مہران ٹاؤن اوورسیز پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی توجہ کے منتظر

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مہران ٹائون لینڈ مافیا کے ایک گروپ کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے گروپ کے ہاتھوں میں یرغمال ہے


یاسمین طٰہٰ December 28, 2018
ماضی کی حکومتوں کی مہران ٹاؤن کے حوالے سے چشم پوشی کے بعد الاٹیز کی نظریں عمران خان کی نئی حکومت پر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

لاہور: کراچی میں قبضہ مافیا کی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گھر بنانے کی تمنا لیے لوگ اپنی محنت کی کمائی سے پلاٹوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، اور بعد میں قبضہ مافیا کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس حوالے سے سب سے زیادہ اذیت کا شکار ہیں کیونکہ وطن سے دور ہونے کے باعث اپنی سرمایہ کاری پر نظر رکھنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا ۔ وہ وطن سے دور حکومت کو اپنی سرمایہ کاری پر قبضے کی شکایت کرتے ہیں، لیکن ان کے پلاٹوں کی بازیابی کےلیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔

حال ہی میں سرکاری زمینوں کی بازیابی، غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف ایک آپریشن کا آغاز کیا گیا جو کامیابی سے جاری ہے۔ لیکن 18 ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ فراہم کرنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سرمایہ کاری پر کیے گئے قبضہ کے خلاف کچھ نہیں کیا جارہا ہے، جس کی مثال مہران ٹاؤن کورنگی، اور پاک آئیڈیل کوآپریٹیو سوسائٹی شامل ہے؛ جہاں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے پلاٹوں کی شکل میں سرمایہ کاری کی ہے۔

پاک آئیڈیل کوآپریٹیو سوسائٹی کے 1000 پلاٹوں میں سے 25 فی صد پر مبینہ طور پر ایک بلڈر کا قبضہ ہے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے کورٹ میں مقدمہ بھی درج ہے، جبکہ مہران ٹاؤن کورنگی کے 7000 ہزار پلاٹوں میں سے تقریباً نصف پر مبینہ طور پر مختلف سیاسی جماعتوں کا قبضہ ہے۔
مہران ٹاؤن ذوالفقار علی بھٹو نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ذاتی گھر کی خواہش کو مد نظر رکھ کر شروع کی۔ واضع رہے کہ 1975 میں اس رہائشی اسکیم میں زرمبادلہ میں ادائیگی کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ذاتی گھر بنانے کی خواہش میں پلاٹ خریدے، لیکن تین چار برس گزر جانے کے باوجود یہاں کوئی ترقیاتی کام نہ ہو سکا۔ لیکن سوئی سدرن گیس اور KESC نے قبضہ مافیا کو گیس اور بجلی کے کنکشن دیے۔ اس طرح قبضہ مافیا کی پوزیشن مضبوط ہوگئی۔

اس اسکیم کے اطراف کا علاقہ کورنگی انڈسٹریل اسٹیٹ کے نام سے ایک معروف صنعتی علاقہ بن چکا ہے۔ جس وقت اس اسکیم کا آغاز کیا گیا، اس وقت کی حکومت نے اسکیم پر پہنچنے کےلیے شہید ملت روڈ کی طرف سے ایک پل بنانے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس پل کے ستون بھی کھڑے کردیے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں۔ اس اسکیم میں اپنے خون پسینے کی کمائی لگانے والوں نے بار بار مختلف محکموں کے دروازے کھٹکھٹائے، لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔ کئی برس گذر گئے، حکومتیں آتی جاتی رہیں، لیکن مہران ٹائون کا مستقبل اب بھی دگرگوں ہے؛ اور لینڈ مافیا اس اسکیم پر مکمل حاوی نظر آتی ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی جب چھٹیوں پر وطن آتے ہیں تو اپنے پلاٹ کی خیریت معلوم کرنے یہاں کا چکر لگاتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پلاٹ پر قبضہ ہوچکا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ چونکہ صنعتی علاقوں کے درمیان گھر بنانا ممکن نہیں، اس لیے علاقے کو کاٹیج انڈسٹریز میں تبدیل کردیا جائے اور یہاں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا جائے تو اس سے نہ صرف سٹی گورنمنٹ کو آمدنی ہوگی، بلکہ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ لیکن یہ اس صورت میں ہی ممکن ہے جب رینجرز اس علاقے میں ایک آپریشن کرکے قبضہ مافیا کا صفایا کرے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مہران ٹائون لینڈ مافیا کے ایک گروپ کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے گروپ کے ہاتھوں میں یرغمال ہے۔ الاٹیز کا کہنا ہے کہ مہران ٹائون کے اطراف میں مبینہ طور پر ایک سیاسی جماعت نے پلاٹوں کو کاٹ کر اپنے لوگوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ اور قبضہ مافیا کھلے عام اسلحہ کے زور پر مالکان کو دھمکا رہے ہیں. اور اس صورت حال میں پولیس کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا، وہ محض خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

ماضی کی حکومتوں کی مہران ٹاؤن کے حوالے سے چشم پوشی کے بعد الاٹیز کی نظریں عمران خان کی نئی حکومت پر ہیں جن کی ترجیحات میں بیرون ملک مقیم پاکستانی سر فہرست ہیں۔ محکمہ پولیس میں سیاسی عمل دخل کے بعد پولیس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ قبضہ مافیا کے خلاف کوئی کارروائی کریگی، دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے ۔ اسی وجہ سے اس وقت الاٹیز کی نظریں رینجرز پر ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت مہران ٹائون پر آپریشن کرکے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ان کے پلاٹوں کے حقوق دلائے۔ دوسری صورت میں حکومت بالخصوص وزیراعظم عمران خان کی لاکھ منتیں کرنے کے باوجود یہ لوگ کبھی بھی اس ملک میں سرمایہ کاری نہیں کرینگے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں