موت و حیات کی کشمکش ہر دور میں
آئیے چند جملوں میں حیات اور موت کا جائزہ لیں۔ یہ جائزہ بس دنیاوی اعتبار سے ایک تجربہ ہے
آج سے نصف صدی قبل نرائن چکبست کا یہ شعر اردو داں طبقے میں زبانِ زد عام تھا آئیے پہلے اس شعر کو پڑھیے اور پھر اس شعر کے مضمرات پر نظر ڈالیں گے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترکیب
موت کیا ہے انھی اجزا کا پریشاں ہونا
موت و حیات پر صدیوں سے بحث جاری ہے مگر انسان کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا کیونکہ کوئی اس دیار سے واپس نہ آیا جو اس دیار کی داستاں سنا سکے البتہ جو موت کے قریب آیا مگر موت کا ہدف نہ بنا وہ اس کے قریب جاکر اس کی بھیانک تصویر کی کسی حد تک تصویر کشی کرسکتا ہو اور موت کتنی بار قریب سے گزری پھر طویل عرصے کا وقفہ آیا اور والد مرحوم نے تشخیص کے بعد کتنے عرصے موت کے حملے برداشت کیے اور علاج کے بعد وہ بالکل تندرست ہوگئے مگر اچانک موت نے انکو کیونکر اچانک دبوچ لیا۔
ایسا کیونکر ہوا ایک جائزہ بھی ضروری ہے تاکہ بعض اوقات حیات، موت پر غالب آسکتی ہے مگر موت تو ہر وقت حیات کے تعاقب میں ہے کبھی بیماری، تو کبھی حادثات پیدائش کے اول روز سے اختتام زیست تک مگر طویل عمر پانا بغیر کسی حادثے یا پریشانی کے بغیر بھی بڑی نعمت ہے مگر انسانی زندگی میں طوالت میں خود انسان کا بھی تھوڑا بہت دخل ہے مگر ہر موقع پر مہلت نہیں ملتی مگر اچانک ہارٹ فیل یا حادثے کو نہیں ٹالا جاسکتا بہرحال اپنے ہی گھر کے دو واقعات رقم کر رہا ہوں تاکہ قاری خود آنیوالے وقت کا ذہن میں ایک خاکہ تیار کرلے کہ اس کے روزمرہ کیا ہیں اور کن حالات میں اس کے روز و شب گزر رہے ہیں مگر ہر آدمی کی قوت مدافعت بالکل اسی طرح الگ ہے جیسے کہ اس کی انگلیوں کے نشانات بہرصورت کسی حد تک انسان اپنے دفاع کی صلاحیت کا مالک ضرور ہے۔
لہٰذا میں اپنے وجود کی +70/69 کی تاریخ سناتا چلوں ممکن یہ سچا تذکرہ کسی کے کام آسکے۔ زمانہ طالب علمی میں 24,23 سال تک میری جان کی قیمت نہ تھی گویا ہمہ وقت انقلاب کی دہلیز پر کھڑے ہیں ویسے بھی ان دنوں واقعی پاکستان بھی انقلابی دور سے گزر رہا تھا 1968 سے لے کر 1974 تک واقعی پاکستان سرخ انقلاب کے قرب و جوار سے گزر رہا تھا اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو کا کاررواں بھی اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا رہا تھا۔ اس دور میں افغانی کلاشنکوف کلچر پاکستان میں داخل نہ ہوا تھا یہ کلچر امریکی زر کی بدولت افغان سوشلسٹ انقلاب کو نابود کرکے پاکستان میں براستہ کابل اور قندھار داخل ہوا جسکی دھمک آج بھی ہم گاہے بہ گاہے سن رہے ہیں۔
سیاسی اور مذہبی عدم برداشت، عدم رواداری ہمارے کلچر میں داخل ہوچکی ہے اسکو قابو کرنے کے لیے ادب اور ثقافت کے ذریعے ہی ممکن ہے1960 اور 68 کے درمیان صرف کراچی اور حیدرآباد سندھ میں ہزاروں لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جہاں اردو کی ناولیں، ادبی رسالے، کتابیں اور کہانی کی کتابیں ملا کرتی تھیں اس کے علاوہ ادبی تنظیمیں ہوا کرتی تھیں جو انسانی حرمت کی ضامن تھیں جس پر تہذیب و ثقافت کی چھاپ تھی جس پر افغان جنگ کی یلغار نگل گئی ورنہ چھری چل جانا بھی بہت بڑی بات ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ حکومت بھی عوامی یلغار، سخت ترین جلسے اور جلوسوں پر بھی گولیاں برسانے سے اجتناب کرتی تھیں۔ لہٰذا یہاں میں مرحومہ پروفیسر انیتہ غلام علی کے کہنے پر 1969 میں ایم سی سی (MCC) اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ کو خراب کیا بند کرا کے دم لیا اس وقت ایلن ناٹ 99 رن پر بیٹنگ کر رہے تھے اسٹیڈیم کے باہر رینجر کا پہرہ تھا لیکن جلوس بڑا تھا اور مجھے جان کی پرواہ نہ تھی۔ ان دنوں میری عمر 22 برس کے لگ بھگ تھی۔
یہ جلوس سرسید گرلز کالج کے باہر سے براستہ لیاری ندی آیا تھا جسکی پروفیسر صاحبہ ہمیشہ معترف رہیں کیونکہ اس میں جان بھی جاسکتی تھی یہ ایک نادانی تھی۔ اس واقعے کو گزشتہ برس شایع ہونے والی کتاب سورج پہ کمند میں بھی نقل کیا گیا ہے جو طلبا تحریک کے موضوع پر ہے کیونکہ اس واقعے میں جان سے گزرنے کے کافی مواقع تھے سو اتفاق تھا کہ گولی چلائی جاسکتی تھی لہٰذا اس طریقہ کار کو موت سے کھیلنا ہی کہا جاسکتا ہے جو عقلی طور پر درست نہ تھا اور اگر موت آتی تو یہ خود کی لائی ہوئی کہلاتی لہٰذا گولی نہ چلی تو جان بچی تو یہ اتفاق حیات کی جیت تھی مگر اب جو واقع پیش کر رہا ہوں وہ حیات کی فتح ضرور ہے مگر حقیقتاً عقل یہاں حیات کی بقا کی ضامن رہی ہے تو یہ واقعہ بھی سن لیں جناب، یہ واقعہ دسمبر 1976 کا ہے رات کے 9:30 بجے تھے میزان مارکیٹ کوئٹہ پر میں فورٹ سنڈے من جو اب ژوب کے نام سے مشہور ہے دو روز کے بعد کوئٹہ واپس آیا یہ عجیب اتفاق ہے تعلیم کے خاتمے کے بعد گلیکسو لیبارٹریز (Glaxo Labs) میں ملازمت ملی اور پوسٹنگ کوئٹہ ہوئی۔
جہاں یونیورسٹی ٹاؤن کوئٹہ میں والد صاحب کے گھر رہائش پذیر تھا مگر گھر کے تمام لوگ کراچی واپس چلے گئے تھے میں اکیلا رہائش پذیر تھا۔ جب میزان مارکیٹ اترا تو یونیورسٹی جانے کے لیے کوئی رکشہ نہ ملا آخر کار مستونگ شہر جانیوالی بس میں سوار ہوا جو آدھے میل دور میں روڈ پر اتار دیتی تھی مقابل میں میدان اور دور تک دھند چھائی تھی برف باری چند گھنٹے قبل ختم ہوئی تھی کمر پر 13کلو وزنی بیگ جس میں سفری سامان اور تقریباً ایک فٹ سے زیادہ لمبی سفری ٹارچ تھی اللہ اللہ کرکے سخت سردی اور تیز و تند ہواؤں کے تھیپڑے میں اترا ابھی یونیورسٹی ٹاؤن کی طرف بمشکل 200 قدم چلا تھا کہ 12 سفید رنگ کے الشیشن کتوں نما نے گھیر لیا۔
میں نے فوراً بیگ سے ٹارچ نکالی تیز سفید اور سرخ روشنی فضا میں پھیل گئی لیکن یہ میرا استقبال کرنیوالے یہ کتے نہ تھے بلکہ یہ سفید لمبے بالوں والے بھیڑیے تھے جو کبھی بھلائے نہ جائینگے۔ تقریباً 5 منٹ تک یہ ٹارچ دائیں ہاتھ میں پکڑے دائرے کی شکل میں گھماتا رہا، نہ رخ بدلا اور نہ خوف کا مظاہرہ کیا پھر جاکر ان کے گینگ لیڈر جو نسبتاً قد بدن میں نمایاں تھا اس نے گردن ہلاکر دوسروں کو اشارہ کیا اور بائیں جانب گردن گھمائی میں سمجھ گیا یہ محاصرہ ختم کرنے کا اشارہ ہے فوراً ہی نصف دائرہ خط مستقیم میں بدل گیا مگر میری ٹارچ جلتی رہی یہاں تک کہ گھر آگیا۔ کچھ دیر تک اپنے گزرتے وقت کا جائزہ لیا مگر اب کوئٹہ کا یہ علاقہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی بڑی آبادی بن چکا ہے یہ کوہ مردار کے قرب آباد ہو چکا ہے اور جنگلی چرت نے اپنا دامن سمیٹ لیا ہے پھر زندگی نے ایک اور کروٹ لی والد محترم پروفیسر مجتبیٰ حسین 1988 کے آخری ایام میں بائی پاس کے لیے لندن چلے گئے اور صحت یاب ہوکر واپس آگئے دل کے عارضے سے نجات ملی مگر موت ان کی تلاش میں تھی کہ کوئی غلطی کریں تو ان کو دبوچ لے ابھی ان کی واپسی کو چند ماہ ہی ہوئے تھے۔
1988کے ایام تھے کہ انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں اردو ادب کی کلاسیں لینا شروع کیں۔ کہاں یوپی الٰہ آباد، جونپور اور لکھنو سے انھوں نے شعر و ادب کا سہانا ادبی باغ لگایا، ایک دن لاہور میں ادبی میلہ بینظیر نے سجایا یہ مارچ کی 29 تاریخ تھی 1988 کی بات ہے محترمہ کا دعوت نامہ موصول ہوا وہ اس محفل ادب کے میر کاررواں تھے۔ آپکے شاگردوں کی موج ظفر موج کراچی تا کوئٹہ موجود ہے مگر یکم اپریل کو لاہور ایئرپورٹ پر منی بس نے ان کی کار کو ٹکر رسید کی اور وہ منٹ بھر میں انھیں موت نے اپنی گود میں لے لیا۔ انھوں نے لاہور کی ادبی محفل تو لوٹ لی مگر گھر کو ویران کر گئے جس گاڑی میں وہ سوار تھے وہ ڈاکٹر طارق عزیز چلا رہے تھے ڈاکٹر صاحب خود معروف ادیب تھے مگر وہ دوسروں کی سواری کے بجائے ان کی گاڑی میں مروتاً سوار ہوئے اور کسی کو خراش تک نہ آئی مگر جس کونے میں وہ بیٹھے تھے فرنٹ رائٹ کو بس نے ہٹ کیا اور دل کے ٹانکے ٹوٹ گئے آخر میں ان کا یہ شعر لکھتا چلوں:
یہ میرا دل ہے محبت کی بارگاہ ہے یہ
یہ آئینہ نہیں جس پہ غبار ٹھہرے گا
آئیے چند جملوں میں حیات اور موت کا جائزہ لیں۔ یہ جائزہ بس دنیاوی اعتبار سے ایک تجربہ ہے اس کو حتمی فیصلہ نہ سمجھیے والد صاحب اگر یہ سفر نہ کرتے تو چند برس تو کیا 15 برس اور زندگی کا سفر طے کرتے واللہ عالم باالصواب۔ اگر وہ اس گاڑی میں نہ بیٹھتے تو پھر کیا ہوتا یہ بالکل ایسا ہی موازنہ ہے کہ اگر میرے بیگ میں ٹارچ نہ ہوتی۔ پس میرے خیال میں حیات اتفاق کا دوسرا نام ہے۔ میرؔ نے اس کو یہ بھی کہا ہے کہ:
لے سانس بھی آہستہ
جب بھی چل ہر چیز سے لیس ہوکے چل
مگر موت کا ذائقہ یقینی ہے جلد یا دیر
مگر حیات کو بچاتے رہو ضرور
دوسروں کو بچاؤ گے تو بچتے رہوگے ضرور یہی ہم نے سیکھا اور پڑھا ہے۔ جب سے افغان جنگ کا کلچر سرزمین پاک میں داخل ہوا ہے حیات کی رگیں کمزور پڑ گئی ہیں یہاں تک کہ فوج کو بھی جنگ کا سہارا لینا پڑا تاکہ امن فروغ پاسکے۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترکیب
موت کیا ہے انھی اجزا کا پریشاں ہونا
موت و حیات پر صدیوں سے بحث جاری ہے مگر انسان کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا کیونکہ کوئی اس دیار سے واپس نہ آیا جو اس دیار کی داستاں سنا سکے البتہ جو موت کے قریب آیا مگر موت کا ہدف نہ بنا وہ اس کے قریب جاکر اس کی بھیانک تصویر کی کسی حد تک تصویر کشی کرسکتا ہو اور موت کتنی بار قریب سے گزری پھر طویل عرصے کا وقفہ آیا اور والد مرحوم نے تشخیص کے بعد کتنے عرصے موت کے حملے برداشت کیے اور علاج کے بعد وہ بالکل تندرست ہوگئے مگر اچانک موت نے انکو کیونکر اچانک دبوچ لیا۔
ایسا کیونکر ہوا ایک جائزہ بھی ضروری ہے تاکہ بعض اوقات حیات، موت پر غالب آسکتی ہے مگر موت تو ہر وقت حیات کے تعاقب میں ہے کبھی بیماری، تو کبھی حادثات پیدائش کے اول روز سے اختتام زیست تک مگر طویل عمر پانا بغیر کسی حادثے یا پریشانی کے بغیر بھی بڑی نعمت ہے مگر انسانی زندگی میں طوالت میں خود انسان کا بھی تھوڑا بہت دخل ہے مگر ہر موقع پر مہلت نہیں ملتی مگر اچانک ہارٹ فیل یا حادثے کو نہیں ٹالا جاسکتا بہرحال اپنے ہی گھر کے دو واقعات رقم کر رہا ہوں تاکہ قاری خود آنیوالے وقت کا ذہن میں ایک خاکہ تیار کرلے کہ اس کے روزمرہ کیا ہیں اور کن حالات میں اس کے روز و شب گزر رہے ہیں مگر ہر آدمی کی قوت مدافعت بالکل اسی طرح الگ ہے جیسے کہ اس کی انگلیوں کے نشانات بہرصورت کسی حد تک انسان اپنے دفاع کی صلاحیت کا مالک ضرور ہے۔
لہٰذا میں اپنے وجود کی +70/69 کی تاریخ سناتا چلوں ممکن یہ سچا تذکرہ کسی کے کام آسکے۔ زمانہ طالب علمی میں 24,23 سال تک میری جان کی قیمت نہ تھی گویا ہمہ وقت انقلاب کی دہلیز پر کھڑے ہیں ویسے بھی ان دنوں واقعی پاکستان بھی انقلابی دور سے گزر رہا تھا 1968 سے لے کر 1974 تک واقعی پاکستان سرخ انقلاب کے قرب و جوار سے گزر رہا تھا اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو کا کاررواں بھی اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا رہا تھا۔ اس دور میں افغانی کلاشنکوف کلچر پاکستان میں داخل نہ ہوا تھا یہ کلچر امریکی زر کی بدولت افغان سوشلسٹ انقلاب کو نابود کرکے پاکستان میں براستہ کابل اور قندھار داخل ہوا جسکی دھمک آج بھی ہم گاہے بہ گاہے سن رہے ہیں۔
سیاسی اور مذہبی عدم برداشت، عدم رواداری ہمارے کلچر میں داخل ہوچکی ہے اسکو قابو کرنے کے لیے ادب اور ثقافت کے ذریعے ہی ممکن ہے1960 اور 68 کے درمیان صرف کراچی اور حیدرآباد سندھ میں ہزاروں لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جہاں اردو کی ناولیں، ادبی رسالے، کتابیں اور کہانی کی کتابیں ملا کرتی تھیں اس کے علاوہ ادبی تنظیمیں ہوا کرتی تھیں جو انسانی حرمت کی ضامن تھیں جس پر تہذیب و ثقافت کی چھاپ تھی جس پر افغان جنگ کی یلغار نگل گئی ورنہ چھری چل جانا بھی بہت بڑی بات ہوا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ حکومت بھی عوامی یلغار، سخت ترین جلسے اور جلوسوں پر بھی گولیاں برسانے سے اجتناب کرتی تھیں۔ لہٰذا یہاں میں مرحومہ پروفیسر انیتہ غلام علی کے کہنے پر 1969 میں ایم سی سی (MCC) اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ کو خراب کیا بند کرا کے دم لیا اس وقت ایلن ناٹ 99 رن پر بیٹنگ کر رہے تھے اسٹیڈیم کے باہر رینجر کا پہرہ تھا لیکن جلوس بڑا تھا اور مجھے جان کی پرواہ نہ تھی۔ ان دنوں میری عمر 22 برس کے لگ بھگ تھی۔
یہ جلوس سرسید گرلز کالج کے باہر سے براستہ لیاری ندی آیا تھا جسکی پروفیسر صاحبہ ہمیشہ معترف رہیں کیونکہ اس میں جان بھی جاسکتی تھی یہ ایک نادانی تھی۔ اس واقعے کو گزشتہ برس شایع ہونے والی کتاب سورج پہ کمند میں بھی نقل کیا گیا ہے جو طلبا تحریک کے موضوع پر ہے کیونکہ اس واقعے میں جان سے گزرنے کے کافی مواقع تھے سو اتفاق تھا کہ گولی چلائی جاسکتی تھی لہٰذا اس طریقہ کار کو موت سے کھیلنا ہی کہا جاسکتا ہے جو عقلی طور پر درست نہ تھا اور اگر موت آتی تو یہ خود کی لائی ہوئی کہلاتی لہٰذا گولی نہ چلی تو جان بچی تو یہ اتفاق حیات کی جیت تھی مگر اب جو واقع پیش کر رہا ہوں وہ حیات کی فتح ضرور ہے مگر حقیقتاً عقل یہاں حیات کی بقا کی ضامن رہی ہے تو یہ واقعہ بھی سن لیں جناب، یہ واقعہ دسمبر 1976 کا ہے رات کے 9:30 بجے تھے میزان مارکیٹ کوئٹہ پر میں فورٹ سنڈے من جو اب ژوب کے نام سے مشہور ہے دو روز کے بعد کوئٹہ واپس آیا یہ عجیب اتفاق ہے تعلیم کے خاتمے کے بعد گلیکسو لیبارٹریز (Glaxo Labs) میں ملازمت ملی اور پوسٹنگ کوئٹہ ہوئی۔
جہاں یونیورسٹی ٹاؤن کوئٹہ میں والد صاحب کے گھر رہائش پذیر تھا مگر گھر کے تمام لوگ کراچی واپس چلے گئے تھے میں اکیلا رہائش پذیر تھا۔ جب میزان مارکیٹ اترا تو یونیورسٹی جانے کے لیے کوئی رکشہ نہ ملا آخر کار مستونگ شہر جانیوالی بس میں سوار ہوا جو آدھے میل دور میں روڈ پر اتار دیتی تھی مقابل میں میدان اور دور تک دھند چھائی تھی برف باری چند گھنٹے قبل ختم ہوئی تھی کمر پر 13کلو وزنی بیگ جس میں سفری سامان اور تقریباً ایک فٹ سے زیادہ لمبی سفری ٹارچ تھی اللہ اللہ کرکے سخت سردی اور تیز و تند ہواؤں کے تھیپڑے میں اترا ابھی یونیورسٹی ٹاؤن کی طرف بمشکل 200 قدم چلا تھا کہ 12 سفید رنگ کے الشیشن کتوں نما نے گھیر لیا۔
میں نے فوراً بیگ سے ٹارچ نکالی تیز سفید اور سرخ روشنی فضا میں پھیل گئی لیکن یہ میرا استقبال کرنیوالے یہ کتے نہ تھے بلکہ یہ سفید لمبے بالوں والے بھیڑیے تھے جو کبھی بھلائے نہ جائینگے۔ تقریباً 5 منٹ تک یہ ٹارچ دائیں ہاتھ میں پکڑے دائرے کی شکل میں گھماتا رہا، نہ رخ بدلا اور نہ خوف کا مظاہرہ کیا پھر جاکر ان کے گینگ لیڈر جو نسبتاً قد بدن میں نمایاں تھا اس نے گردن ہلاکر دوسروں کو اشارہ کیا اور بائیں جانب گردن گھمائی میں سمجھ گیا یہ محاصرہ ختم کرنے کا اشارہ ہے فوراً ہی نصف دائرہ خط مستقیم میں بدل گیا مگر میری ٹارچ جلتی رہی یہاں تک کہ گھر آگیا۔ کچھ دیر تک اپنے گزرتے وقت کا جائزہ لیا مگر اب کوئٹہ کا یہ علاقہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی بڑی آبادی بن چکا ہے یہ کوہ مردار کے قرب آباد ہو چکا ہے اور جنگلی چرت نے اپنا دامن سمیٹ لیا ہے پھر زندگی نے ایک اور کروٹ لی والد محترم پروفیسر مجتبیٰ حسین 1988 کے آخری ایام میں بائی پاس کے لیے لندن چلے گئے اور صحت یاب ہوکر واپس آگئے دل کے عارضے سے نجات ملی مگر موت ان کی تلاش میں تھی کہ کوئی غلطی کریں تو ان کو دبوچ لے ابھی ان کی واپسی کو چند ماہ ہی ہوئے تھے۔
1988کے ایام تھے کہ انھوں نے بلوچستان یونیورسٹی میں اردو ادب کی کلاسیں لینا شروع کیں۔ کہاں یوپی الٰہ آباد، جونپور اور لکھنو سے انھوں نے شعر و ادب کا سہانا ادبی باغ لگایا، ایک دن لاہور میں ادبی میلہ بینظیر نے سجایا یہ مارچ کی 29 تاریخ تھی 1988 کی بات ہے محترمہ کا دعوت نامہ موصول ہوا وہ اس محفل ادب کے میر کاررواں تھے۔ آپکے شاگردوں کی موج ظفر موج کراچی تا کوئٹہ موجود ہے مگر یکم اپریل کو لاہور ایئرپورٹ پر منی بس نے ان کی کار کو ٹکر رسید کی اور وہ منٹ بھر میں انھیں موت نے اپنی گود میں لے لیا۔ انھوں نے لاہور کی ادبی محفل تو لوٹ لی مگر گھر کو ویران کر گئے جس گاڑی میں وہ سوار تھے وہ ڈاکٹر طارق عزیز چلا رہے تھے ڈاکٹر صاحب خود معروف ادیب تھے مگر وہ دوسروں کی سواری کے بجائے ان کی گاڑی میں مروتاً سوار ہوئے اور کسی کو خراش تک نہ آئی مگر جس کونے میں وہ بیٹھے تھے فرنٹ رائٹ کو بس نے ہٹ کیا اور دل کے ٹانکے ٹوٹ گئے آخر میں ان کا یہ شعر لکھتا چلوں:
یہ میرا دل ہے محبت کی بارگاہ ہے یہ
یہ آئینہ نہیں جس پہ غبار ٹھہرے گا
آئیے چند جملوں میں حیات اور موت کا جائزہ لیں۔ یہ جائزہ بس دنیاوی اعتبار سے ایک تجربہ ہے اس کو حتمی فیصلہ نہ سمجھیے والد صاحب اگر یہ سفر نہ کرتے تو چند برس تو کیا 15 برس اور زندگی کا سفر طے کرتے واللہ عالم باالصواب۔ اگر وہ اس گاڑی میں نہ بیٹھتے تو پھر کیا ہوتا یہ بالکل ایسا ہی موازنہ ہے کہ اگر میرے بیگ میں ٹارچ نہ ہوتی۔ پس میرے خیال میں حیات اتفاق کا دوسرا نام ہے۔ میرؔ نے اس کو یہ بھی کہا ہے کہ:
لے سانس بھی آہستہ
جب بھی چل ہر چیز سے لیس ہوکے چل
مگر موت کا ذائقہ یقینی ہے جلد یا دیر
مگر حیات کو بچاتے رہو ضرور
دوسروں کو بچاؤ گے تو بچتے رہوگے ضرور یہی ہم نے سیکھا اور پڑھا ہے۔ جب سے افغان جنگ کا کلچر سرزمین پاک میں داخل ہوا ہے حیات کی رگیں کمزور پڑ گئی ہیں یہاں تک کہ فوج کو بھی جنگ کا سہارا لینا پڑا تاکہ امن فروغ پاسکے۔