تحریک انصاف کی ناتجربہ کار حکومت
اس حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے۔ پاکستان کا معاشی بحران کوئی نیا نہیں ہے
پاکستان اس وقت ان گنت مسائل کا شکار ہے۔ ایک طرف مالی بحران ہے۔ دوسری طرف خارجی اور داخلی محاذ پر چیلنجز ہیں۔ ایسے میں ایک نئی حکومت آئی ہے جس کے بارے میں یہ رائے بن رہی ہے کہ نہ صرف نا تجربہ کار ہے بلکہ ان میں ان بڑے بڑے چیلنجز سے نبٹنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ اس تناظر میں یہ رائے بھی بن گئی ہے کہ شاید بحران اتنے سنگین نہیں تھے جتنے بنا دیے گئے ہیں۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مقتدر حلقوں نے بھی اس حکومت کی نا تجربہ کاری اور صلاحیت میں کمی کو پہلے دن ہی بھانپ لیا تھا، اسی لیے ملک کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے انھیں پس پردہ رہ کے اپنا کردار ادا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ناتجربہ کاری کے باوجود ملک کسی بڑے نقصان سے بچ گیا۔
پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی بہت بات کی جاتی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ آج ن لیگ کی قیادت جن مشکلات کا شکار ہے ان میں خراب سول ملٹری تعلقات کا بنیادی کردار ہے۔ جب کہ دوسری رائے یہ ہے کہ زرداری نے تو سول ملٹری تعلقات بہترین رکھنے کی کوشش کی ہے پھر وہ کیوں مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ستر سال میں ہم سول ملٹری تعلقات کے نہ تو کوئی خدوخال طے کر سکے ہیں اور نہ ہی حدود متعین کر سکے ہیں۔ شاید ملک میں عد م استحکام کی بنیادی وجہ کسی ایک نظام حکومت پر یکسوئی نہ ہونا بھی ہے۔ایک عموی رائے یہ بھی ہے کہ ملک کی بہتری کے لیے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
اس حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے۔ پاکستان کا معاشی بحران کوئی نیا نہیں ہے۔ میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے مجھے ملک معاشی بحران میں ہی نظرآیا ہے۔ اس میں کسی سول اور ملٹری حکومت کاکوئی امتیاز نہیں ہے۔ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالاتو یہی کہا کہ ملک معاشی بحران میں ہے اور جب جنرل مشرف نے اقتدار چھوڑا اور نئی سول حکومت آئی تو اس نے بھی یہی کہا کہ ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ تاہم تمام حکومتیں کسی نہ کسی شکل میں اس معاشی بحران سے نبٹتی رہی ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کارکردگی پر تو بحث کی جا سکتی ہے لیکن کسی نے بھی بحران کو شدید نہیں ہونے دیا۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے حوالہ سے یہ رائے ضرور بن گئی ہے کہ انھوں نے معاشی محاذ پر فیصلے کرنے میں بہت تاخیر کی ہے۔ معاشی معاملات کو نہایت ناتجربہ کاری سے ہینڈل کیا ہے جس کہ وجہ سے ملک میں موجود معاشی بحران شدید ہو گیا ہے۔
تا ہم اس حکومت کی کارکردگی سے قطع نظر یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مسائل کو حل کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ سعودی عرب سے جو معاشی پیکیج ملا ہے اس میں بھی مقتدر حلقوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین سے بھی ا س حکومت نے تعلقات کو مس ہینڈل کیا۔ سی پیک پر غیر ذمے داران بیانات سے پاک چین تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔ حکومت نے پورے سی پیک کو ہی مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ غیرذمے دارانہ بیانات سے پاک چین دوستی کو نقصان پہنچا۔ چینی رد عمل کے بعد حکومت کو بھی غلطی کا احساس ہو ا۔ اورپالیسی کو رول بیک کیا گیا۔ لیکن تب تک نقصان ہو گیا تھا۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے مقتدر قوتوں نے کام کیا جس کے نتیجے میں عمران خان کا دورہ چین ممکن ہوا۔ اور اب تمام صوبوں کے وزر اء اعلیٰ بھی باری باری چین جا رہے ہیں۔ چینی خدشات دور ہوئے ہیں۔ اور اب چین پاکستان کی مزید مالی مدد پر آمادہ ہے ورنہ تحریک انصاف کی حکومت نے تو یہ شور مچا کر کہ سی پیک میں کرپشن ہی کرپشن ہے، منصوبوں کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے گا، سارا سی پیک کو ہی رول بیک کر دیا تھا۔
سب جانتے ہیں کہ معاشی بحران کے سنگین ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس حکومت نے یہ طے کرنے میں بہت دیر کر دی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی ہے کہ نہیں۔ اس تاخیر نے بنیادی مسائل پیدا کیے ہیں۔ جن کو اب حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک مذاکرات کے کوئی حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ دن بدن آئی ایم ایف کی شرائط سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہیں۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت ایک بند گلی میں پھنستی جا رہی ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کوئی پہلی بار آئی ایم ایف کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ حکومت کے اکنامک منیجرز کی نا تجربہ کاری نے سادہ معاملہ کو مسئلہ فیثا غورث بنا دیا ہے۔
سیاسی محاذ پر بھی اس حکومت کی نا تجربہ کاری روز بروز روز روشن کی طرح عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں بھی انھیں حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چھ ستمبر کے جی ایچ کیو کی تقریب کو ہی مثال بنا لیں، وہاں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو سمیت ساری اپوزیشن کو مدعو کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کو بھی بلایا۔ ایک خوبصورت سیاسی بیلنس نظر آیا۔ کیا وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے ساتھ بیلنس قائم نہیں کر سکتے لیکن حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک میں سیاسی تنائو کا بھی عجیب ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ اچھے کام بھی بھونڈے انداز میں کیے جا رہے ہیں۔ پروڈکشن آرڈر بھی جا ری کر رہے ہیں لیکن اتنے بھونڈے انداز میں کر رہے ہیں کہ کوئی شکریہ بھی نہیں ادا کر سکتا۔ ورنہ حکومت کو چاہیے کہ کہے احتساب بھی چلتا رہے گا اور سیاسی ہم آہنگی بھی ہو گی۔ مل کر کام کرنے کی راہ نکالنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس نظام کو چلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ گالی گلوچ سے کیسے چلے گا۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مقتدر حلقوں نے بھی اس حکومت کی نا تجربہ کاری اور صلاحیت میں کمی کو پہلے دن ہی بھانپ لیا تھا، اسی لیے ملک کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے انھیں پس پردہ رہ کے اپنا کردار ادا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ناتجربہ کاری کے باوجود ملک کسی بڑے نقصان سے بچ گیا۔
پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی بہت بات کی جاتی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ آج ن لیگ کی قیادت جن مشکلات کا شکار ہے ان میں خراب سول ملٹری تعلقات کا بنیادی کردار ہے۔ جب کہ دوسری رائے یہ ہے کہ زرداری نے تو سول ملٹری تعلقات بہترین رکھنے کی کوشش کی ہے پھر وہ کیوں مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ستر سال میں ہم سول ملٹری تعلقات کے نہ تو کوئی خدوخال طے کر سکے ہیں اور نہ ہی حدود متعین کر سکے ہیں۔ شاید ملک میں عد م استحکام کی بنیادی وجہ کسی ایک نظام حکومت پر یکسوئی نہ ہونا بھی ہے۔ایک عموی رائے یہ بھی ہے کہ ملک کی بہتری کے لیے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
اس حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے۔ پاکستان کا معاشی بحران کوئی نیا نہیں ہے۔ میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے مجھے ملک معاشی بحران میں ہی نظرآیا ہے۔ اس میں کسی سول اور ملٹری حکومت کاکوئی امتیاز نہیں ہے۔ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالاتو یہی کہا کہ ملک معاشی بحران میں ہے اور جب جنرل مشرف نے اقتدار چھوڑا اور نئی سول حکومت آئی تو اس نے بھی یہی کہا کہ ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ تاہم تمام حکومتیں کسی نہ کسی شکل میں اس معاشی بحران سے نبٹتی رہی ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کارکردگی پر تو بحث کی جا سکتی ہے لیکن کسی نے بھی بحران کو شدید نہیں ہونے دیا۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے حوالہ سے یہ رائے ضرور بن گئی ہے کہ انھوں نے معاشی محاذ پر فیصلے کرنے میں بہت تاخیر کی ہے۔ معاشی معاملات کو نہایت ناتجربہ کاری سے ہینڈل کیا ہے جس کہ وجہ سے ملک میں موجود معاشی بحران شدید ہو گیا ہے۔
تا ہم اس حکومت کی کارکردگی سے قطع نظر یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مسائل کو حل کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ سعودی عرب سے جو معاشی پیکیج ملا ہے اس میں بھی مقتدر حلقوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین سے بھی ا س حکومت نے تعلقات کو مس ہینڈل کیا۔ سی پیک پر غیر ذمے داران بیانات سے پاک چین تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔ حکومت نے پورے سی پیک کو ہی مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ غیرذمے دارانہ بیانات سے پاک چین دوستی کو نقصان پہنچا۔ چینی رد عمل کے بعد حکومت کو بھی غلطی کا احساس ہو ا۔ اورپالیسی کو رول بیک کیا گیا۔ لیکن تب تک نقصان ہو گیا تھا۔ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے مقتدر قوتوں نے کام کیا جس کے نتیجے میں عمران خان کا دورہ چین ممکن ہوا۔ اور اب تمام صوبوں کے وزر اء اعلیٰ بھی باری باری چین جا رہے ہیں۔ چینی خدشات دور ہوئے ہیں۔ اور اب چین پاکستان کی مزید مالی مدد پر آمادہ ہے ورنہ تحریک انصاف کی حکومت نے تو یہ شور مچا کر کہ سی پیک میں کرپشن ہی کرپشن ہے، منصوبوں کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے گا، سارا سی پیک کو ہی رول بیک کر دیا تھا۔
سب جانتے ہیں کہ معاشی بحران کے سنگین ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس حکومت نے یہ طے کرنے میں بہت دیر کر دی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی ہے کہ نہیں۔ اس تاخیر نے بنیادی مسائل پیدا کیے ہیں۔ جن کو اب حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک مذاکرات کے کوئی حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ دن بدن آئی ایم ایف کی شرائط سخت سے سخت ہوتی جا رہی ہیں۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت ایک بند گلی میں پھنستی جا رہی ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کوئی پہلی بار آئی ایم ایف کے ساتھ بات کر رہا ہے۔ حکومت کے اکنامک منیجرز کی نا تجربہ کاری نے سادہ معاملہ کو مسئلہ فیثا غورث بنا دیا ہے۔
سیاسی محاذ پر بھی اس حکومت کی نا تجربہ کاری روز بروز روز روشن کی طرح عیاں ہوتی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں بھی انھیں حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چھ ستمبر کے جی ایچ کیو کی تقریب کو ہی مثال بنا لیں، وہاں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو سمیت ساری اپوزیشن کو مدعو کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کو بھی بلایا۔ ایک خوبصورت سیاسی بیلنس نظر آیا۔ کیا وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے ساتھ بیلنس قائم نہیں کر سکتے لیکن حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک میں سیاسی تنائو کا بھی عجیب ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ اچھے کام بھی بھونڈے انداز میں کیے جا رہے ہیں۔ پروڈکشن آرڈر بھی جا ری کر رہے ہیں لیکن اتنے بھونڈے انداز میں کر رہے ہیں کہ کوئی شکریہ بھی نہیں ادا کر سکتا۔ ورنہ حکومت کو چاہیے کہ کہے احتساب بھی چلتا رہے گا اور سیاسی ہم آہنگی بھی ہو گی۔ مل کر کام کرنے کی راہ نکالنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس نظام کو چلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ گالی گلوچ سے کیسے چلے گا۔