گواہوں کے بیانات میں تضاد پولیس اہلکار کے قتل نے نیا رخ اختیار کر لیا

عدالت میں قتل کےملزمان کی گرفتاری واعتراف جرم کی کہانی جھوٹی ثابت،بڑےافسران کی لڑائی میں ملوث کردیاگیاہے، تفتیشی افسر.


Muhammad Arshad Baig July 09, 2013
عدالت میں قتل کے ملزمان کی گرفتاری و اعتراف جرم کی کہانی جھوٹی ثابت،بڑے افسران کی لڑائی میں ملوث کردیا گیا ہے ، تفتیشی افسر. فوٹو: فائل

پولیس اہلکار نوید احمد کے قتل میں ملوث ہیڈکانسٹیبل بخش خان کو دوران تفتیش شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

میڈیکل تصدیق کے بعد ملوث افسران کے خلاف مقدمے کے حکم پر تفتیشی افسر نے مقدمے کا سامنا کرنے کے بجائے ملزم کو بے گناہ قرار دیدیا،عدالت کو جھوٹی کہانی سنائی گئی کہ 2 ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں جنھوں نے قتل کا اعتراف کیا ہے،تفصیلات کے مطابق 14جون کو سی ویو پر پولیس اہلکار نوید احمد کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا ،بوٹ بیسن پولیس نے 16جون کو قتل میں ملوث ہیڈ کانسٹیبل کو گرفتار کرکے آلہ قتل اورگولیوں کے خول برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا 17جون کو 6 روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا اس موقع پر ملزم نے انکشاف کیا کہ دوران تفتیش اس پر تشدد کیا گیا ہے۔

جس پر فاضل عدالت نے ایم ایل او رپورٹ طلب کی تھی، میڈیکل رپورٹ میں تشدد کی تصدیق ہوئی، تاہم پولیس افسر نے جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے ریمانڈ نہ دینے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی کی عدالت میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا اس موقع پر ملزم کے وکیل عطا عباسی نے عدالت کواصل حقائق بتائے اور ملزم پر کیے گئے تشدد کی میڈیکل رپورٹ فراہم کی، یکم جولائی کو فاضل جج نے پولیس کی درخواست مسترد کرکے ماتحت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا ملزم کے وکیل نے عدالت سے ملزم کی میڈیکل رپورٹ جمع کرانے سے متعلق درخواست دائر کی،فاضل عدالت نے وکیل کی درخواست منظور کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو طلب کیا لیکن تفتیشی افسر سب انسپکٹر عبدالغفار نے عدالت میں پیش نہ ہوئے جس پر عدالت نے ایس ایچ او اور تفتیشی افسر بوٹ بیسن کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔

تاہم تفتیشی افسر نے عدالت میں پیش ہوکر زبانی بتایا کہ ملزم بے گناہ ہے،وکیل کے مطابق تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ بڑے افسران کی لڑائی ہے پریشانی میں ہمیں مبتلا کردیا گیا ہے ،دریں اثنا مقدمے کے چشم دید گواہوں کے بیانات کی تبدیلی سے پولیس اہلکار نوید احمد کے قتل کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے،ایک چشم دید گواہ نے اپنے بیان میں گرفتار ملزم ہیڈ کانسٹیبل بخش خان کو بے گناہ قرار دینے کی کوشش کی جبکہ دوسرے چشم دید اہلکارکو قوی یقین ہے کہ گرفتار ملزم ہی قاتل ہے۔



19جون 2013 کو مقدمے کے تفتیشی افسر عبدالغفار نے 2 چشم دیدگواہ پولیس اہلکار قربان علی اور اشتیاق احمد کو ضابطہ فوجداری کی ایکٹ 164کے تحت بیان قلمبند کرانے کیلیے جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی غلام مرتضٰی کے روبرو پیش کیا تھا،اس موقع پر قربان علی نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا تھا کہ14جون کو ڈیوٹی ختم کرکے تھانے میں تھے کہ مقتول کا فون آیا اور اس نے کہا کہ باہر آؤ سمندر کے قریب کچھ مل جائے گا۔

ہم سمندر کے قریب گئے اسی دوران بخش خان واپس آیا اور بتایا کہ نوید کو کسی نے گولی مارکر قتل کردیا ہے 2 بندے بھاگتے ہوئے جارہے ہیں جب ہم جائے وقوع پر پہنچے تو وہاں کوئی نہیں تھا گواہ نے عدالت کو بتایا کہ دل نہیں مانتا کہ مقتول نوید کو بخش نے قتل کیا ہے،جبکہ دوسرے چشم دید گواہ پولیس اہلکار اشتیاق احمد نے عدالت کو بیان میں بتایا کہ 16جون کو ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد قربان اور نوید ہم تینوں سمندر کے قریب گپ شپ میں مصروف تھے،چند منٹ بعد پولیس اہلکار بخش بھی وہاں آگیا ہم وہاں کھڑے رہے جبکہ مقتول نوید اور بخش وہاں سے اندھیرے کی طرف چلے گئے تھے صرف تین منٹ بعد بخش نے آکر انھیں بتایا کہ نوید کو کسی نے گولی ماری ہے جائے وقوع کے قریب کوئی نظر نہیں آیا مجھے یقین ہے کہ میرے بھائی کو گولی ہیڈکانسٹیبل بخش نے ماری ہے جبکہ اس نے پولیس کو بھی یہی بیان دیا تھا لیکن قربان کا بیان تبدیل ہونے کے باعث ملزم کو فائدہ پہنچا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں