حکمرانوں کے فرائض

رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’ بہترین حاکم وہ ہیں جو تمہیں دوست رکھیں اور تم انہیں دوست رکھو۔‘‘


عظمیٰ علی December 28, 2018
رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’ بہترین حاکم وہ ہیں جو تمہیں دوست رکھیں اور تم انہیں دوست رکھو۔‘‘ فوٹو: فائل

حکمرانی اگر عدل و انصاف کے مطابق کی جائے تو یہ بہت عظیم کام اور زمین پر اﷲ تعالیٰ کے خلیفہ کی نشانی ہے۔ اسلام اجتماعی زندگی چاہتا ہے جو فطرت کا تقاضا ہے۔ اس کے لیے ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں ہر فرد کو اپنی ذمے داری کا احساس ہو۔ راعی، عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چرواہا، فرض شناس اور ذمہ دار کے ہیں۔ جس طرح چرواہے کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو چَرانے کے لیے سبز چراگاہوں میں لے کر جاتا ہے، درندوں اور چوروں سے ان کی حفاظت کرتا ہے اور شام کو گھر لاکر بھی ان کی دیکھ بھال اور پوری نگرانی کرتا ہے، اسی طرح حکامِ وقت عوام کے محافظ اور نگران ہوتے ہیں۔ ان کی ضروریات کی فکر کرنا اور انہیں خدشات و مشکلات سے محفوظ رکھنا ان کی ذمے داری ہے۔

قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: '' اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اﷲ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔'' انسان کو چاہیے کہ دنیا میں حکومت اس طرح کرے جس طرح اﷲ نے فرمایا ہے۔ اس لیے کہ عدل کے ساتھ حکمرانی خدا کے قرب کا ذریعہ ہے۔ فرمانِ مصطفیؐ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ حاکم کا ایک دن کا عدل کرنا ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور جن سات آدمیوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ عرش کے سائے تلے ہوں گے ان میں پہلا عادل حکمران ہوگا۔

آپؐ نے فرمایا، مفہوم: تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور اس سے اس کے ماتحت لوگوں اور رعایا کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔ امیر اور خلیفہ ذمے دار ہیں اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پُرس ہوگی ۔ مرد اپنے اہلِ خانہ کا ذمے دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق باز پرس ہوگی، خادم اپنے آقا کے ساز و سامان کا ذمے دار ہے اس سے اپنے کام کے متعلق باز پرس ہوگی۔ پس ہر شخص ذمے دار ہے اور اس سے اس کے ماتحت افراد اور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

عدل و انصاف کی حکمرانی اس وقت قائم ہوسکتی ہے، جب حاکمِ وقت ان باتوں کا خیال رکھے۔ جو بات اپنے حق میں پسند نہ کرے وہ کسی دوسرے کے لیے بھی پسند نہ کرے اور اگر ایسا کرے گا تو حکمران کے حق میں دغا بازی اور خیانت ہوگی۔ اپنے دروازے پر حاجت مندوں کا منتظر رہنے کو آسان نہ جانے اور جب تک حاجت مند باقی ہوں، نفل عبادت میں مشغول نہ ہو۔ اس لیے کہ کسی کی حاجت روائی تمام نوافل سے بڑھ کر ہے۔ خواہشات میں مشغول رہنے اور اچھا کھانے پہننے سے بچے بل کہ ہر بات میں قناعت و سادگی کو اپنائے اس لیے کہ قناعت کرنے والا ہی عدل کرسکتا ہے۔

جہاں تک ممکن ہو ہر کام میں نرمی کرے سختی سے گریز کرے، حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ جو حاکم رعیت کے ساتھ نرمی کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت میں اس کے ساتھ نرمی کریں گے اور آپؐ نے دعا بھی فرمائی ہے کہ اے اﷲ جو حاکمِ وقت رعیت کے ساتھ نرمی کرے تو قیامت کے دن تُو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما اور جو سختی کرے تو بھی اس کے ساتھ سختی فرما۔ حاکم کی کوشش ہو نی چاہیے کہ شرعی دستور کے مطابق ساری رعایا اس سے خوش ہو، حضورؐ نے فرمایا کہ بہترین حاکم وہ ہیں جو تمہیں دوست رکھیں اور تم انہیں دوست رکھو۔ حکمرانوں کو لوگوں کی تعریف سے مغرور نہیں ہو نا چاہیے اور نہ یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اس سے خوش ہیں، ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ خوف کے سبب اس کی تعریف کرتے ہوں۔

حکمران شریعت کی مخالفت کرکے کسی کی رضامندی حاصل نہ کریں۔ حاکم کے ذہن میں یہ بات ہمیشہ رہے کہ حکمرانی پُرخطر کام ہے اور مخلوق کا کفیل ہونا آسان نہیں ہے، جو شخص اس کا حق ادا کرنے کی توفیق پاتا ہے اس کے مقدر میں ایسی سعادت آتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کو ئی سعادت نہیں۔ دین دار علماء کی نصیحت توجہ سے سنا کرے اور لالچی علماء کی صحبت سے بچے۔ کیوں کہ وہ تعریف کرکے اس کو دھوکا دیں گے اور اس کی خوشی کی تلاش میں رہیں گے۔ دین دار عالم وہ ہے جو کسی حال میں سچ کہنے سے نہ ڈرے اور کسی قسم کا لالچ اپنے دل میں نہ رکھے۔ حکمران صرف خود کو ہی ظلم سے دور نہ رکھے بل کہ اپنے نائبین و متعلقین کو بھی مہذب بنائے اور ان کے ظلم کی انہیں کڑی سزا دے۔ کیوں کہ ان کے ظلم کی بھی اس سے جواب طلبی ہوگی۔ حاکم پر تکبر غالب نہیں ہو نا چاہیے اس لیے کہ تکبر کی وجہ سے غصہ آتا ہے اور انتقام کی طرف مائل کرتا ہے۔ غصہ، انسان کو عقل سے محروم کر دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے