علم کی فضیلت
علم حاصل کرو، کیوں کہ اﷲ کی رضا کے لیے جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس علم کی تعلیم خشیّت ہے
علم کی فضیلت و اہمیت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ اس مضمون میں علم کی فضیلت کے حوالے سے مدینۃ العلم علم نبی اکرم ﷺ اور باب العلم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے چند اقوال کی تسہیل کی گئی ہے، کیوں کہ اگر عربی سے اردو میں لفظ بہ لفظ ترجمہ کیا جائے، تو عام طور پر بامحاورہ نہ ہونے کی وجہ سے پوری بات سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ جہاں کہیں کسی قول کی تشریح یا اس سے متعلقہ کوئی وضاحت ناگزیز سمجھی ہے، وہاں اگلی سطر سے ''یعنی'' کے الفاظ سے اس تشریح و وضاحت کو درج کردیا ہے۔
فرمانِ مدینۃ العلم خاتم النبیین شفیع المذنبین ﷺ
٭ دو حریص ایسے ہیں جن کی حرص کبھی ختم نہیں ہوگی۔ علم کا حریص اور دنیا کا حریص۔
٭ علم حاصل کرو، کیوں کہ اﷲ کی رضا کے لیے جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس علم کی تعلیم خشیّت ہے، طلب عبادت ہے، مذاکرہ تسبیح اور تلاش جہاد ہے۔
٭ بے علموں کو علم سکھانا صدقہ ہے، علم حلال و حرام کا نشان ہے، دنیا و عاقبت میں روشنی کا ستون، تنہائی میں مونس و ہم دم، پردیس میں رفیق و ساتھی، خلوت میں ندیم و ہم راز، مصیبت کو ہٹانے والا، دشمن کے مقابلے میں ہتھیار اور دوستوں کے درمیان (صاحب علم کے لیے باعثِ) زینت ہے۔
٭ باپ کا بیٹے (اولاد) کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اس کی تعلیم و تربیت اچھی کرے۔
٭ میری کمر دو آدمیوں نے توڑ دی ہے: ایک جاہل عابد و زاہد نے ، دوسرے دین کی ہتک و توہین اور بے توقیری کرنے والے عالم نے۔
٭ علم بغیر عمل کے وبال ہے اور عمل بغیر علم کے گم راہی ہے۔ جاہل کوایک دفعہ عذاب دیا جائے گا اور اور عالم بے عمل کو سات دفعہ۔
٭ جو شخص تلاش علم میں نکلا، وہ اپنی واپسی تک گویا اﷲ تعالیٰ کی راہ پر چلتا رہا۔
فرموداتِ بابُ العلم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ
٭ علم مال سے بہتر ہے کیوں کہ :
علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور تم مال کی حفاظت کرتے ہو۔
مال فرعون و ہامان کا ترکہ اور علم انبیا ئے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔
مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور علم کو جتنا زیادہ خرچ کیا جائے وہ اتنی ہی ترقی کرتا ہے۔
مال دیر تک رکھنے سے فرسودہ، ناقابل استعمال اور ضایع ہو جاتا ہے، مگر علم خواہ کتنا ہی پرانا ہوجائے، اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔
مال کی ہر وقت چوری کا خطرہ رہتا ہے، مگر علم اس طرح کے خطرات سے محفوظ و مامون ہے۔
صاحب مال کبھی بخیل بھی کہلاتا ہے، یعنی وہ کبھی مال ختم یا کم ہونے کے ڈر سے کنجوسی سے بھی کام لے سکتا ہے، جب کہ صاحب علم کریم ہی کہلاتا ہے، کیوں کہ اسے یقین ہے کہ وہ علم کو جتنا بھی خرچ کرے، اس میں کوئی کمی یا نقص واقع نہیں ہوگا، بل کہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
علم کی کثرت سے دل کو روشنی ملتی ہے اور مال کی کثرت سے دل تاریک ہوتا چلا جاتا ہے۔ کثرت مال ہی کی وجہ سے فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔
مال کی کثرت سے بے شمار دشمن پیدا ہوتے ہیں، مگر علم سے ہر دل عزیزی حاصل ہوتی ہے۔
قیامت کے دن مال کا حساب ہوگا مگر علم پر کوئی حساب نہ ہوگا۔ (بہ شرطے کہ اس علم کے تقاضے کے مطابق عمل بھی کیا ہو، ورنہ میدان محشر سے قدم اس وقت تک نہ ہٹ پائیں گے، جب کہ علم پر عمل کے سلسلے میں سوال کا جواب نہیں دے گا۔)
٭ جو لوگ تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں، ان سے علم حاصل کر اور جو نادان یعنی کم علم ہیں ان کو اپنا علم سکھا۔
رحم کے زیادہ مستحق تین شخص ہیں :
وہ عالم جس پر جاہل کا حکم چلے۔
وہ شریف جس پر کمینہ حاکم ہو۔
وہ نیکو کار جس پر کوئی بدکار مسلط ہو۔
٭ جس شخص کو علم غنی اور بے پروا نہیں کرتا، یعنی علم کے باوجود دنیا کی محبت اس کے دل سے نہیں نکلتی، وہ مال سے کبھی مستغنی نہیں ہوسکتا، اور ہمیشہ مال جمع کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے، کبھی سیر نہیں ہوتا کہ جو مال اس کو اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے، اس پر قناعت کرلے۔
٭ صاحب علم اگرچہ حقیر حالت میں ہو، یعنی پھٹے پرانے لباس اور غربت و افلاس کا شکار ہو، تب بھی اسے ذلیل نہ سمجھو۔
٭ لوگوں کو طلبِ علم میں اس وجہ سے بے رغبتی پیدا ہوگئی ہے، کہ بہت سے عالم ایسے نظر آتے ہیں جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے، یعنی یہ بے عمل علماء لوگوں کو دین اور علم دین سے روکنے کا باعث ہیں۔
٭ اگر کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو اس کے جواب میں '' میں نہیں جانتا '' کہنا نصفِ علم ہے، لہٰذا اپنی لاعلمی کا اظہار کبھی بُرا نہ سمجھو۔
٭ خواہش نفسانی کو علم کے ساتھ اور غضب و غصے کو حلم یعنی بردباری کے ساتھ مار ڈالو۔
٭ خاموشی عالم کے لیے باعثِ زینت اور جاہل کے حق میں اس کی جہالت پر پردہ ڈالنے والی ہے۔
فرمانِ مدینۃ العلم خاتم النبیین شفیع المذنبین ﷺ
٭ دو حریص ایسے ہیں جن کی حرص کبھی ختم نہیں ہوگی۔ علم کا حریص اور دنیا کا حریص۔
٭ علم حاصل کرو، کیوں کہ اﷲ کی رضا کے لیے جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس علم کی تعلیم خشیّت ہے، طلب عبادت ہے، مذاکرہ تسبیح اور تلاش جہاد ہے۔
٭ بے علموں کو علم سکھانا صدقہ ہے، علم حلال و حرام کا نشان ہے، دنیا و عاقبت میں روشنی کا ستون، تنہائی میں مونس و ہم دم، پردیس میں رفیق و ساتھی، خلوت میں ندیم و ہم راز، مصیبت کو ہٹانے والا، دشمن کے مقابلے میں ہتھیار اور دوستوں کے درمیان (صاحب علم کے لیے باعثِ) زینت ہے۔
٭ باپ کا بیٹے (اولاد) کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اس کی تعلیم و تربیت اچھی کرے۔
٭ میری کمر دو آدمیوں نے توڑ دی ہے: ایک جاہل عابد و زاہد نے ، دوسرے دین کی ہتک و توہین اور بے توقیری کرنے والے عالم نے۔
٭ علم بغیر عمل کے وبال ہے اور عمل بغیر علم کے گم راہی ہے۔ جاہل کوایک دفعہ عذاب دیا جائے گا اور اور عالم بے عمل کو سات دفعہ۔
٭ جو شخص تلاش علم میں نکلا، وہ اپنی واپسی تک گویا اﷲ تعالیٰ کی راہ پر چلتا رہا۔
فرموداتِ بابُ العلم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ
٭ علم مال سے بہتر ہے کیوں کہ :
علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور تم مال کی حفاظت کرتے ہو۔
مال فرعون و ہامان کا ترکہ اور علم انبیا ئے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔
مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور علم کو جتنا زیادہ خرچ کیا جائے وہ اتنی ہی ترقی کرتا ہے۔
مال دیر تک رکھنے سے فرسودہ، ناقابل استعمال اور ضایع ہو جاتا ہے، مگر علم خواہ کتنا ہی پرانا ہوجائے، اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔
مال کی ہر وقت چوری کا خطرہ رہتا ہے، مگر علم اس طرح کے خطرات سے محفوظ و مامون ہے۔
صاحب مال کبھی بخیل بھی کہلاتا ہے، یعنی وہ کبھی مال ختم یا کم ہونے کے ڈر سے کنجوسی سے بھی کام لے سکتا ہے، جب کہ صاحب علم کریم ہی کہلاتا ہے، کیوں کہ اسے یقین ہے کہ وہ علم کو جتنا بھی خرچ کرے، اس میں کوئی کمی یا نقص واقع نہیں ہوگا، بل کہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
علم کی کثرت سے دل کو روشنی ملتی ہے اور مال کی کثرت سے دل تاریک ہوتا چلا جاتا ہے۔ کثرت مال ہی کی وجہ سے فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔
مال کی کثرت سے بے شمار دشمن پیدا ہوتے ہیں، مگر علم سے ہر دل عزیزی حاصل ہوتی ہے۔
قیامت کے دن مال کا حساب ہوگا مگر علم پر کوئی حساب نہ ہوگا۔ (بہ شرطے کہ اس علم کے تقاضے کے مطابق عمل بھی کیا ہو، ورنہ میدان محشر سے قدم اس وقت تک نہ ہٹ پائیں گے، جب کہ علم پر عمل کے سلسلے میں سوال کا جواب نہیں دے گا۔)
٭ جو لوگ تجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں، ان سے علم حاصل کر اور جو نادان یعنی کم علم ہیں ان کو اپنا علم سکھا۔
رحم کے زیادہ مستحق تین شخص ہیں :
وہ عالم جس پر جاہل کا حکم چلے۔
وہ شریف جس پر کمینہ حاکم ہو۔
وہ نیکو کار جس پر کوئی بدکار مسلط ہو۔
٭ جس شخص کو علم غنی اور بے پروا نہیں کرتا، یعنی علم کے باوجود دنیا کی محبت اس کے دل سے نہیں نکلتی، وہ مال سے کبھی مستغنی نہیں ہوسکتا، اور ہمیشہ مال جمع کرنے کی دھن میں لگا رہتا ہے، کبھی سیر نہیں ہوتا کہ جو مال اس کو اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے، اس پر قناعت کرلے۔
٭ صاحب علم اگرچہ حقیر حالت میں ہو، یعنی پھٹے پرانے لباس اور غربت و افلاس کا شکار ہو، تب بھی اسے ذلیل نہ سمجھو۔
٭ لوگوں کو طلبِ علم میں اس وجہ سے بے رغبتی پیدا ہوگئی ہے، کہ بہت سے عالم ایسے نظر آتے ہیں جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتے، یعنی یہ بے عمل علماء لوگوں کو دین اور علم دین سے روکنے کا باعث ہیں۔
٭ اگر کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو اس کے جواب میں '' میں نہیں جانتا '' کہنا نصفِ علم ہے، لہٰذا اپنی لاعلمی کا اظہار کبھی بُرا نہ سمجھو۔
٭ خواہش نفسانی کو علم کے ساتھ اور غضب و غصے کو حلم یعنی بردباری کے ساتھ مار ڈالو۔
٭ خاموشی عالم کے لیے باعثِ زینت اور جاہل کے حق میں اس کی جہالت پر پردہ ڈالنے والی ہے۔