بینظیر قتل ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے
بہرکیف ایک دہائی سے زائد کی طویل تفتیش میں اس سازش اور قتل کی پشت پناہی کرنیوالی طاقت کا سراغ نہ لگایا جاسکا
محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل ہوئے گیارہ برس گزر گئے، ہر سال نوحے پڑھتے اور آہ و زاریوں میں گزر جاتے ہیں، گزشتہ روز بھی سندھ بھر میں عام تعطیل تھی، گڑھی خدا بخش میں عوام کا ہجوم دیکھا گیا، جلسہ عام منعقد کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر جوشیلی تقریریں کرتے رہے، پھر سازشوں کے الزامات لگائے گئے۔
ان نامعلوم قوتوں کو لعن طعن کیا گیا جنہوں نے قتل کرایا۔ آنکھوں میں آنسو تھے، بتایا گیا کہ جو بچے کھچے قاتل تھے، وہ بھی رہا کر دیے گئے۔غم زدہ حاضرین کو یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کون تھے جنہوں نے محترمہ کو قتل کرایا،کون تھے جو تفتیش کی راہ میں حائل رہے، کون تھے جو سہولت کار تھے، کون تھے جنہوں نے کسی بھی تفتیش کو سرے نہیں چڑھنے دیا، کون تھے؟ سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کو عین اُس وقت تبدیل کیوں کیا گیا جب وہ مجرموں تک پہنچنے ہی والے تھے۔ یہ انکشاف انھوں نے اپنی کتاب THE FALTERING STATEکے ایک باب میں کیا ہے، یہ کتاب انھوں نے پاکستان کی اندرونی سیکیورٹی کے بارے میں لکھی ہے۔ گزشتہ دنوں ہی میری نظر سے یہ کتاب گزری تو اس میں ایک باب محترمہ بینظیر قتل کیس کی تحقیقات کے متعلق بھی تھا۔ جس کی تفتیش کھوسہ صاحب کر رہے تھے۔
یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2009 میں طارق کھوسہ کو ڈی جی ایف آئی اے لگایا تھا۔کھوسہ صاحب نے چارج سنبھالا تو انھوں نے بینظیر بھٹو کیس کو اہمیت دی جو دو سال سے سرد خانے میں پڑا تھا۔ تحقیقات درست سمت میں جا رہی تھیں۔ ایف آئی اے کے دبئی اور امریکا میں اہم ذرایع سے رابطے ہو چکے تھے جو انھیں تمام تر خفیہ تفصیلات دینے کو تیار تھے کہ بینظیر بھٹو کے قتل پیچھے کس کا ہاتھ تھا اور یہ سازش کس نے کی تھی۔
ایف آئی اے کی تین ٹیمیں بنائی گئی تھیں۔ دو نے امریکا، دبئی اور تیسری ٹیم کو ایک مدرسے میں بھیجا جانا تھا جہاں بینظیر بھٹو کے قاتلوں نے راولپنڈی آنے سے قبل رات گزاری تھی۔ اسی دوران انھیں ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔وہ لکھتے ہیں کہ وہ آج تک حیران ہیں کہ جب وہ بینظیر بھٹوکے قتل کی سازش کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے تو انھیں پیپلز پارٹی حکومت نے کیوں ہٹا دیا؟ یوں جب ایف آئی اے سازش کے قریب پہنچ گئی تھی تو اس پرسرار قتل کی تفتیش رک گئی اور معاملہ کھوسہ صاحب کے ساتھ ہی ختم کر دیا گیا تھا۔
لہٰذاگزشتہ روز کسی نے نہیں بتایاکہ نو برس جب عدالت میں کیس چلتا رہا، اس وقت کچھ لوگ ایان علی اور عاصم حسین کو چھڑانے میں لگے ہوئے تھے۔کسی کو بینظیر بھٹو کا قتل یا اس کا مقدمہ یاد نہ تھا۔جب بقیہ مبینہ قاتل بھی بری ہوگئے تو اچانک ماتم شروع کر دیا گیا۔ پچھلی برسی میں قارئین کو یاد ہوگا کہ انھی لیڈروں نے بینظیر بھٹو کا کیس دوبارہ کھلوانے کے بڑے بڑے اعلان کیے لیکن ایک سال ہوگیا اس بات کو، ہم بھی بڑے بھلکڑ ہیں سب کچھ بھول گئے۔ جب ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں تو یقینا قائدین کو تو ویسے ہی بہت سے کام سر انجام دینے ہوتے ہیں!
بہرکیف ایک دہائی سے زائد کی طویل تفتیش میں اس سازش اور قتل کی پشت پناہی کرنیوالی طاقت کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔ اس تفتیش میں امریکا کی ایف بی آئی سے لے کر برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ یارڈ تک کو شامل کیا گیا۔ ملکی ایجنسیاں بھی اس میں شریک رہیں۔ بینظیر کے باڈی گارڈ خالد شہنشاہ اور ایف آئی اے کے پروسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کا بھی قتل ہوچکا ہے، ایسی وارداتوں کی تفتیش کا فیصلہ کن نتیجہ نہ پیش کرسکنا اور کسی ٹھوس عدالتی فیصلے کا نہ ہو پانا بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔ دنیا انھی کیسوں کی بنیاد پر ہمیں پرکھ رہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے قائدین کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں یا ہمارے ملک میں تفتیش کے معیارات کیا ہیں؟
دنیا اور کچھ دیکھے نہ دیکھے مگر یہ ضرور دیکھتی ہے کہ پیپلز پارٹی میں بڑے بڑے وکلاء ہیں جو کیس کو کسی بھی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر بینظیر قتل کیس میں نہ تو چوہدری اعتزاز احسن تھے، نہ لطیف کھوسہ اور نہ ہی بابر اعوان تھے تو پھر سوال تو اُٹھتے ہیں، حالانکہ ملک کے یہ چوٹی کے وکلا بینظیر بھٹو کی زندگی میں ان کے خلاف نیب کے مقدمات کی پیروی کے لیے عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں لیکن ان کی ہلاکت کے بعد کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کو اپنی منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کا کوئی خیال نہیں آیا۔حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جب بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی سماعت ہوتی تھی تو اس وقت پیپلز پارٹی کا کوئی بھی سرکردہ رہنما کمرہ عدالت میں موجود نہیں ہوتا تھا۔
آخر میں محترمہ کے اُس انٹرویو کا ذکر کرتا چلوں کہ جو انھوں نے اپنے آخری دنوں میں دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب دھمکیاں بڑھ گئیں تو ایک دن انھوں نے ایک سال کے بلاول کو اپنے ایک قابل اعتماد معتمد کے سپرد کیا اور کہا کہ آپ اسے لندن لے جائیں کیونکہ مجھے کہا جا رہا ہے کہ تمہارے بیٹے کو نہیں چھوڑیں گے۔ وہ غیر ملکی ایئر لائنز کے ذریعے سے ایک سالہ بلاول کو لے کر لندن پہنچے اور انھیں ان کے دادا حاکم علی زرداری کے حوالے کیا جو بغرض علاج پہلے سے وہاں موجود تھے۔ پھر بعد ازاں انھوں نے بتایا کہ جب وہ کراچی ائیرپورٹ اُتریں تووہاں انھیں قتل کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی ، لیکن انھوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ انھیں دوبارہ ٹارگٹ کیا جائے گا۔ لیکن انھوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ میں سرنڈر نہیں کروں گی، یہ موت سے مجھے نہیں ڈرا سکتے۔بقول شاعر
تم زندہ ہو کر مُردہ ہو
وہ مُردہ ہو کر زندہ ہے
یہ الفاظ آج بھی ہر محب وطن پاکستانی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں جو ذرا سا بھی دل میں درد رکھتا ہو۔لہٰذاچیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ ہے کہ وہ محترمہ کے شہادت کے حوالے سے ایک ایسی انوسٹی گیشن JITجس کے ممبران کی تعداد زیادہ ہو، تشکیل دیں جو اس کے تمام حقائق پر روشنی ڈالے، نہ کہ حمود الرحمن کمیشن کی طرح گمشدہ کمیشن رہے اور کسی کو سمجھ نہ آئے۔اگر ایسا ہو جائے تو ہم بھی دنیا کو بتا سکیں گے کہ ہم نے بینظیر کے قاتلوں کو پکڑ لیا ہے، اُس کے سہولت کاروں اور اُن کرداروں کو بے نقاب کر لیا ہے جو اس گھنائونی سازش میں ملوث رہے ہیں۔ کیوں کہ قاتل اور سہولت کار تو یہی سمجھتے ہیں کہ ان چہروں سے نقاب اتر گیا تو نقصان ہی نقصان ہے اور سمجھدار لوگ اپنا نقصان بھلا کب کرتے ہیں۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں بلکہ مفادات ہوتے ہیں اور تمام سیاسی پارٹیوں کا مفاد اسی میں ہے کہ بینظیر کے قاتلوں کے پیچھے چھپے پراسرار راز اور چہرے کبھی بے نقاب نہ ہوں!