حکومت زراعت اورکسان کو نظر اندازکیوں کر رہی ہے
اقتدار میں آنے کے بعد ابھی تک تحریک انصاف نے زراعت اور کسان کیلئے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا ہے
SYDNEY, AUSTRALIA:
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر زراعت دشمنی کا الزام عائد کرتے ہوئے شدید تنقید کیا کرتے تھے، بالخصوص دیہی علاقوں میں جلسوں سے خطاب کے دوران ن لیگ کی زراعت دشمنی ان کے خطاب کا اہم ترین جزو ہوا کرتی تھی۔
عمران خان نے الیکشن سے قبل کسانوں کے ساتھ بہت بڑے بڑے دعوے کیئے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ابھی تک تحریک انصاف نے زراعت اور کسان کیلئے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا ہے بلکہ کھادوں اور دیگر زرعی لوازمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے کسانوں پر معاشی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اس وقت حالت نزع میں ہے،کوئی بھی شعبہ کسی بھی سطح پر مطمئن نہیں ہے۔
ہر طرح کا کاروبار مندی کا شکار ہے لیکن زراعت کا شعبہ کچھ زیادہ ہی مشکل میں ہے۔ پاکستان کی مجموعی زرعی پیداوار کا 75 فیصد گندم، گنا، چاول اور کپاس پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ شوگر ملز کی جانب سے کرشنگ سیزن میں تاخیر اور اس معاملے میں حکومت کی بے بسی نے گنے کے کاشتکاروں کو پریشان کئے رکھا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی سب سے اہم بنیاد زراعت ہے، ملکی جی ڈی پی کا 25 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے جبکہ ملک کی مجموعی لیبر فورس کا43 فیصد بھی زرعی شعبہ سے منسلک ہے۔
پاکستان میں زراعت کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح نہیں رہی ہے کیونکہ بڑے بڑے وڈیرے اور جاگیردار اسمبلیوں میں بیٹھ کر بھی چھوٹے کسان کیلئے کوئی فائدہ مند سکیم نہیں بناتے۔ پاکستان بالخصوص پنجاب کے دیہی علاقوں کی 50 فیصد آبادی اپنی ملکیتی زمین سے محروم ہے تو دوسری جانب ملکی آبادی کے 5 فیصد کی ملکیت میں ملک کی مجموعی زرعی زمین کا 64 فیصد ہے۔ زرعی زمین رکھنے والوں میں سے 61 فیصد وہ چھوٹے کسان ہیں جن کے پاس 5 ایکڑ سے کم زرعی رقبہ ہے۔
پاکستان کی 72 فیصد زراعت پنجاب میں موجود ہے لہذا پنجاب حکومت کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ماضی میں میاں شہباز شریف نے زراعت کے شعبہ پر خصوصی توجہ نہیں دی ، جو چند ایک اقدامات کئے گئے وہ بھی محض دکھاوے کے تھے، وفاقی حکومت کے تعاون سے کسان پیکج متعارف کروانے کے پیچھے بھی الیکشن سے قبل کسان ووٹ کو حمایتی بنانا تھا جبکہ یہ سکیم سیاسی مداخلت اور اقربا پروری کی وجہ سے بری طرح فلاپ ہوئی۔
شہباز دور حکومت میں محکمہ زراعت کی کارکردگی شدید تنقید کا شکار رہی ہے اور یہ تنقید اس وقت بڑھ گئی جب میاں شہباز شریف نے کسان خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک کسان دوست اور عمدہ ڈی ایم جی افسر شہریار سلطان کو سیکرٹری زراعت تعینات کرنے کے چند ہی ماہ بعد اس لئے ہٹا دیا کیونکہ میاں صاحب نے''نندی پور فیم'' کیپٹن(ر) محمود کو سیکرٹری زراعت تعینات کرنا تھا۔ پنجاب کے نجی و سرکاری شعبہ زراعت سے منسلک اکثریتی افراد کی متفقہ رائے ہے کہ پنجاب میں زراعت اور کسان کو جتنا نقصان کیپٹن(ر) محمود کی سیکرٹری شپ کے دور میں ہوا، وہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی کا عہدہ جھنگ کے معروف مذہبی و کسان خاندان کے صاحبزادہ محبوب سلطان کو سونپا ہے جبکہ پنجاب میں وزیر زراعت کے عہدہ پر ساہیوال سے تعلق رکھنے والے کسان اور سیاستدان ملک نعمان لنگڑیال جبکہ وزیر خوراک کیلئے بہاولپور سے تعلق رکھنے والے کسان دوست سیاستدان سمیع اللہ چوہدری کو منتخب کیا گیا ہے۔ تینوں وزراء کا گہرا تعلق زراعت سے ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی دوسری مصروفیات اور قومی خزانہ کی تنگدستی کی وجہ سے کسان اور زراعت مسلسل نظر انداز ہو رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار خود بھی کسان ہیں لیکن نجانے وہ زراعت کی جانب کیوں توجہ نہیں دے پا رہے۔
وہ جس پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کے چھوٹے کسان اور ہاری جس کرب و معاشی تنگدستی کا شکار ہیں ان تمام حالات سے سردار عثمان بزدار بخوبی واقف ہیں۔ محکمہ خوراک اورمحکمہ زراعت پنجاب کے سیکرٹری صاحبان کا شمار عمدہ افسروں میں ہوتا ہے بالخصوص سیکرٹری خوراک شوکت علی نے سرکاری گندم کی نکاسی کے جس بحران کو کامیابی سے سمیٹا ہے وہ کسی عام افسر کے بس کی بات نہیں تھی۔ سیکرٹری زراعت پنجاب واصف خورشید بھی زرعی شعبہ کی ترقی کے حوالے سے اپنی استعداد سے بڑھ کر کچھ نیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حکومت کی معاشی و انتظامی مجبوریاں آڑے آرہی ہیں۔
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین زرعی جدت پسندی اور تحقیق کی بنیاد پر پاکستان کے سب سے موثر کاشتکار قرار دیئے جاتے ہیں، انہوں نے زراعت کو نہ صرف اپنا کامیاب کاروبار بنایا ہے بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت انہوں نے غیر ملکی سائنسدانوں کے زریعے زرعی تحقیق پر بھی بہت کام کیا ہے، اپنے علاقے کے کاشتکاروں کو آسان قرضوں کی فراہمی اور بہترین نرخوں پر جنس کی خریداری کے حوالے سے بھی ملکی و غیر ملکی میڈیا میں جہانگیر ترین کی مثال پیش کی جاتی ہے۔
جہانگیر ترین نے کچھ عرصہ قبل بہت محنت اور مشاورت سے نئی زرعی پالیسی تیار کی ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومتیں اس پالیسی پر مکمل نیک نیتی اور سنجیدگی سے عملدرآمد کریں۔ پاکستان کی برآمدات کا مرکزی حصہ ٹیکسٹائل سیکٹر ہے اور ٹیکسٹائل کیلئے خام مال''کپاس'' کی فصل گزشتہ چند برسوں سے مسائل کا شکار ہے، ملکی زراعت کے مسائل کی ایک اہم وجہ سرکاری سطح پر جدید زرعی تحقیق کا فقدان ہے، حکومت کے زرعی تحقیقاتی اداروں میں اندرونی سیاست نے بھی نقصان پہنچایا ہے اور جہاں کوئی تحقیق شروع کرنے کی نیت ہوتی ہے وہاں فنڈز کی قلت آڑے آجا تی ہے۔اہم فصلوں کے نئے بیجوں کی دریافت اشد ضروری ہے جبکہ زرعی لوازمات کی قیمتوں کو کم کرنا حکومت کی ترجیح ہونا چاہئے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ ہم پیداوار بڑھانے کیلئے اقدامات کریں گے لہذا اب حکومت کو عملی طور پر اس جانب قدم بڑھانا ہوگا۔گندم کی فصل ملک کی سب سے بڑی فصل ہے لیکن غیر مستحکم حکومتی پالیسیاں اسے متاثر کر رہی ہیں ، ملکی ضروریات سے وافر گندم کی مستقل ایکسپورٹ کیلئے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے جبکہ اس مرتبہ گنے کی کٹائی میں تاخیر اور مکئی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گندم کی پیداوار متاثر ہونے کا امکان ہے۔ پاکستا ن کو گندم کی عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنانے کیلئے گندم اور اس کی مصنوعات کی ایک مقدار مختص کردینا چاہئے کہ ہر سال اس مقدار کے برابر ایکسپورٹ ہوتی رہی۔
افغانستان پاکستانی گندم کی سب سے بڑی منڈی ہوا کرتا تھا لیکن ہماری غیر مستحکم پالیسیوں کے سبب افغانستان کی مارکیٹ روسی ریاستوں کے ہاتھ میں جا چکی ہے۔ چاول کا یہ عالم ہے کہ بھارتی تاجر پاکستان کا چاول خرید کر اس کی ری پیکنگ کر کے بھاری منافع کما رہے ہیں، پاکستان کا باسمتی چاول دنیا بھر بالخصوص عرب ممالک میں پسند کیا جاتا ہے لہذا چاول کی ایکسپورٹ کی نئی پالیسی متعارف کروانا بھی ضروری ہو چکا ہے۔ جعلی زرعی ادویات کا معاملہ اب ماضی جیسا سنگین نہیں رہا ۔
1997/98 میں جہانگیر ترین نے وزیر اعلی کے مشیر زراعت کی حیثیت سے ان مافیاز کو بہت حد تک ختم کردیا تھا لیکن ابھی بھی بعض علاقوں میں یہ دھندہ ہو رہا ہے۔ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار خود بھی کاشتکار ہیں وہ زراعت کے شعبہ پر خصوصی توجہ دے کر بہت سے مسائل ختم کر سکتے ہیں اور اپنی کارکردگی بھی لوگوں کو دکھا سکتے ہیں ۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر زراعت دشمنی کا الزام عائد کرتے ہوئے شدید تنقید کیا کرتے تھے، بالخصوص دیہی علاقوں میں جلسوں سے خطاب کے دوران ن لیگ کی زراعت دشمنی ان کے خطاب کا اہم ترین جزو ہوا کرتی تھی۔
عمران خان نے الیکشن سے قبل کسانوں کے ساتھ بہت بڑے بڑے دعوے کیئے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ابھی تک تحریک انصاف نے زراعت اور کسان کیلئے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا ہے بلکہ کھادوں اور دیگر زرعی لوازمات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے کسانوں پر معاشی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اس وقت حالت نزع میں ہے،کوئی بھی شعبہ کسی بھی سطح پر مطمئن نہیں ہے۔
ہر طرح کا کاروبار مندی کا شکار ہے لیکن زراعت کا شعبہ کچھ زیادہ ہی مشکل میں ہے۔ پاکستان کی مجموعی زرعی پیداوار کا 75 فیصد گندم، گنا، چاول اور کپاس پر مشتمل ہوتا ہے ۔ اس مرتبہ شوگر ملز کی جانب سے کرشنگ سیزن میں تاخیر اور اس معاملے میں حکومت کی بے بسی نے گنے کے کاشتکاروں کو پریشان کئے رکھا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی سب سے اہم بنیاد زراعت ہے، ملکی جی ڈی پی کا 25 فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے جبکہ ملک کی مجموعی لیبر فورس کا43 فیصد بھی زرعی شعبہ سے منسلک ہے۔
پاکستان میں زراعت کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح نہیں رہی ہے کیونکہ بڑے بڑے وڈیرے اور جاگیردار اسمبلیوں میں بیٹھ کر بھی چھوٹے کسان کیلئے کوئی فائدہ مند سکیم نہیں بناتے۔ پاکستان بالخصوص پنجاب کے دیہی علاقوں کی 50 فیصد آبادی اپنی ملکیتی زمین سے محروم ہے تو دوسری جانب ملکی آبادی کے 5 فیصد کی ملکیت میں ملک کی مجموعی زرعی زمین کا 64 فیصد ہے۔ زرعی زمین رکھنے والوں میں سے 61 فیصد وہ چھوٹے کسان ہیں جن کے پاس 5 ایکڑ سے کم زرعی رقبہ ہے۔
پاکستان کی 72 فیصد زراعت پنجاب میں موجود ہے لہذا پنجاب حکومت کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ماضی میں میاں شہباز شریف نے زراعت کے شعبہ پر خصوصی توجہ نہیں دی ، جو چند ایک اقدامات کئے گئے وہ بھی محض دکھاوے کے تھے، وفاقی حکومت کے تعاون سے کسان پیکج متعارف کروانے کے پیچھے بھی الیکشن سے قبل کسان ووٹ کو حمایتی بنانا تھا جبکہ یہ سکیم سیاسی مداخلت اور اقربا پروری کی وجہ سے بری طرح فلاپ ہوئی۔
شہباز دور حکومت میں محکمہ زراعت کی کارکردگی شدید تنقید کا شکار رہی ہے اور یہ تنقید اس وقت بڑھ گئی جب میاں شہباز شریف نے کسان خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک کسان دوست اور عمدہ ڈی ایم جی افسر شہریار سلطان کو سیکرٹری زراعت تعینات کرنے کے چند ہی ماہ بعد اس لئے ہٹا دیا کیونکہ میاں صاحب نے''نندی پور فیم'' کیپٹن(ر) محمود کو سیکرٹری زراعت تعینات کرنا تھا۔ پنجاب کے نجی و سرکاری شعبہ زراعت سے منسلک اکثریتی افراد کی متفقہ رائے ہے کہ پنجاب میں زراعت اور کسان کو جتنا نقصان کیپٹن(ر) محمود کی سیکرٹری شپ کے دور میں ہوا، وہ ماضی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی کا عہدہ جھنگ کے معروف مذہبی و کسان خاندان کے صاحبزادہ محبوب سلطان کو سونپا ہے جبکہ پنجاب میں وزیر زراعت کے عہدہ پر ساہیوال سے تعلق رکھنے والے کسان اور سیاستدان ملک نعمان لنگڑیال جبکہ وزیر خوراک کیلئے بہاولپور سے تعلق رکھنے والے کسان دوست سیاستدان سمیع اللہ چوہدری کو منتخب کیا گیا ہے۔ تینوں وزراء کا گہرا تعلق زراعت سے ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی دوسری مصروفیات اور قومی خزانہ کی تنگدستی کی وجہ سے کسان اور زراعت مسلسل نظر انداز ہو رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار خود بھی کسان ہیں لیکن نجانے وہ زراعت کی جانب کیوں توجہ نہیں دے پا رہے۔
وہ جس پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کے چھوٹے کسان اور ہاری جس کرب و معاشی تنگدستی کا شکار ہیں ان تمام حالات سے سردار عثمان بزدار بخوبی واقف ہیں۔ محکمہ خوراک اورمحکمہ زراعت پنجاب کے سیکرٹری صاحبان کا شمار عمدہ افسروں میں ہوتا ہے بالخصوص سیکرٹری خوراک شوکت علی نے سرکاری گندم کی نکاسی کے جس بحران کو کامیابی سے سمیٹا ہے وہ کسی عام افسر کے بس کی بات نہیں تھی۔ سیکرٹری زراعت پنجاب واصف خورشید بھی زرعی شعبہ کی ترقی کے حوالے سے اپنی استعداد سے بڑھ کر کچھ نیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حکومت کی معاشی و انتظامی مجبوریاں آڑے آرہی ہیں۔
تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین زرعی جدت پسندی اور تحقیق کی بنیاد پر پاکستان کے سب سے موثر کاشتکار قرار دیئے جاتے ہیں، انہوں نے زراعت کو نہ صرف اپنا کامیاب کاروبار بنایا ہے بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت انہوں نے غیر ملکی سائنسدانوں کے زریعے زرعی تحقیق پر بھی بہت کام کیا ہے، اپنے علاقے کے کاشتکاروں کو آسان قرضوں کی فراہمی اور بہترین نرخوں پر جنس کی خریداری کے حوالے سے بھی ملکی و غیر ملکی میڈیا میں جہانگیر ترین کی مثال پیش کی جاتی ہے۔
جہانگیر ترین نے کچھ عرصہ قبل بہت محنت اور مشاورت سے نئی زرعی پالیسی تیار کی ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی وصوبائی حکومتیں اس پالیسی پر مکمل نیک نیتی اور سنجیدگی سے عملدرآمد کریں۔ پاکستان کی برآمدات کا مرکزی حصہ ٹیکسٹائل سیکٹر ہے اور ٹیکسٹائل کیلئے خام مال''کپاس'' کی فصل گزشتہ چند برسوں سے مسائل کا شکار ہے، ملکی زراعت کے مسائل کی ایک اہم وجہ سرکاری سطح پر جدید زرعی تحقیق کا فقدان ہے، حکومت کے زرعی تحقیقاتی اداروں میں اندرونی سیاست نے بھی نقصان پہنچایا ہے اور جہاں کوئی تحقیق شروع کرنے کی نیت ہوتی ہے وہاں فنڈز کی قلت آڑے آجا تی ہے۔اہم فصلوں کے نئے بیجوں کی دریافت اشد ضروری ہے جبکہ زرعی لوازمات کی قیمتوں کو کم کرنا حکومت کی ترجیح ہونا چاہئے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ ہم پیداوار بڑھانے کیلئے اقدامات کریں گے لہذا اب حکومت کو عملی طور پر اس جانب قدم بڑھانا ہوگا۔گندم کی فصل ملک کی سب سے بڑی فصل ہے لیکن غیر مستحکم حکومتی پالیسیاں اسے متاثر کر رہی ہیں ، ملکی ضروریات سے وافر گندم کی مستقل ایکسپورٹ کیلئے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے جبکہ اس مرتبہ گنے کی کٹائی میں تاخیر اور مکئی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گندم کی پیداوار متاثر ہونے کا امکان ہے۔ پاکستا ن کو گندم کی عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنانے کیلئے گندم اور اس کی مصنوعات کی ایک مقدار مختص کردینا چاہئے کہ ہر سال اس مقدار کے برابر ایکسپورٹ ہوتی رہی۔
افغانستان پاکستانی گندم کی سب سے بڑی منڈی ہوا کرتا تھا لیکن ہماری غیر مستحکم پالیسیوں کے سبب افغانستان کی مارکیٹ روسی ریاستوں کے ہاتھ میں جا چکی ہے۔ چاول کا یہ عالم ہے کہ بھارتی تاجر پاکستان کا چاول خرید کر اس کی ری پیکنگ کر کے بھاری منافع کما رہے ہیں، پاکستان کا باسمتی چاول دنیا بھر بالخصوص عرب ممالک میں پسند کیا جاتا ہے لہذا چاول کی ایکسپورٹ کی نئی پالیسی متعارف کروانا بھی ضروری ہو چکا ہے۔ جعلی زرعی ادویات کا معاملہ اب ماضی جیسا سنگین نہیں رہا ۔
1997/98 میں جہانگیر ترین نے وزیر اعلی کے مشیر زراعت کی حیثیت سے ان مافیاز کو بہت حد تک ختم کردیا تھا لیکن ابھی بھی بعض علاقوں میں یہ دھندہ ہو رہا ہے۔ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار خود بھی کاشتکار ہیں وہ زراعت کے شعبہ پر خصوصی توجہ دے کر بہت سے مسائل ختم کر سکتے ہیں اور اپنی کارکردگی بھی لوگوں کو دکھا سکتے ہیں ۔