کیا پیپلزپارٹی اپنی قیادت کے احتساب کی مزاحمت کرپائے گی
کراچی میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے اہم اجلاس منعقد کرکے اپنی آئندہ کی حکمت عملی طے کر لی ہے۔
ملک میں تیزی سے تبدیل ہونے والے سیاسی حالات کے سندھ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور سندھ کس طرح ردعمل کا اظہار کرے گا ؟ یہ سوال مستقبل قریب کی سیاست میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کراچی میں گذشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایک اہم اجلاس منعقد کرکے اپنی آئندہ کی ملک گیر حکمت عملی طے کر لی ہے۔
27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے نو ڈیرو کے جلسہ عام میں اہم اعلانات متوقع ہیں۔ ضمنی بلدیاتی انتخابات میں نہ صرف پیپلز پارٹی نے اپنی برتری برقرار رکھی ہے اور کراچی میں پہلے سے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں بلکہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان نے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر بحال کر لیا ہے۔
عام انتخابات میں کراچی سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی ضمنی بلدیاتی انتخابات میں کارکردگی صفر رہی۔ طویل عرصے بعد کراچی میں سیاسی ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ رونما ہوا ہے، جس میں پاک سرزمین پارٹی کے دو کارکن جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس واقعہ نے کراچی کو ایک بار پھر خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
گذشتہ جمعہ کو بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی صدارت میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا ، جس میں آئندہ کی حکمت عملی طے کی گئی۔ یہ اجلاس ایسے حالات میں منعقد ہوا، جب پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ خدشہ ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے گا اور اس کیس کی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں آصف علی زرداری گرفتار ہو سکتے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کیا جا سکتا ہے کیونکہ گورنر راج اور فارورڈ بلاک بنانے کے آپشنز کی باتیں بھی پیپلز پارٹی کی قیادت تک پہنچی ہیں۔ اجلاس میں شرکاء کی اکثریت کا موقف تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو دباؤ میں لانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا ر ہے ہیں ان کا مقابلہ عوامی طاقت سے کیا جائے۔ اجلاس میں یہ باتیں بھی کی گئیں کہ یہ دباؤ اس لیے ڈالا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے لیے راضی ہو جائے۔ اجلاس میں یہ واضح کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کبھی بھی 18 ویں ترمیم ختم نہیں کرنے دے گی اور حالات کا سیاسی طور پر مقابلہ کرے گی۔
27 دسمبر کو پیپلز پارٹی سیاسی طاقت کا بڑا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے، جس میں بلاول بھٹو زرداری پارٹی کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ نے اپنے قائد میاں نواز شریف کی گرفتاری کی صورت میں سندھ بھر میں احتجاج کی حکمت عملی طے کی تھی لیکن سندھ میں (ن) لیگ کوئی موثر احتجاج ریکارڈ کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
سندھ میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل رہی۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کا پلڑا بھاری رہا جبکہ ان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو سخت دھچکا لگا۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کراچی میں پیپلز پارٹی نے بلدیاتی چیئرمین کی 2 ، تحریک انصاف نے ایک اور ایم کیو ایم نے ایک چیئرمین اور دو وائس چیئرمین کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم نے کراچی کے ضلع وسطی میں خالی ہونے والی تمام بلدیاتی نشستیں دوبارہ حاصل کر لیں۔
ایم کیو ایم نے جنرل نمبرز کی 8 ، پیپلز پارٹی نے 4 اور اے این پی نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ حیدر آباد کی 3 نشستوں میں سے 2 پر ایم کیو ایم اور ایک پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی ۔ سکھر سے 3 نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار جبکہ میرپورخاص کی تینوں نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار جیت گئے۔ نواب شاہ، ٹنڈو والہ یار، ماتلی، شہداد پور ، ٹنڈو باگو میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے میدان مار لیا۔ ان ضمنی انتخابات میں کراچی کے نتائج کو اپ سیٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔
عام انتخابات میں تحریک انصاف کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی اور اس نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 75 فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ضمنی بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم پہلے اور پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر رہی جبکہ تحریک انصاف تیسری پوزیشن پر چلی گئی ۔ ضمنی بلدیاتی انتخابات کے نتائج ایم کیو ایم کے لیے حوصلہ افزاء ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں یہی رجحان برقرار رہتا ہے یا نہیں ۔
گزشتہ اتوار اور پیر کی درمیانی شپ کراچی میں رضویہ سوسائٹی تھانے کی حدود جہانگیر آباد عثمانیہ کالونی میں واقع پاک سرزمین پارٹی ( پی ایس پی ) کے ٹاؤن آفس میں نامعلوم موٹر سائیکل ملزمان نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پی ایس پی کے دو کارکن محمد اظہر اور نعیم جاںبحق ہو گئے جبکہ 2 افراد زخمی ہوگئے۔ فائرنگ سے علاقے میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا اور قریبی دکانیں بند ہوگئیں۔ قتل کی واردات کے وقت علاقے میں بجلی نہیں تھی۔ کافی عرصے کے بعد کراچی میں ایسا واقعہ رونما ہوا ہے، جس میں سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی فوری طور پر عباسی شہید اسپتال پہنچ گئے۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہاجروں کے بچے کھانے والا ایم کیو ایم کا بانی ہے، 22 اگست کو ایم کیو ایم کے بانی کی سیاست ختم ہو گئی تھی، ہمارے کارکنوں کا خون ایم کیو ایم پاکستان بنانے والوں کے سر جاتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد کراچی کے لوگ خوف زدہ ہیں کہ کہیں یہ شہر دوبارہ قتل و غارت گری کی سیاست کی لپیٹ میں نہ آجائے۔
27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے نو ڈیرو کے جلسہ عام میں اہم اعلانات متوقع ہیں۔ ضمنی بلدیاتی انتخابات میں نہ صرف پیپلز پارٹی نے اپنی برتری برقرار رکھی ہے اور کراچی میں پہلے سے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں بلکہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان نے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر بحال کر لیا ہے۔
عام انتخابات میں کراچی سے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی ضمنی بلدیاتی انتخابات میں کارکردگی صفر رہی۔ طویل عرصے بعد کراچی میں سیاسی ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ رونما ہوا ہے، جس میں پاک سرزمین پارٹی کے دو کارکن جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس واقعہ نے کراچی کو ایک بار پھر خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
گذشتہ جمعہ کو بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی صدارت میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا ، جس میں آئندہ کی حکمت عملی طے کی گئی۔ یہ اجلاس ایسے حالات میں منعقد ہوا، جب پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ خدشہ ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے گا اور اس کیس کی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں آصف علی زرداری گرفتار ہو سکتے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کیا جا سکتا ہے کیونکہ گورنر راج اور فارورڈ بلاک بنانے کے آپشنز کی باتیں بھی پیپلز پارٹی کی قیادت تک پہنچی ہیں۔ اجلاس میں شرکاء کی اکثریت کا موقف تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو دباؤ میں لانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جا ر ہے ہیں ان کا مقابلہ عوامی طاقت سے کیا جائے۔ اجلاس میں یہ باتیں بھی کی گئیں کہ یہ دباؤ اس لیے ڈالا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے لیے راضی ہو جائے۔ اجلاس میں یہ واضح کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کبھی بھی 18 ویں ترمیم ختم نہیں کرنے دے گی اور حالات کا سیاسی طور پر مقابلہ کرے گی۔
27 دسمبر کو پیپلز پارٹی سیاسی طاقت کا بڑا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے، جس میں بلاول بھٹو زرداری پارٹی کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ نے اپنے قائد میاں نواز شریف کی گرفتاری کی صورت میں سندھ بھر میں احتجاج کی حکمت عملی طے کی تھی لیکن سندھ میں (ن) لیگ کوئی موثر احتجاج ریکارڈ کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
سندھ میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی انتخابات میں مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل رہی۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کا پلڑا بھاری رہا جبکہ ان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو سخت دھچکا لگا۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کراچی میں پیپلز پارٹی نے بلدیاتی چیئرمین کی 2 ، تحریک انصاف نے ایک اور ایم کیو ایم نے ایک چیئرمین اور دو وائس چیئرمین کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم نے کراچی کے ضلع وسطی میں خالی ہونے والی تمام بلدیاتی نشستیں دوبارہ حاصل کر لیں۔
ایم کیو ایم نے جنرل نمبرز کی 8 ، پیپلز پارٹی نے 4 اور اے این پی نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ حیدر آباد کی 3 نشستوں میں سے 2 پر ایم کیو ایم اور ایک پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی ۔ سکھر سے 3 نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار جبکہ میرپورخاص کی تینوں نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار جیت گئے۔ نواب شاہ، ٹنڈو والہ یار، ماتلی، شہداد پور ، ٹنڈو باگو میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے میدان مار لیا۔ ان ضمنی انتخابات میں کراچی کے نتائج کو اپ سیٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔
عام انتخابات میں تحریک انصاف کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی اور اس نے کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 75 فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ضمنی بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم پہلے اور پیپلزپارٹی دوسرے نمبر پر رہی جبکہ تحریک انصاف تیسری پوزیشن پر چلی گئی ۔ ضمنی بلدیاتی انتخابات کے نتائج ایم کیو ایم کے لیے حوصلہ افزاء ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں یہی رجحان برقرار رہتا ہے یا نہیں ۔
گزشتہ اتوار اور پیر کی درمیانی شپ کراچی میں رضویہ سوسائٹی تھانے کی حدود جہانگیر آباد عثمانیہ کالونی میں واقع پاک سرزمین پارٹی ( پی ایس پی ) کے ٹاؤن آفس میں نامعلوم موٹر سائیکل ملزمان نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پی ایس پی کے دو کارکن محمد اظہر اور نعیم جاںبحق ہو گئے جبکہ 2 افراد زخمی ہوگئے۔ فائرنگ سے علاقے میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا اور قریبی دکانیں بند ہوگئیں۔ قتل کی واردات کے وقت علاقے میں بجلی نہیں تھی۔ کافی عرصے کے بعد کراچی میں ایسا واقعہ رونما ہوا ہے، جس میں سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی فوری طور پر عباسی شہید اسپتال پہنچ گئے۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہاجروں کے بچے کھانے والا ایم کیو ایم کا بانی ہے، 22 اگست کو ایم کیو ایم کے بانی کی سیاست ختم ہو گئی تھی، ہمارے کارکنوں کا خون ایم کیو ایم پاکستان بنانے والوں کے سر جاتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد کراچی کے لوگ خوف زدہ ہیں کہ کہیں یہ شہر دوبارہ قتل و غارت گری کی سیاست کی لپیٹ میں نہ آجائے۔