ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ میں ذمہ داروں کاتعین کردیا اب عمل کرنا حکومت کا کام ہےجاوید اقبال

آرمی چیف اوراس وقت کے وزیراعظم نےخود پیش ہونے کے بجائے اپنے متعلقہ اداروں کے ذریعے موقف پیش کیا،جسٹس (ر) جاوید اقبال

ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ 2 جنوری کو اس وقت کے وزیراعظم راجا پرویزاشرف کو پیش کردی گئی تھی، جاوید اقبال۔ فوٹو: فائل

ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاویداقبال کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی رپورٹ میں کسی فرد یا ادارے کوبری الذمہ قرار دینے کے بجائے ذمہ داروں کاتعین کیا ہے اور اب سفارشات پر عمل کرنا حکومت کا کام ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ ایبٹ آباد کمیشن نے اپنی ذمہ داری قومی فریضہ سمجھ کر پوری دیانت داری سے نبھائی ہے، کمیشن نے مختلف شخصیات سے پوچھ گچھ کے علاوہ 6 ہزار عربی دستاویزات اور ایک ڈائری کا بھی انتہائی گہرائی سے ساتھ جائزہ لیا، رپورٹ میں کسی بھی فرد یا ادارے کو بری الذمہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے، اس کے علاوہ غیر ملکی سفیروں اور ایجنسیوں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔


ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کمیشن کو اپنی ذمہ داری نبھانے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس کے باوجود اس نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز نہیں کیا، کمیشن میں شامل تمام افراد نے اپنے مطابق رپورٹس تحریر کیں تاہم مختلف انداز کے باوجود ارکان کے درمیان اختلاف نہیں، کمیشن کی رپورٹ میں 100 سے زائد سفارشات اور تجاویز پیش کی گئیں ہیں جو رواں برس 2 جنوری کو اس وقت کے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کو پیش کردی گئی تھی تاہم اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے اور اس میں تجویز کردہ سفارشات پر عمل کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ایبٹ آباد میں ہونے والے امریکی آپریشن سے متعلق حقائق جاننے اور ذمہ داروں کے تعین کے لئے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کئے گئے کمیشن کا دائرہ کار اتنا وسیع نہیں تھا جتنا عام طور پر سمجھا جارہا ہے، صدر مملکت ، اس وقت کے وزیر اعظم اور آرمی چیف نے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان جمع کرانے سے انکار کیا، آرمی چیف اور وزیراعظم نے اپنے متعلقہ اداروں کے ذریعے مؤقف پیش کیا جسے رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story