پلتا ہے پسر ایک جو ماں عمر کو کھوئے

قوم کا ہر فرد رات دن اپنے ملک و حکومت کی برائیاں بیان کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے

najmalam.jafri@gmail.com

ہم بے حد عجیب قوم ہیں اگر ہم اپنے آپ کو لاپرواہ کہیں تو ہم سے بڑھ کر بھلا اور کون ہوگا، اگر خود کو خوش فہم کہیں تو کوئی ہمارا مقابلہ کرنے والا دور دور نظر نہ آئے گا، عاقبت نااندیشی کا اعزاز تو کسی صورت، کسی طرح ہمارے علاوہ کسی اور پر جچ نہیں سکتا یہ فہرست بہت طویل ہوسکتی ہے، دنیا بھر کے منفی اعزازات کسی اور قوم کے ساتھ اچھے بھی نہیں لگ سکتے۔

قوم کا ہر فرد رات دن اپنے ملک و حکومت کی برائیاں بیان کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے، سب سے اعلیٰ صلاحیت جو ہم میں ہے جس سے قوم کا کوئی ایک فرد بھی محروم نہیں کہا جاسکتا وہ اپنے علاوہ سب پر تنقید یعنی ''میرے'' سوا باقی سب بے وقوف، نااہل، خود غرض، ابن الوقت، دھوکے باز، بے ایمان اس پاک سرزمین پر رہنے کے قابل ہی نہیں۔ غرض یہ کہ ہم جب بھی ملک و قوم اور صاحبان اقتدار کا تذکرہ کریں گے تو ہمیں کوئی معمولی سی خوبی بھی نظر نہ آئے گی۔ جب ہم ایسے ہیں تو یہ کہنا ہی فضول ہے کہ اگر تلاش کریں تو بے شمار نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ تو خوبیاں نکل ہی آئیں گی ہم سب سے بڑی خوبی یہ بتا چکے ہیں ''میرے'' سوا باقی سب برے اور غلط یعنی میں خود اچھا اور درست جب قوم کا ہر فرد ''خود'' کو درست سمجھتا ہے تو پھر غلط کون رہا سب ہی تو اچھے ہوگئے کس قدر آسان نسخہ ہے پوری قوم کو ''اچھا'' بنانے کا۔ اب جب ہم اچھے ہیں تو اپنی خوبیوں کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے۔

سلسلہ کچھ یوں ہے کہ گزشتہ تقریباً چھ ساڑھے چھ عشروں سے ہمارے ملک پر جو حکمران ''نازل'' ہوتے رہے ان سب میں ایک اعلیٰ صلاحیت یہ واضح طور پر رہی ہے کہ آتے ہی جانے والے کا ہر منصوبہ معرض التوا میں ڈالنا اور اس کے تمام منفی پہلو سامنے لانا، کسی بھی ترقیاتی منصوبے کو مکمل کرنا جب کہ اس پر زر کثیر خرچ ہوچکا ہو اور تقریباً تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہو، آنے والا حکمران جو افلاطون سے کسی طرح کم نہیں ہوتا خود ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی کے لیے اپنے ''نو رتن'' کے مشوروں پر زیادہ لاگت میں مکمل ہونے والے منصوبے شروع کرے گا قوم کا ہر فرد مسرور ہو جائے گا کہ بس اب ہمارے مقدر کا ستارہ اوج ثریا پر ہوگا پھر نہ حکمران مقررہ مدت پوری کر پاتا ہے اور نہ اس کے منصوبے، یوں گزشتہ سے گزشتہ تمام منصوبے کبھی مکمل نہیں ہو پاتے اور ملکی خزانہ خالی ہوتا جاتا ہے نہ آنے والا حکمران اور نہ قوم جانے والے سے پوچھتی ہے کہ ان اخراجات کا حساب کون دے گا؟

دوسری خوبی جو ہمارے حکمرانوں میں سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے وہ یہ کہ جو ان کو کاندھوں پر بٹھا کر مسند اقتدار تک لائے ان کی طرف مڑ کر نہ دیکھا اقتدار میں آنے کے لیے جو وعدے کیے ان کو حکومت ملتے ہی بھول جانا، سب سے اہم خوبی جو عوام کی مرضی سے آنے والوں یا خود اپنی خواہش پر آنے والوں میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ:

''جس سے ہو اختلاف اسے مار دیجیے''


یہ وہ خوبی ہے جو اس ''عجیب قوم'' پر حکمرانی کرنے کا سب سے سنہری اصول بھی کہا جاسکتا ہے، اور یہی زریں اصول سیاسی جماعتوں کا بھی بنیادی اصول ہے۔ ہم ایک بے حد سنجیدہ صورتحال کا ذکر اتنے ہلکے پھلکے انداز میں اس لیے کر رہے ہیں کہ ہم خود بھی تو اس ''عجیب قوم'' کے ہی فرد ہیں۔

قائد اعظم نے افراد قوم کے اتحاد کو قومی بقا قرار دیا اور مصور پاکستان علامہ اقبال فرما گئے ''ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ'' زمانہ آگے بڑھتا ہے وقت کے تقاضے بدل جاتے ہیں ان دونوں قابل احترام بزرگوں کے زمانے میں شاید ملکی ترقی و قومی بقا کے لیے ہر فرد کی اہمیت ہوتی ہو مگر آج تو ''ہر فرد ہے لوٹ مار کی راہ کا پتھر'' لہٰذا جو فرد بھی اوپر بیان کردہ قومی خوبیوں سے عاری ہو، یعنی مخلص، بے غرض، دور اندیش اور اپنے خیالات و نظریات کو بلا خوف و تردد پیش کرنے پر عمل پیرا ہو تو پھر بھلا اس کو زندہ رہنے کا کیا حق ہے۔

علی رضا عابدی بھی ایک ایسا ہی سرپھرا شخص تھا، اس کے پاس ملک چھوڑ کر جانے کے کئی جواز اور مواقع تھے، خود گھر والے، سب دوست احباب سب چاہنے والے اس کو ملک چھوڑ کر چلے جانے پر طرح طرح سے قائل کرتے مگر اس کا ایک ہی جواب ہوتا، میں ملک چھوڑ کر کیوں جاؤں؟ میں یہاں پیدا ہوا، یہاں پڑھا لکھا اس ملک کا مجھ پر کتنا قرض و احسان ہے، اب جب میں قرض اتارنے کے لائق ہوا تو یہاں سے چلا جاؤں؟ ملک تو ملک میں تو کراچی چھوڑ کر بھی کہیں نہ جاؤں ، اس شہر قائد کا فرزند ہوں، یہیں رہوں گا، یہیں مروں گا اور اسی مٹی میں دفن ہوں گا، اس نے اپنا کہا پورا کر دکھایا۔ وطن کی ''خوبصورت جمہوری سیاست'' اس کو کھا گئی اور وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے خود اپنے ہی گھر میں اپنے مخالفین کا نشانہ بن گیا۔

علی رضا پر خلوص، نیک نیت سیاستدان تھا بلکہ وہ سیاستدان تھا ہی نہیں وہ تو ایک محب وطن اپنے اصولوں پر ثابت قدم، مخلص اور ہر کسی کے کام آنے والا، نرم لہجے میں دو ٹوک بات کرکے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنانے والا، انداز نشست و برخاست، انداز گفتگو میں خاندانی نجابت و شائستگی لیے ہوئے۔ خود پر ہر تنقید کو خنداں پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ ہی اس کا جواب ہوتی۔ وہ کوئی گھاگ یا خاندانی سیاستدان بھی نہ تھا وہ تو ملک و قوم کے لیے کچھ ''اچھا'' کرنے کی خاطر میدان سیاست میں اترا تھا اسی لیے اس نے ملک کے محروم، ستائے ہوئے ٹھکرائے ہوئے کوٹہ سسٹم کی مار کھائے ہوئے متوسط اور نچلے طبقے کی نمایندہ جماعت سے اپنے مشن کا آغاز کیا وہ اپنے نظریات پر سختی سے کاربند، ایک فرمانبردار بیٹا، ایک مہذب و ذمے دار شوہر ایک چاہنے والا باپ، بہنوں کا مان اور چہیتا بھائی بھی تھا۔

وہ کسی کا دشمن تو دور کی بات کسی سے سخت لہجے میں بات بھی کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ اس کو راستے سے ہٹانے والے درندوں (انسان تو وہ ہو ہی نہیں سکتے) نے علی رضا عابدی کو ہی نہیں اس کے والدین کو، بیوی بچوں کو، بہن بھائی کو جیتے جی مار دیا۔ اس کے بے شمار چاہنے والوں کے دل پاش پاش کردیے۔ اولاد رسولؐ کو بددعا نہیں دیتے، ان کا سب سے بڑا انتقام معاف کرنا ہوتا ہے۔ مگر علی رضا کے قاتلوں، ان کے سرپرستوں کے لیے یہ دعا ہے کہ وہ تڑپیں اور تڑپتے رہیں پر انھیں موت بھی نہ آئے۔
Load Next Story