بی بی سے شادی رچانے سے پہلے آصف علی زرداری کی مالی حیثیت کیا تھی یہ سب کو اچھی طرح معلوم ہے اور آج کیا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اُن پرکرپشن کے الزامات تو بہت لگائے گئے مگرکیا مجال کہ مالی بدعنوانی کا کوئی ایک الزام بھی ہماری عدالتوں میں ثابت ہو جائے۔

دوران تفتیش ماضی میں وہ گیارہ سال جیل بھی کاٹ چکے ہیں لیکن انھیںسزا کوئی بھی سنائی نہیں جا سکی۔ نتیجتاً وہ کبھی سیدھے جیل سے وزارت کا حلف اُٹھانے کے لیے ایوان صدر لائے گئے اورکبھی ڈکٹیٹرکے ہاتھوں این آر او کی برکتوں اور فضیلتوں سے بھی نوازے گئے۔ یہ اُسی این آر او کا کرشمہ تھا کہ وہ اِس مملکتِ خدادادِ پاکستان کے سب سے بڑے محترم اور مقدس عہدے پر نہ صرف براجمان ہوئے بلکہ اُس کی استثنائی خوبیوں اورسہولتوں سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے۔ جمہوریت سے بے پناہ محبت کا دعویٰ کرنے والے زرداری صاحب نے سیاست میں دوستی اورمفاہمت کے بھی بڑے جوہر دکھائے اوردشمنی اور عداوت کے مظاہرے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پارلیمانی نظام حکومت میں صدر مملکت کا عہدہ ویسے تو صرف نمائشی اورعلامتی ہوا کرتا ہے لیکن وہ اِس نظام کے واحد صدر مملکت تھے جن کے آگے وزیر اعظم کی بھی کوئی وقعت اورحیثیت نہ تھی۔

اُن کے دور میں حکومتی امورکے سارے اہم فیصلے پرائم منسٹر ہاؤس کی بجائے ایوان صدر ہی میں ہوتے تھے۔ اِس عہدے کو پانے کے لیے انھوں نے میاں صاحب کو جس طرح ججوں کی بحالی کا جھانسہ دیکر استعمال کیا اور بعد ازاں یہ کہہ کر صاف مکر گئے کہ اُن کا وعدہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں تھا کہ اِس پر من وعن عمل ہو جائے وہ بھی کسی اور شخص کے بس کی بات نہ تھی۔ اپنے دور اقتدار کو پانچ سال تک بخیروخوبی گزارنے کے لیے انھوں نے ایم کیوایم کے ناز بھی اُٹھائے اور مسلم لیگ (ق) کے نخرے بھی برداشت کیے۔اُن کی ایسی ہی خوبیوں کی بدولت لوگ انھیں مفاہمت کا بادشاہ بھی کہتے ہیں۔

میاں نواز شریف سے اُن کی دشمنی بہت پرانی ہے ۔ وہ کبھی کبھار حالات کی مجبوریوں اور وقت کی نزاکتوں کے سبب اُن سے مفاہمت تو کرلیتے ہیں لیکن پھر جب بھی انھیں موقعہ ملتا ہے وہ حساب کتاب برابرکرنے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں کرتے۔ اداروں کے خلاف اپنے ایک اشتعال انگیز بیان کے وجہ سے جب کچھ مشکلیں آن پڑیں تو میاں صاحب کی طرف سے آنکھیں چرا لینے کا بدلہ انھوں نے بلوچستان میں مسلم لیگی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں لے لیا۔ انھوں نے پھر اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے بڑھ کے سینیٹ میں، میں بھی انھیں نہ اپنی اکثریت لانے دی اور نہ اپنا چیئرمین منتخب کرنے دیا۔ جمہوریت پرکڑی نظر رکھنے والے ہمارے تمام اداروں نے اِس سارے گورکھ دھندے اور ارکان اسمبلی کی کھلے بندوں خرید وفروخت کو جمہوریت کا حسن سمجھ کر نہ صرف نظر اندازکیا بلکہ در پردہ حمایت بھی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اِس ہارس ٹریڈنگ کی نہ کوئی تحقیقات کی گئی اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔

آصف علی زرداری بظاہر آج کل ملک میں ہونے والے احتساب کی گرفت میں پھنستے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ اپنی ذہانت اور لیاقت کی بدولت اِس مشکل گھڑی سے بھی بخیرو خوبی نکل جائیں گے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب سیکیورٹی اداروں نے بدنام زمانہ گینگسٹرعذیر بلوچ کوگرفتار کیا تو عام حلقوں میں یہی تاثر تھا کہ اب شاید آصف زرداری نہیں بچیں گے لیکن لوگوں نے دیکھاکہ نہ عذیر بلوچ کی گرفتاری سے کچھ ہوا اور نہ مشہور زمانہ ماڈل گرل ایان علی کی گرفتاری سے اُن کا کوئی بال بیکا ہوا۔

یہی کچھ ہم نے ڈاکٹر عاصم علی کی گرفتاری کے وقت بھی سنا تھا مگر اداروں نے انھیں بھی سال دوسال پکڑ رکھنے کے بعد چار وناچار رہا کر ہی دیا۔ اب حسن لوائی اور انور مجید گرفتار ہیں۔ لوگ سمجھ رہے ہیں اُن کی گرفتاری سے بہت کچھ سامنے آئے گا۔ تخمینے اور اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ زرداری بہت جلد سلاخوں کے پیچھے ہونگے۔گمنام اور بے نام اکاؤنٹس کے قصے بھی سنائے جا رہے ہیں۔ اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ کے مبینہ ٹھوس ثبوت بھی لائے جا رہے ہیں ۔ یہ سارا کھیل تماشہ ہم نے پہلے بھی کئی بار دیکھا ہے۔ زرداری صاحب کی ساری زندگی ایسے ہی واقعات اورمہمات سے بھری پڑی ہے۔

معاملات کی سنجیدگی کا اندازہ اِس طرح لگایاجاسکتا ہے کہ ایک طرف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی ضمانت قبل ازگرفتاری ہے کہ کبھی ختم ہی نہیں ہوپاتی اور دوسری جانب اُن کے خلاف تحقیقات ہیںکہ کبھی مکمل ہی نہیں ہو پاتیں۔ ایسا لگتا ہے یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا تاوقتیکہ خان صاحب حکومت میں اپنی گرفت مضبوط نہیں کرلیتے۔ سہولت کاروں نے انھیں اپوزیشن کے حملوں سے بچانے کا فی الحال یہی طریقہ ڈھونڈا ہے۔ دوسری جانب ذرداری صاحب کا اطمینان بتا رہا ہے کہ کچھ بھی نہیںہونے والا۔ وہ اگر مشکل میں ہوتے تو یوں ایک بار پھر اشتعال انگیز تقریریں کرنا شروع نہ کرتے۔ وہ تو ببانگ دہل دعوت گرفتاری دے رہے ہیں لیکن قانون ہے کہ خود اُن سے پیچھا چھڑانے کے جتن کر رہا ہے۔

ہمیں اچھی طرح پتہ ہے یہاں جس کوگرفتار کرنا مقصود ہو تو اوّل تو اُس کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور ہی نہیں ہوتی اگر ہو بھی جائے توایک خاص مدت کے لیے ہوا کرتی ہے، یوں چار پانچ مہینوں تک بار بار بڑھائی نہیں جاتی۔ ابھی حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ خواجہ برادران کو جب نیب نے گرفتار کرنا چاہا تو فوراً ہی اُن کی ضمانت کی مزید توسیع کی درخواست مسترد کر دی گئی اور قانون اور انصاف کے رکھوالوں نے جب فیصل رضا عابدی اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو کوئی سبق سکھانا چاہا تو اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا گیا۔

آصف زرداری پر ہاتھ ڈالنا شاید اِس لیے بھی مشکل ہے کہ حکومت اور دیگر ادارے جانتے ہیں کہ جنگ اور سیاست میں سارے محاذ ایک ساتھ نہیں کھولے جاتے۔ایک طرف مسلم لیگ نون سے لڑائی لڑی جا رہی ہوتو اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کو بلاوجہ اپنا دشمن نہیں بنایا جاسکتا۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ نون کی طرح آسان سیاسی حریف گردانہ نہیں جاسکتا۔ اُس کے پاس جان پر کھیل جانے والے جیالوں کی کمی نہیں ہے۔ اسٹریٹ پاور کی بھر پور صلاحیت اُس کے جانبازوں کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ مسلم لیگ کی طرح اپنے قائد کی گرفتاری پر خاموش ہرگز نہیں رہیں گے۔یہ بات خان صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور اُن کے سر پرست بھی۔ لہذا دانش مندی اِسی میں ہے کہ فی الحال ایک ہی دشمن سے نبردآزما ہوا جائے۔ شہد کی مکھیوں کے تمام چھتوںمیں ایک ساتھ ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ خواجہ سعد رفیق تو لوہے کے چنے ثابت نہ ہوئے لیکن زرداری صاحب میں یہ خصوصیت یقینا موجود ہے کہ وہ اپنے دشمن کے دانت ضرورکھٹے کردیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں