سادگی میانہ روی اور قناعت
دنیا بھر میں ہر پل انسان کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔
آج کل کے ہنگامہ خیر اور مشینی دور نے ہماری زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ دنیا بھر میں ہر پل انسان کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری زندگی آسان ہوتی چلی جاتی اور ہمارے اندیشوں اور تفکرات میں کمی ہوتی، ہُوا اس کے برعکس ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایجادات نے انسانی زندگی کو سہل نہیں بنایا، بالکل ان ایجادات کی بہ دولت انسان نے بیماریوں پر قابو پانا سیکھا ہے، سریع الاثر ادویات بن رہی ہیں اور انسان نے اپنی صحت کی نگہہ داشت کو سہل بنایا ہے۔ رابطے کی تو دنیا ہی بدل گئی ہے اور اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ ہرگز نہ ہوگا کہ اب سیل فون کی شکل میں دنیا آپ کی مُٹھی میں آگئی ہے۔ سیل فون میں سیکڑوں ایپس موجود ہیں جن کی مدد سے ہم لمحوں میں اپنی خواہشات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ان ایجادات سے فائدہ اٹھانے کے بہ جائے اس کا سراسر بے جا استعمال کر رہے ہیں اور یہی اصل میں مسائل کا سبب بن گیا ہے۔ دوسرا مسئلہ ان ایجادات سے احساس محرومی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم اپنے آس پاس دیکھ ہی رہے ہیں۔ اگر ہم قناعت اور سادہ زندگی بسر کرنا شروع کردیں تو ہماری زندگی سہل ہوسکتی ہے۔ اسلام نے ہمیں ہر حال میں قناعت، میانہ روی اور سادگی کا درس دیا ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں اور اپنی زندگی کو سہل بناکر اپنے مسائل سے نجات حاصل کریں۔
سادگی اور قناعت کسے کہتے ہیں! نفس کو بے جا خواہشات سے روکنے اور کم سے کم سامانِ دنیا سے گزر بسر کرنے کو سادگی کہتے ہیں۔ انسان کی خواہشات کا سلسلہ تو لامتناہی ہے۔ سادگی سے مراد یہ ہے کہ ہم خود کو غیر ضروری خواہشات سے روکیں اور اپنی احتیاجات کو بھی ایک محدود دائرے میں رکھیں۔ جو کچھ میّسر ہے، بس اسی پر اکتفا کریں اور یہ بھی تمنا نہ کریں کہ کاش یہ اور وہ بھی میرے پاس ہوتا۔
حضرت ابو عمامہ ایاس بن ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' کیا تم سنتے نہیں کہ سادگی اور خستہ حالی بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔''
سادگی کا الٹ اگر تصنع اور بناوٹ کو سمجھا جائے تو سادگی یہ ہے کہ زندگی اس طرح گزاری جائے کہ اس میں بناوٹ اور تصنع کا تکلف نہ اٹھانا پڑے۔ اپنی ضروریات کو محدود اور بنیادی احتیاجات پر اکتفا کرنا، آسائشات کی تمنا نہ کرنا اور تعیشات سے گریز انسان کو سادگی سے قریب کرتا ہے۔
ابوداؤد کی حدیث میں آیا ہے، مفہوم : '' سادہ طرز زندگی ایمان کی علامت ہے۔''
سادہ طرز زندگی اور سادگی کا الٹ ناز و نعم اور تعیش ہے۔ مسند احمد میں حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان کو جب یمن روانہ کیا تو نصیحت کر تے ہوئے ارشاد فرمایا: '' معاذ! آرام طلبی اور عیش کوشی سے بچے رہنا۔ اﷲ کے خاص بندے آرام طلب اور عیش کوش نہیں ہوا کر تے۔''
سادگی سے زندگی بسر کر نے میں نبی اکرم ﷺ ہمارے لیے بہترین اور اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ آپؐ نے کھانے پینے، لباس اور رہائش سب میں سادگی کو اختیار کیا تاکہ امت مسلمہ آپؐ کی پیروی اور اقتدا کرے اور آپؐ کی سنت اور طریقے پر چلے۔ سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمد ﷺ آسائشوں، لذیذ کھانوں اور شان دار مکانات سے اجتناب فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے پیارے رسول ﷺ ریت پر بچھی ایک چٹائی پر آرام فرما رہے ہیں۔ ریت پہلو میں لگی ہوئی ہے۔ چمڑے کا ایک گدا ہے جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے ہیں۔
حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ! قیصر و کسریٰ تو عیش و آرام کی زندگی بسر کریں اور اﷲ تعالیٰ کے حبیب ؐ یوں ریت پر لیٹیں۔ یا رسول اﷲ ﷺ ! دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ آپ ؐ کی امت کو وسعت سے رزق عطا فرمائے۔
یہ سن کر سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے عمر ؓ ! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ انہیں دنیا دے دی جا ئے اور ہمیں آخرت ۔۔۔۔ ؟
اس حسین تربیت اور نگاہِ شفقت کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمرؓ فاروق ہمیشہ لذت و عشرت سے کنارہ کش رہے اور اپنے عہد خلافت میں بھی سادگی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ فتح بیت المقدس کے سلسلے میں آپؓ شام تشریف لے گئے تو آپؓ کے اعزاز میں پُرتکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ دستر خوان پر چُنے ہوئے انواع و اقسام کے کھانوں کو دیکھ کر سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ یہ تو ہمارے لیے ہیں، مگر ان نادار اور مفلس مسلمانوں کو کیا ملا جنھوں نے عمر بھر جو کی روٹی بھی سیر ہوکر نہیں کھائی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے عرض کیا ان کو تو جنت مل گئی۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپؓ نے فرمایا: اگر ہمارے لیے یہ دنیا کا ایندھن ہے اور انھیں جنت مل گئی تو وہ ہم سے بہت آگے نکل گئے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اگر امت مسلمہ قسم ہا قسم کی نعمتوں میں مگن اور کھانے پینے میں غرق ہوجائے گی، جب وہ پرتعیش گدوں پر سوئے گی اور عیش و عشرت میں پڑجائے گی تو مادہ پرستی اس پر غالب آجائے گی۔ مادی ترقی اور تمدن اپنی چمک دمک اور ظاہری آب و تاب سے اسے دھوکے میں ڈال دے گا اور پھر وہ بہت جلد اپنے مقام سے گر جائے گی، اور اپنے دشمن اور باطل قوتوں کے سامنے گردن جھکا دے گی۔ اس کے نوجوانوں کے دلوں سے صبر اور اس کے مصائب برداشت کرنے کا حوصلہ ماند پڑجائے گا۔
ناز و نعم سے مراد یہ ہے کہ انسان ضرورت سے زیادہ لذتوں میں غرق ہوجائے اور عیش و عشرت میں پڑا رہے۔ ہمیشہ راحت و آرام میں پڑے رہنے کی عادت سے انسان رسول کریم ﷺ کے احکامات کی پابندی میں پیچھے رہ جاتا ہے اور پھر وہ بے مہار آزادی اور بے راہ روی کی کھائیوں میں گرتا رہے گا اور اس کا نفس قوی ہوجائے گا۔ حضرت سعد بن جبیر ؓ نے فرمایا کہ دنیاوی زندگی کا دھوکا یہ ہے کہ انسان اس کی نعمتوں اور لذتوں میں یوں مشغول ہوجائے کہ آخرت کے لیے کوئی عمل کرنے کی اس کے پاس فرصت ہی نہ رہے۔ اگر طرز حیات سادہ نہ ہو اور بود و باش میں سادگی نہ ہو تو اس عارضی دنیا میں انسان کا بنیادی نظریہ ہی بدل جاتا ہے۔ یہ دنیا تو عارضی قیام گاہ ہے اور اگر اس زندگی میں ہم جہادِ اکبر یعنی اپنے نفس کے ساتھ جہاد نہ کریں اور نفس کو قوی کرتے رہیں گے تو حیات ابدی یعنی حیات بعد الموت کی ابدی راحتوں اور جنت الفردوس کو کیسے حاصل کر پائیں گے۔
سرکار دوعالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنے نفقے میں اعتدال برتنا آدھی معیشت ہے۔ سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میانہ روی اختیار کی وہ کبھی محتاج نہ ہوگا۔ سرکار دوعالم ﷺ نے قناعت کو معیشت کی آدھی روح قرار دیا۔ میانہ روی کی یہاں تک تاکید کی گئی کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی اس کا پورا لحاظ رکھا جائے۔
اﷲ ہمیں اپنے محبوب کریم ﷺ کے طفیل سادگی، میانہ روی اور قناعت کی دولت سے سرفراز فرمائے اور تمام عالم کی مشکلات آسان فرمائے۔ آمین
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ان ایجادات سے فائدہ اٹھانے کے بہ جائے اس کا سراسر بے جا استعمال کر رہے ہیں اور یہی اصل میں مسائل کا سبب بن گیا ہے۔ دوسرا مسئلہ ان ایجادات سے احساس محرومی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کا مظاہرہ ہم اپنے آس پاس دیکھ ہی رہے ہیں۔ اگر ہم قناعت اور سادہ زندگی بسر کرنا شروع کردیں تو ہماری زندگی سہل ہوسکتی ہے۔ اسلام نے ہمیں ہر حال میں قناعت، میانہ روی اور سادگی کا درس دیا ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں پر عمل کریں اور اپنی زندگی کو سہل بناکر اپنے مسائل سے نجات حاصل کریں۔
سادگی اور قناعت کسے کہتے ہیں! نفس کو بے جا خواہشات سے روکنے اور کم سے کم سامانِ دنیا سے گزر بسر کرنے کو سادگی کہتے ہیں۔ انسان کی خواہشات کا سلسلہ تو لامتناہی ہے۔ سادگی سے مراد یہ ہے کہ ہم خود کو غیر ضروری خواہشات سے روکیں اور اپنی احتیاجات کو بھی ایک محدود دائرے میں رکھیں۔ جو کچھ میّسر ہے، بس اسی پر اکتفا کریں اور یہ بھی تمنا نہ کریں کہ کاش یہ اور وہ بھی میرے پاس ہوتا۔
حضرت ابو عمامہ ایاس بن ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' کیا تم سنتے نہیں کہ سادگی اور خستہ حالی بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔''
سادگی کا الٹ اگر تصنع اور بناوٹ کو سمجھا جائے تو سادگی یہ ہے کہ زندگی اس طرح گزاری جائے کہ اس میں بناوٹ اور تصنع کا تکلف نہ اٹھانا پڑے۔ اپنی ضروریات کو محدود اور بنیادی احتیاجات پر اکتفا کرنا، آسائشات کی تمنا نہ کرنا اور تعیشات سے گریز انسان کو سادگی سے قریب کرتا ہے۔
ابوداؤد کی حدیث میں آیا ہے، مفہوم : '' سادہ طرز زندگی ایمان کی علامت ہے۔''
سادہ طرز زندگی اور سادگی کا الٹ ناز و نعم اور تعیش ہے۔ مسند احمد میں حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان کو جب یمن روانہ کیا تو نصیحت کر تے ہوئے ارشاد فرمایا: '' معاذ! آرام طلبی اور عیش کوشی سے بچے رہنا۔ اﷲ کے خاص بندے آرام طلب اور عیش کوش نہیں ہوا کر تے۔''
سادگی سے زندگی بسر کر نے میں نبی اکرم ﷺ ہمارے لیے بہترین اور اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ آپؐ نے کھانے پینے، لباس اور رہائش سب میں سادگی کو اختیار کیا تاکہ امت مسلمہ آپؐ کی پیروی اور اقتدا کرے اور آپؐ کی سنت اور طریقے پر چلے۔ سرور کائنات، فخر موجودات حضرت محمد ﷺ آسائشوں، لذیذ کھانوں اور شان دار مکانات سے اجتناب فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے پیارے رسول ﷺ ریت پر بچھی ایک چٹائی پر آرام فرما رہے ہیں۔ ریت پہلو میں لگی ہوئی ہے۔ چمڑے کا ایک گدا ہے جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے ہیں۔
حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ ! قیصر و کسریٰ تو عیش و آرام کی زندگی بسر کریں اور اﷲ تعالیٰ کے حبیب ؐ یوں ریت پر لیٹیں۔ یا رسول اﷲ ﷺ ! دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ آپ ؐ کی امت کو وسعت سے رزق عطا فرمائے۔
یہ سن کر سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے عمر ؓ ! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ انہیں دنیا دے دی جا ئے اور ہمیں آخرت ۔۔۔۔ ؟
اس حسین تربیت اور نگاہِ شفقت کا نتیجہ تھا کہ حضرت عمرؓ فاروق ہمیشہ لذت و عشرت سے کنارہ کش رہے اور اپنے عہد خلافت میں بھی سادگی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ فتح بیت المقدس کے سلسلے میں آپؓ شام تشریف لے گئے تو آپؓ کے اعزاز میں پُرتکلف دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ دستر خوان پر چُنے ہوئے انواع و اقسام کے کھانوں کو دیکھ کر سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ یہ تو ہمارے لیے ہیں، مگر ان نادار اور مفلس مسلمانوں کو کیا ملا جنھوں نے عمر بھر جو کی روٹی بھی سیر ہوکر نہیں کھائی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے عرض کیا ان کو تو جنت مل گئی۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپؓ نے فرمایا: اگر ہمارے لیے یہ دنیا کا ایندھن ہے اور انھیں جنت مل گئی تو وہ ہم سے بہت آگے نکل گئے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اگر امت مسلمہ قسم ہا قسم کی نعمتوں میں مگن اور کھانے پینے میں غرق ہوجائے گی، جب وہ پرتعیش گدوں پر سوئے گی اور عیش و عشرت میں پڑجائے گی تو مادہ پرستی اس پر غالب آجائے گی۔ مادی ترقی اور تمدن اپنی چمک دمک اور ظاہری آب و تاب سے اسے دھوکے میں ڈال دے گا اور پھر وہ بہت جلد اپنے مقام سے گر جائے گی، اور اپنے دشمن اور باطل قوتوں کے سامنے گردن جھکا دے گی۔ اس کے نوجوانوں کے دلوں سے صبر اور اس کے مصائب برداشت کرنے کا حوصلہ ماند پڑجائے گا۔
ناز و نعم سے مراد یہ ہے کہ انسان ضرورت سے زیادہ لذتوں میں غرق ہوجائے اور عیش و عشرت میں پڑا رہے۔ ہمیشہ راحت و آرام میں پڑے رہنے کی عادت سے انسان رسول کریم ﷺ کے احکامات کی پابندی میں پیچھے رہ جاتا ہے اور پھر وہ بے مہار آزادی اور بے راہ روی کی کھائیوں میں گرتا رہے گا اور اس کا نفس قوی ہوجائے گا۔ حضرت سعد بن جبیر ؓ نے فرمایا کہ دنیاوی زندگی کا دھوکا یہ ہے کہ انسان اس کی نعمتوں اور لذتوں میں یوں مشغول ہوجائے کہ آخرت کے لیے کوئی عمل کرنے کی اس کے پاس فرصت ہی نہ رہے۔ اگر طرز حیات سادہ نہ ہو اور بود و باش میں سادگی نہ ہو تو اس عارضی دنیا میں انسان کا بنیادی نظریہ ہی بدل جاتا ہے۔ یہ دنیا تو عارضی قیام گاہ ہے اور اگر اس زندگی میں ہم جہادِ اکبر یعنی اپنے نفس کے ساتھ جہاد نہ کریں اور نفس کو قوی کرتے رہیں گے تو حیات ابدی یعنی حیات بعد الموت کی ابدی راحتوں اور جنت الفردوس کو کیسے حاصل کر پائیں گے۔
سرکار دوعالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنے نفقے میں اعتدال برتنا آدھی معیشت ہے۔ سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میانہ روی اختیار کی وہ کبھی محتاج نہ ہوگا۔ سرکار دوعالم ﷺ نے قناعت کو معیشت کی آدھی روح قرار دیا۔ میانہ روی کی یہاں تک تاکید کی گئی کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی اس کا پورا لحاظ رکھا جائے۔
اﷲ ہمیں اپنے محبوب کریم ﷺ کے طفیل سادگی، میانہ روی اور قناعت کی دولت سے سرفراز فرمائے اور تمام عالم کی مشکلات آسان فرمائے۔ آمین