ملکی خزانے کا حساب
پاکستان ایک عجیب ملک ہے اس کے دوٹکڑے ہوتے ہیں تو دنیا خوش ہوتی ہے لیکن جو باقی بچا ہے
پاکستان کی تاریخ کئی ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کے بارے میں آج بھی ابہام پایا جاتا ہے اور ایسے ہی کئی فیصلے پاکستان کی قسمت پر اثر انداز بھی ہوتے رہے، یہ فیصلے کب اور کس طرح کے حالات میں صادر کیے گئے اور ان فیصلوں کا فائدہ کس کو ہوا یہ سب پاکستان کی تاریخ کا اہم حصہ ہے ان کی تفصیل میں جائے بغیر کہ اس طرح کے فیصلے کیوں کیے جاتے رہے ہمیں ان وجوہات اور اسباب کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ جب بااختیار لوگ اپنے اختیار کی وجہ سے بے لگام ہو گئے اورانھوں نے اپنے اختیار کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا جو کہ بالآخر ان کے اپنے خاتمے کا سبب بن گیا۔یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کا شکار پاکستانی سیاست اور سیاستدان رہے ہیں ہمارے سیاستدانوں نے عوام کی خدمت کے بجائے حاکمیت کو ترجیح دی اور یہی حاکمیت ان کو لے ڈوبی۔
ہمارے ہاں کرپشن او ر بدعنوانی کو جو عروج ملا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے پاکستان کے عظیم مقاصد کو بھلا دیا ہے ہم اپنے مقام سے اکھڑ گئے ہیں اور افراتفری کی اس فضا میں جس کا داؤ چلا ہے اس نے جی بھر کر لوٹا ہے۔ غضب خدا کا کہ ہمارے سب سے بڑے کرپٹ وزرائے اعظم ہیں جس ملک کے چیف ایگزیکٹو بدعنوان ہوں اس ملک کی حکومت کی دوسری مشینری سے کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ یہاں کے بڑے لوگوں نے ملک کو اپنا نہیں سمجھا اسے کرائے کا مکان سمجھا ہے وہ مالک نہیں کرایہ دار بن کر رہے ۔
ہمارے بڑے اگرچہ ملک کے استحکام بلکہ بقاء کی بھی کوشش نہیں کرتے اور دنیا بھی پاکستان کو صرف ایک مفید مہرہ سمجھتی ہے جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی اپنوں کے ساتھ غیر بھی ہمیں ہمیشہ استعمال کرنے کی ہی کوشش کرتے رہے لیکن وطن عزیز میں پاکستانیت سے سرشار عناصر کی لابی بھی بہت مضبوط ہو چکی ہے جو کہ نام نہاد سیکولر پاکستانیوں کے مقابلے میں بہت مضبوط اور اپنے مقصد میں پکی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جس قوم کو اصل محنت اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے کرنی چاہیے وہ اپنی قوتیں اسے صرف زندہ رکھنے میں صرف کرنے پر مجبور ہے مگر کچھ بھی ہو پاکستان کے اندر کی یہ سیاسی اور نظریاتی کشمکش اس ملک کے پاکستانی عوام جیت جائیں گے ۔ یہ اس قدر بیدار اور حساس ہیں کہ انھیں دھوکا نہیں دیا جا سکتا وہ اگر ملک کے باہر ملک کی خاطر جانیں قربان کر سکتے ہیں تو ملک کے اندر کیاکچھ نہیںکرسکتے۔
پاکستان ایک عجیب ملک ہے اس کے دوٹکڑے ہوتے ہیں تو دنیا خوش ہوتی ہے لیکن جو باقی بچا ہے اس کو قائم رکھنے پر پوری دنیا اصرار بھی کرتی ہے کیونکہ پاکستان اگر خاکم بدہن باقی نہیں رہتا تو برصغیر زیادہ نہیں تو 1947 تک ضرور پہنچ جائے گا اور پھر دنیا کے اس خطے میں کیا ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اس ملک کو نظریاتی قیادت نہ مل سکی ۔ قائد اعظم کے بعد چند برس تو ان لوگوں کی حکومت رہی جنہوں نے تحریک پاکستان کے مقاصد کو زندہ رکھا کیونکہ یہ ان کے مقاصد کے مدعی اور معمار تھے لیکن بہت جلد مغربی ممالک سے بے حد مرعوب لوگ اس ملک پر قابض ہو گئے انھوں نے تحریک پاکستان کو ایک فرسودہ اور رجعت پسندانہ نظریہ سمجھ کر اس ملک کو بے وقوف بنانے کی مہم شروع کر دی آج پاکستان تو موجود ہے مگر یہ کیوں بنا تھا یہ شعور موجود نہیں یا بہت کمزور ہے ۔ہمارے نوجوانوں کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کس ملک کے شہری ہیں، وہ تو غنیمت ہے کہ اس ملک میں ایسے لوگ موجود رہے جنہوں نے پاکستانیت کو زندہ رکھا ورنہ ہم تو اپنے مقصد زندگی سے ہی گئے تھے یہی وہ جذبہ اور جنونیت ہے جو پاکستان مخالفوں کو بہت کھلتی ہے اور ان مخالفوں کے پروردہ پاکستانی بھی اس کوشش میں رہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو بے خبر رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
ایک مرتبہ پھر پاکستانی سیاست ایک دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے ایک طرف اپوزیشن سیاستدان ہیں جو کہ یک طرفہ احتساب کے نعرے کے ساتھ اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش میں ہیں دوسری طرف حکومت ہے جو کہ احتساب کے نعرے کے ساتھ وجود میں آئی۔ وزیر اعظم عمران خان اس بات پر مصر ہیں کہ وہ قوم کی لوٹی گئی دولت واپس لائیں گے ان کے اس عزم کی تائید عدلیہ اور فوج بھی کر رہی ہے کیونکہ شاید اب وہ وقت آگیا ہے جب ملک کی مقتدر قوتیں یہ محسوس کر رہی ہیں کہ مزید خرابیاں ملک کی معاشی حالت کو اس نہج کی جانب لے جائیں گی جہاں سے واپسی ناممکن ہو گی اور اس صورت میں عالمی طاقتوں کا پاکستان کو معاشی طور پر ناکام ملک ثابت کرنے کا ایجنڈا کامیاب ہو جائے گا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں احتساب ہی واحد راستہ ہے جو کہ پاکستان کے مستقبل کی حفاظت کی ضمانت کہا جا سکتا ہے اس احتسابی عمل سے شاید وہ نتائج تو حاصل نہ ہو سکیں جن کی توقعات ہیں لیکن مستقبل کے لیے پیش بندی ضرور ہو جائے گی اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کے لیے احتسابی شکنجہ موجود ہو گا۔
ملک میں جاری احتسابی عمل کا پہلا بڑا شکار میاں نواز شریف ہیں جو کہ اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں ہیں جب کہ میاں شہباز شریف سے بھی تفتیشی عمل جاری ہے۔ ان دونوں بھائیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ انھوں نے قومی خزانے سے ایک پائی بھی خرد برد نہیں کی ۔ حکمران کی ذمے داریاں ملکی خزانے کی حفاظت کی بھی ہیںمیاں صاحبان گزشتہ کئی برس ملک کے حکمران رہے ہیں وہ شاید اس ملک کا حق حکمرانی ادا نہیں کر سکے اس لیے وہ خود تو ایک پائی کی کرپشن سے بھی قطعی طور پر انکاری ہیں لیکن ملکی خزانے کو جس بے دردی سے لوٹا گیا اس کا حساب کتاب کون دے گا؟
ہمارے ہاں کرپشن او ر بدعنوانی کو جو عروج ملا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے پاکستان کے عظیم مقاصد کو بھلا دیا ہے ہم اپنے مقام سے اکھڑ گئے ہیں اور افراتفری کی اس فضا میں جس کا داؤ چلا ہے اس نے جی بھر کر لوٹا ہے۔ غضب خدا کا کہ ہمارے سب سے بڑے کرپٹ وزرائے اعظم ہیں جس ملک کے چیف ایگزیکٹو بدعنوان ہوں اس ملک کی حکومت کی دوسری مشینری سے کیا توقع کی جا سکتی ہے ۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ یہاں کے بڑے لوگوں نے ملک کو اپنا نہیں سمجھا اسے کرائے کا مکان سمجھا ہے وہ مالک نہیں کرایہ دار بن کر رہے ۔
ہمارے بڑے اگرچہ ملک کے استحکام بلکہ بقاء کی بھی کوشش نہیں کرتے اور دنیا بھی پاکستان کو صرف ایک مفید مہرہ سمجھتی ہے جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی اپنوں کے ساتھ غیر بھی ہمیں ہمیشہ استعمال کرنے کی ہی کوشش کرتے رہے لیکن وطن عزیز میں پاکستانیت سے سرشار عناصر کی لابی بھی بہت مضبوط ہو چکی ہے جو کہ نام نہاد سیکولر پاکستانیوں کے مقابلے میں بہت مضبوط اور اپنے مقصد میں پکی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جس قوم کو اصل محنت اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے کرنی چاہیے وہ اپنی قوتیں اسے صرف زندہ رکھنے میں صرف کرنے پر مجبور ہے مگر کچھ بھی ہو پاکستان کے اندر کی یہ سیاسی اور نظریاتی کشمکش اس ملک کے پاکستانی عوام جیت جائیں گے ۔ یہ اس قدر بیدار اور حساس ہیں کہ انھیں دھوکا نہیں دیا جا سکتا وہ اگر ملک کے باہر ملک کی خاطر جانیں قربان کر سکتے ہیں تو ملک کے اندر کیاکچھ نہیںکرسکتے۔
پاکستان ایک عجیب ملک ہے اس کے دوٹکڑے ہوتے ہیں تو دنیا خوش ہوتی ہے لیکن جو باقی بچا ہے اس کو قائم رکھنے پر پوری دنیا اصرار بھی کرتی ہے کیونکہ پاکستان اگر خاکم بدہن باقی نہیں رہتا تو برصغیر زیادہ نہیں تو 1947 تک ضرور پہنچ جائے گا اور پھر دنیا کے اس خطے میں کیا ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اس ملک کو نظریاتی قیادت نہ مل سکی ۔ قائد اعظم کے بعد چند برس تو ان لوگوں کی حکومت رہی جنہوں نے تحریک پاکستان کے مقاصد کو زندہ رکھا کیونکہ یہ ان کے مقاصد کے مدعی اور معمار تھے لیکن بہت جلد مغربی ممالک سے بے حد مرعوب لوگ اس ملک پر قابض ہو گئے انھوں نے تحریک پاکستان کو ایک فرسودہ اور رجعت پسندانہ نظریہ سمجھ کر اس ملک کو بے وقوف بنانے کی مہم شروع کر دی آج پاکستان تو موجود ہے مگر یہ کیوں بنا تھا یہ شعور موجود نہیں یا بہت کمزور ہے ۔ہمارے نوجوانوں کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کس ملک کے شہری ہیں، وہ تو غنیمت ہے کہ اس ملک میں ایسے لوگ موجود رہے جنہوں نے پاکستانیت کو زندہ رکھا ورنہ ہم تو اپنے مقصد زندگی سے ہی گئے تھے یہی وہ جذبہ اور جنونیت ہے جو پاکستان مخالفوں کو بہت کھلتی ہے اور ان مخالفوں کے پروردہ پاکستانی بھی اس کوشش میں رہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو بے خبر رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
ایک مرتبہ پھر پاکستانی سیاست ایک دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے ایک طرف اپوزیشن سیاستدان ہیں جو کہ یک طرفہ احتساب کے نعرے کے ساتھ اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش میں ہیں دوسری طرف حکومت ہے جو کہ احتساب کے نعرے کے ساتھ وجود میں آئی۔ وزیر اعظم عمران خان اس بات پر مصر ہیں کہ وہ قوم کی لوٹی گئی دولت واپس لائیں گے ان کے اس عزم کی تائید عدلیہ اور فوج بھی کر رہی ہے کیونکہ شاید اب وہ وقت آگیا ہے جب ملک کی مقتدر قوتیں یہ محسوس کر رہی ہیں کہ مزید خرابیاں ملک کی معاشی حالت کو اس نہج کی جانب لے جائیں گی جہاں سے واپسی ناممکن ہو گی اور اس صورت میں عالمی طاقتوں کا پاکستان کو معاشی طور پر ناکام ملک ثابت کرنے کا ایجنڈا کامیاب ہو جائے گا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں احتساب ہی واحد راستہ ہے جو کہ پاکستان کے مستقبل کی حفاظت کی ضمانت کہا جا سکتا ہے اس احتسابی عمل سے شاید وہ نتائج تو حاصل نہ ہو سکیں جن کی توقعات ہیں لیکن مستقبل کے لیے پیش بندی ضرور ہو جائے گی اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کے لیے احتسابی شکنجہ موجود ہو گا۔
ملک میں جاری احتسابی عمل کا پہلا بڑا شکار میاں نواز شریف ہیں جو کہ اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں ہیں جب کہ میاں شہباز شریف سے بھی تفتیشی عمل جاری ہے۔ ان دونوں بھائیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ انھوں نے قومی خزانے سے ایک پائی بھی خرد برد نہیں کی ۔ حکمران کی ذمے داریاں ملکی خزانے کی حفاظت کی بھی ہیںمیاں صاحبان گزشتہ کئی برس ملک کے حکمران رہے ہیں وہ شاید اس ملک کا حق حکمرانی ادا نہیں کر سکے اس لیے وہ خود تو ایک پائی کی کرپشن سے بھی قطعی طور پر انکاری ہیں لیکن ملکی خزانے کو جس بے دردی سے لوٹا گیا اس کا حساب کتاب کون دے گا؟