داس کلچہ
مغربی، چائنیز اور دیگر ممالک کے کھانوں کو ضرور چکھیے، مگر اپنے روایتی کھانوں کو نہ بھولیے
داس کلچے... آ داس کلچے... داس کلچے
لاہور کی گلیوں میں اکثر سنائی دینی والی یہ صدا اب ختم ہوتی جارہی ہے۔ داس کلچہ لاہور کا روائیتی ناشتہ ہے جس کو پرانے لاہوریے صدیوں قدیم اس شہر کی سوغات بتاتے ہیں۔ داس کلچے کا رشتہ کسی افسانوی کردار مہر داس سے جوڑا جاتا ہے جو مغل دور کا تھا۔ تاریخ میں ان مہر داس سے متعلق مجھے کچھ نہیں ملا۔ بلکہ حیرت ہے کہ لاہور کے اس معروف ناشتے کا ذکر بھی فقط مستنصر حسین تارڑ کی کتب میں ملتا ہے۔ داس کلچہ جس کو لاہور کی سوغات کہا جاتا تھا، اپنے منفرد ذائقے اور نام کے باعث ماضی میں خاصا معروف تھا۔ اب پرانے روائتی ناشتوں کو لوگ بھولتے جارہے ہیں، مگر کچھ چیزیں اچھے ریستوران والوں نے بچا لی ہے۔ جیسا کہ چائے اور پراٹھا اب نوجوانوں میں کافی مقبول ہے۔ مگر داس کلچے کو تو نئی رہائشی اسکیموں میں جا بسنے والے پرانے لاہوریے بھی بھولتے جارہے ہیں۔
لاہور میں اس معدوم ہوتی روایت کو بچائے رکھنے والے اکیلے زاہد بٹ ہیں۔ یہ صاحب شیرانوالہ دروازے میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ کلچہ بھی وہیں تیار کیا جاتا ہے، ان سے لے کر لوگ آگے بھی فروخت کرتے ہیں۔
نیشنل کالج آف آرٹس کی جانب سے داس کلچے پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی گئی تھی۔ ''داس کلچہ'' نامی اِس دستاویزی فلم نے بہترین ڈاکومینٹری کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=FkMBopaCwik
بعض لوگ کہتے ہیں یہ کلچہ امرتسر سے آئے ایک خاندان نے تقسیم سے پہلے شروع کیا تھا۔ کشور ناہید صاحبہ کے ایک کالم سے معلوم ہوا کہ امرتسر میں اب بھی داس کلچہ بہت مشہور ہے۔ بلکہ اس کو حاصل کرنا خاصا مشکل ہے، کیونکہ رش ہی اتنا ہوتا ہے۔ خیر تقسیم کے بعد وہ امرتسری خاندان تو شاید اپنے امرتسر کو ہی لوٹ گیا۔ یعنی سرحد پار چلا گیا۔ لیکن اس کلچے کا نسخہ تندور کے موجودہ مالک کے بزرگوں کو مل گیا اور سینہ بہ سینہ ان سے زاہد صاحب کو ملا۔
کلچہ بنانے کی ترکیب تقریباً ایک راز ہے۔ یہاں تک کہ کلچہ بننے والی جگہ پر کام کرنے والے ملازمین بھی کلچہ سازی کے تمام مراحل سے آگاہ نہیں۔ البتہ این سی اے کی دستاویزی فلم سے اس کلچے کی ترکیب کے متعلق کچھ معلومات ملتی ہے جو کہ اس طرح ہے... داس کلچے کو میدے، سوجی اور چند نامعلوم چیزوں کے ساتھ سونف کے پانی سے گوندھا جاتا ہے۔ پیڑے بنانے کے بعد ان پر دودھ کی لسی بھی لگائی جاتی ہے۔ کلچوں کا خمیر تیار کرنے کا طریقہ بڑا مختلف لگا۔
چنے کی دال اور سونف کے پانی کو مٹی کی مٹکی میں ڈال کر اوپر وزن ڈالا جاتا ہے جس کو کافی دیر کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر اس کو کھولنے پر اس میں سے جو سفید مادہ نکلتا ہے، وہ کلچوں کا خمیر ہوتا ہے۔
مجھے داس کلچہ کافی مشکل سے ملا، بلکہ ایسا لگتا تھا جیسے میرے اور اس کے ستارے کبھی نہیں ملیں گے۔ انارکلی سے اس کو تلاش کرنا شروع کیا، وہاں نہیں ملا تو لوہاری گئے۔ پھر کسی نے رنگ محل کا بتایا، وہاں سے معلوم ہوا کہ موچی دروازے جائیں۔ موچی دروازے میں لوگوں نے کہا خلیفہ بیکری جائیں۔ جب یہ بیکری دریافت کی تو انہوں نے کہا ہم نہیں فروخت کرتے مگر ہمارے قریب ہی ایک صاحب بیچتے ہیں۔ اگلے روز دوبارہ وہاں گئے تو کہا گیا آپ تاخیر سے پہنچے ہیں، یہ ١ بجے تک ہی ملتا ہے۔ پھر گئے تو داس کلچوں والے صاحب چھٹی پر تھے۔ مگر ہم پکے ڈھیٹوں کی طرح اگلے روز پھر وہاں پہنچ گے... اور اس دفعہ ہم نے داس کلچے پا لیے۔ ان کے چھابے کو دیکھا تو اس پر ایک پھولا ہوا چھوٹا سا کلچہ تھا جو نان و روٹی کی بجائے شوارما بریڈ کے خاندان سے لگ رہا تھا۔ ساتھ ہی چنے تھے جن کی صورت لاہوری چکڑ چھولوں جیسی تھی۔ اور پھر بیسن کی بوندی دیکھی، پوچھنے پر بتایا گیا ''جی یہ لونچڑے ہیں۔'' ان کے علاوہ مصالحے دار پیاز، اچار، چٹنیاں اور سلاد بھی نظر آیا۔
بیٹھنے کی جگہ دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک صاحب نے اپنے مخصوص لاہوری لہجے میں کہا ''لہوری ناشتہ کرن آیاں ایں تے لاہوریاں آر کھا۔'' اب سمجھ نہیں آیا کہ کھڑے ہوکر کھانے کا لاہور سے کیا تعلق ہے۔
داس کلچہ اور چنے دونوں ہی خشک ہوتے ہیں، جس کے وجہ سے پہلی بار ذائقہ ذرا مختلف لگتا ہے اور کھانے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ دیکھنے میں چھوٹا سا نظر آنے والا کلچہ حقیقتاً کافی بھاری ہوتا ہے؛ یعنی ثقیل۔ کچھ ہمارے اندر ملاوٹ اتنی ہو چکی ہے کہ اب خالص اشیاء ہضم ہی نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا ذائقہ منفرد ہے۔ کلچے بیچنے والے صاحب کا کہنا ہے کہ لوگ ان کے پاس داس کلچے کھانے کئی کئی سال سے آ رہے، بلکہ جب وہ کہیں باہر جائیں تو اس روایتی ناشتے کو بھی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کلچہ ایک جگہ بنتا ہے اور وہ اور ان کے تین بھائی اس جگہ کے علاوہ سائیکل پر داس کلچہ مختلف جگہوں پر فروخت کرتے ہیں۔ لیکن کافی تلاش کے باجود مجھے یہ کلچہ فقط چوہٹہ مفتی باقر میں ملا۔ مگر سنا ہے کہ پھیری والے رنگ محل، چوک دالگراں، ڈبی بازار، موتی بازار وغیرہ میں بھی اس کو بیچتے ہیں۔
اگر آپ لاہور کے اس ثقافتی اور منفرد ناشتے کو کھانے کا شوق رکھتے ہیں تو میں اپنے ذاتی تجربے کے بناء پر آپ کو مشورہ دوں گا کہ صبح سویرے جائیں اور موچی دروازہ پہنچ کر کسی سے خلیفہ بیکری کا رستہ پوچھ لیں، آپ بآسانی پہنچ جائیں گے۔ دوسرے شہروں سے آنے والے سیاح حضرات بھی سورج نکلنے کے بعد وہاں پہنچ کر اس طلسمی داس کلچے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، کیونکہ چند گھنٹوں بعد اس کا ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اندرون لاہور کے لوگ تو اب تک لاہور کی روایات سے جُڑے ہوئے ہیں، مگر اب بہت سے پرانے لوگ نئی آبادیوں کی جانب کُوچ کر رہے ہیں اور ہمارے نوجوان اپنی روایات سے ناواقف بھی ہیں اور لا تعلق بھی۔
تو گزارش ہے کہ مغربی، چائنیز اور دیگر ممالک کے کھانوں کو ضرور چکھیں، مگر اپنے روایتی کھانوں کو بھی کھائیں؛ یقین کریں! آپ کو مایوسی نہیں ہوگی...
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
لاہور کی گلیوں میں اکثر سنائی دینی والی یہ صدا اب ختم ہوتی جارہی ہے۔ داس کلچہ لاہور کا روائیتی ناشتہ ہے جس کو پرانے لاہوریے صدیوں قدیم اس شہر کی سوغات بتاتے ہیں۔ داس کلچے کا رشتہ کسی افسانوی کردار مہر داس سے جوڑا جاتا ہے جو مغل دور کا تھا۔ تاریخ میں ان مہر داس سے متعلق مجھے کچھ نہیں ملا۔ بلکہ حیرت ہے کہ لاہور کے اس معروف ناشتے کا ذکر بھی فقط مستنصر حسین تارڑ کی کتب میں ملتا ہے۔ داس کلچہ جس کو لاہور کی سوغات کہا جاتا تھا، اپنے منفرد ذائقے اور نام کے باعث ماضی میں خاصا معروف تھا۔ اب پرانے روائتی ناشتوں کو لوگ بھولتے جارہے ہیں، مگر کچھ چیزیں اچھے ریستوران والوں نے بچا لی ہے۔ جیسا کہ چائے اور پراٹھا اب نوجوانوں میں کافی مقبول ہے۔ مگر داس کلچے کو تو نئی رہائشی اسکیموں میں جا بسنے والے پرانے لاہوریے بھی بھولتے جارہے ہیں۔
لاہور میں اس معدوم ہوتی روایت کو بچائے رکھنے والے اکیلے زاہد بٹ ہیں۔ یہ صاحب شیرانوالہ دروازے میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ کلچہ بھی وہیں تیار کیا جاتا ہے، ان سے لے کر لوگ آگے بھی فروخت کرتے ہیں۔
نیشنل کالج آف آرٹس کی جانب سے داس کلچے پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی گئی تھی۔ ''داس کلچہ'' نامی اِس دستاویزی فلم نے بہترین ڈاکومینٹری کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=FkMBopaCwik
بعض لوگ کہتے ہیں یہ کلچہ امرتسر سے آئے ایک خاندان نے تقسیم سے پہلے شروع کیا تھا۔ کشور ناہید صاحبہ کے ایک کالم سے معلوم ہوا کہ امرتسر میں اب بھی داس کلچہ بہت مشہور ہے۔ بلکہ اس کو حاصل کرنا خاصا مشکل ہے، کیونکہ رش ہی اتنا ہوتا ہے۔ خیر تقسیم کے بعد وہ امرتسری خاندان تو شاید اپنے امرتسر کو ہی لوٹ گیا۔ یعنی سرحد پار چلا گیا۔ لیکن اس کلچے کا نسخہ تندور کے موجودہ مالک کے بزرگوں کو مل گیا اور سینہ بہ سینہ ان سے زاہد صاحب کو ملا۔
کلچہ بنانے کی ترکیب تقریباً ایک راز ہے۔ یہاں تک کہ کلچہ بننے والی جگہ پر کام کرنے والے ملازمین بھی کلچہ سازی کے تمام مراحل سے آگاہ نہیں۔ البتہ این سی اے کی دستاویزی فلم سے اس کلچے کی ترکیب کے متعلق کچھ معلومات ملتی ہے جو کہ اس طرح ہے... داس کلچے کو میدے، سوجی اور چند نامعلوم چیزوں کے ساتھ سونف کے پانی سے گوندھا جاتا ہے۔ پیڑے بنانے کے بعد ان پر دودھ کی لسی بھی لگائی جاتی ہے۔ کلچوں کا خمیر تیار کرنے کا طریقہ بڑا مختلف لگا۔
چنے کی دال اور سونف کے پانی کو مٹی کی مٹکی میں ڈال کر اوپر وزن ڈالا جاتا ہے جس کو کافی دیر کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر اس کو کھولنے پر اس میں سے جو سفید مادہ نکلتا ہے، وہ کلچوں کا خمیر ہوتا ہے۔
مجھے داس کلچہ کافی مشکل سے ملا، بلکہ ایسا لگتا تھا جیسے میرے اور اس کے ستارے کبھی نہیں ملیں گے۔ انارکلی سے اس کو تلاش کرنا شروع کیا، وہاں نہیں ملا تو لوہاری گئے۔ پھر کسی نے رنگ محل کا بتایا، وہاں سے معلوم ہوا کہ موچی دروازے جائیں۔ موچی دروازے میں لوگوں نے کہا خلیفہ بیکری جائیں۔ جب یہ بیکری دریافت کی تو انہوں نے کہا ہم نہیں فروخت کرتے مگر ہمارے قریب ہی ایک صاحب بیچتے ہیں۔ اگلے روز دوبارہ وہاں گئے تو کہا گیا آپ تاخیر سے پہنچے ہیں، یہ ١ بجے تک ہی ملتا ہے۔ پھر گئے تو داس کلچوں والے صاحب چھٹی پر تھے۔ مگر ہم پکے ڈھیٹوں کی طرح اگلے روز پھر وہاں پہنچ گے... اور اس دفعہ ہم نے داس کلچے پا لیے۔ ان کے چھابے کو دیکھا تو اس پر ایک پھولا ہوا چھوٹا سا کلچہ تھا جو نان و روٹی کی بجائے شوارما بریڈ کے خاندان سے لگ رہا تھا۔ ساتھ ہی چنے تھے جن کی صورت لاہوری چکڑ چھولوں جیسی تھی۔ اور پھر بیسن کی بوندی دیکھی، پوچھنے پر بتایا گیا ''جی یہ لونچڑے ہیں۔'' ان کے علاوہ مصالحے دار پیاز، اچار، چٹنیاں اور سلاد بھی نظر آیا۔
بیٹھنے کی جگہ دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک صاحب نے اپنے مخصوص لاہوری لہجے میں کہا ''لہوری ناشتہ کرن آیاں ایں تے لاہوریاں آر کھا۔'' اب سمجھ نہیں آیا کہ کھڑے ہوکر کھانے کا لاہور سے کیا تعلق ہے۔
داس کلچہ اور چنے دونوں ہی خشک ہوتے ہیں، جس کے وجہ سے پہلی بار ذائقہ ذرا مختلف لگتا ہے اور کھانے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ دیکھنے میں چھوٹا سا نظر آنے والا کلچہ حقیقتاً کافی بھاری ہوتا ہے؛ یعنی ثقیل۔ کچھ ہمارے اندر ملاوٹ اتنی ہو چکی ہے کہ اب خالص اشیاء ہضم ہی نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا ذائقہ منفرد ہے۔ کلچے بیچنے والے صاحب کا کہنا ہے کہ لوگ ان کے پاس داس کلچے کھانے کئی کئی سال سے آ رہے، بلکہ جب وہ کہیں باہر جائیں تو اس روایتی ناشتے کو بھی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کلچہ ایک جگہ بنتا ہے اور وہ اور ان کے تین بھائی اس جگہ کے علاوہ سائیکل پر داس کلچہ مختلف جگہوں پر فروخت کرتے ہیں۔ لیکن کافی تلاش کے باجود مجھے یہ کلچہ فقط چوہٹہ مفتی باقر میں ملا۔ مگر سنا ہے کہ پھیری والے رنگ محل، چوک دالگراں، ڈبی بازار، موتی بازار وغیرہ میں بھی اس کو بیچتے ہیں۔
اگر آپ لاہور کے اس ثقافتی اور منفرد ناشتے کو کھانے کا شوق رکھتے ہیں تو میں اپنے ذاتی تجربے کے بناء پر آپ کو مشورہ دوں گا کہ صبح سویرے جائیں اور موچی دروازہ پہنچ کر کسی سے خلیفہ بیکری کا رستہ پوچھ لیں، آپ بآسانی پہنچ جائیں گے۔ دوسرے شہروں سے آنے والے سیاح حضرات بھی سورج نکلنے کے بعد وہاں پہنچ کر اس طلسمی داس کلچے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، کیونکہ چند گھنٹوں بعد اس کا ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اندرون لاہور کے لوگ تو اب تک لاہور کی روایات سے جُڑے ہوئے ہیں، مگر اب بہت سے پرانے لوگ نئی آبادیوں کی جانب کُوچ کر رہے ہیں اور ہمارے نوجوان اپنی روایات سے ناواقف بھی ہیں اور لا تعلق بھی۔
تو گزارش ہے کہ مغربی، چائنیز اور دیگر ممالک کے کھانوں کو ضرور چکھیں، مگر اپنے روایتی کھانوں کو بھی کھائیں؛ یقین کریں! آپ کو مایوسی نہیں ہوگی...
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔