امن وامان کی گمبھیر ہوتی صورت حال

لیاری میں بلوچ اور کچھی برادری میں مفاہمت سے امن کی امید

لیاری میں بلوچ اور کچھی برادری میں مفاہمت سے امن کی امید فوٹو : فائل

لیاری میں مسلسل کئی روز سے جاری بد ترین خوں ریزی کے بعد بلوچ اور کچھی برادری میں بات چیت کام یاب ہوگئی ہے، جس سے امید ہے کہ علاقے میں دیرپا امن قائم ہوگا اور قیمتی جانوں کے ضیاع کی روک تھام ہوسکے گی۔

کمشنر کراچی شعیب صدیقی کے زیر سایہ بلوچ اور کچھی برادری کے نمائندوں نے اتفاق کیا کہ وہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں گے۔ ساتھ ہی مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ اس اجلاس میں دونوں فریقین اور انتظامیہ کے علاوہ کراچی ایوان صنعت وتجارت کے صدر ہارون اگر، وفاقی ایوان صنعت وتجارت کے نائب صدر گلزار فیروز، نائب چیئرمین کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ اینڈسٹری (کاٹی) نیاز احمد، ہارون شمسی ودیگر بھی موجود تھے۔

گذشتہ دنوں لیاری میں امن وامان کی ابتر صورت حال کے باعث لوگوں کی اندرون سندھ نقل مکانی تک کی نوبت آگئی اور لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ لیاری میں کشیدگی کے علاوہ شہر بھر میں بھی روزانہ لاشیں گرنے کا سلسلہ اس ہفتے بھی نہ تھم سکا، بلکہ صرف پیر کے روز ہلاکتوں کی تعداد 16 تک جا پہنچی۔ قبل ازیں وزیر اعلا سندھ سید قائم علی شاہ نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ہر قیمت پر کراچی کا امن بحال کریں گے۔

اپنے ایک دوسرے بیان میں وزیراعلا نے شہر قائد کو بد امنی کے باوجود سرمایہ کاری کے لیے محفوظ قرار دیا اور کہا کہ دنیا کے بیش تر سرمایہ دار ادارے یہاں سرمایہ کاری میں دل چسپی رکھتے ہیں، لیکن وزیراعلا کے ان بیانات کے باوجود شہر میں قتل وغارت جاری رہی، جس میں لیاری میں خوف ناک تصادم بھی شامل رہا۔ اس دوران لیاری میں جاری دہشت گردی سے تنگ مکینوں نے وزیراعلا ہاؤس پر دھرنا بھی دیا، جنہیں وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی جانب سے امن کی یقین دہانی کرائی گئی۔ ماڑی پور روڈ پر پولیس نے لیاری کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ، آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا سہارا لیا، جس سے علاقہ میدان جنگ بن گیا اور ملحقہ سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔

شہر قائد میں طویل عرصے سے جاری قتل وغارت اب عالمی ذرایع ابلاغ کا موضوع بھی بن رہی ہے۔ اس حوالے سے امریکی ویب سائٹ ''اسٹر ٹیجی پیج'' کا کہنا ہے کہ کراچی اغوا اور بھتا وصولی کی سب سے بڑی ''صنعت'' بن رہا ہے۔ یہاں سالانہ کروڑوں ڈالر بھتے کا لیا جاتا ہے، جس سے کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے۔ شہر کے 50 علاقے ایسے ہیں جہاں پولیس کی رسائی نہیں۔ رپورٹ کے مطابق اغوا کاروں کے لیے کراچی سونے کی کان ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کار پیسہ لگانے سے کترا رہے ہیں اور اپنے خاندان کو ملک کے دیگر حصوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ مختلف گروہوں نے مخالفین کے خلاف مسلح جتھے بنائے گئے ہیں۔


نئی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے قیام کو ایک ماہ سے زاید کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن کراچی میں مجموعی طور پر امن کی کوئی کوشش کارگر ہوتی نظر نہیں آرہی۔ وفاقی وزیر داخلہ یا وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے تاحال شہر کا دورہ بھی نہیں کیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن کا سنگین مسئلہ وفاق اور صوبے کے اختیارات کے درمیان کہیں مصلحت کا شکار ہو چکا ہے، کیوں کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کوئٹہ تو جا چکے، لیکن کراچی آمد کی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے البتہ اس امر کی تصدیق کی کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی میں قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون کی پیش کش کی گئی ہے۔ اب حکومت جلد اس پیش کش سے فایدہ اٹھائے یا صوبائی سطح پر موثر اقدام کرے تاکہ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر جاری نشانہ وار قتل، اغوا اور بھتہ خوری کا خاتمہ ہو سکے۔

شہر میں جاری دہشت گردی کے حوالے سے متحدہ کی رابطہ کمیٹی کے رکن عامر خان نے بتایا کہ رواں ہفتے ان کے 9کارکن قتل کیے جا چکے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ منظم منصوبہ بندی کے تحت کارکنان اور اردو بولنے والوں کی نسل کُشی کرائی جا رہی ہے اور چھاپے مار کر ہمارے ہی کارکنوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔ متحدہ کے صبر کو کم زوری نہ سمجھا جائے۔ اگر اسی طرح ہمارے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے بہ جائے روندھا جاتا رہا تو یہ عمل احساس محرومی میں مزید اضافہ کرے گا اور اس کے نتائج کسی طرح بھی ملک وقوم کے لیے بہتر نہیں نکل سکتے۔

دوسری طرف اہدافی قتل کی نذر ہونے والے جماعت اسلامی کے کارکن اسلم سعید کی نماز جنازہ کے موقع پر امیر جماعت اسلامی سندھ ڈاکٹر معراج الہدیٰ نے کہا شہر قاتلوں اور دہشت گردوں کی جنت بن گیا۔ قاتلوں کی گرفتاری کے لیے میمن مسجد پر مظاہرہ بھی کیا گیا۔ اس موقع پر محمد حسین محنتی نے وزیراعظم سے خود امن وامان کی صورت حال کی نگرانی کا مطالبہ کی۔ سنی تحریک نے بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کارکن کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ سے کراچی میں جاری بد امنی پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں 16 سے 20 گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ نواز لیگ سندھ کے عوام سے انتخابی شکست کا بدلہ لے رہی ہے۔ صوبائی وزیر نے مطالبہ کیا کہ سندھ کو اتنی ہی بجلی دی جائے، جتنی پیپلز پارٹی کی حکومت میں ملتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے صبر کا امتحان نہ لیاجائے اور سندھ کو اس کے حصے کا پانی اوربجلی مہیا کی جائے۔ لوگوں کو وعدوں اور باتوں سے نہیں بہلایا جا سکتا بجلی کی فراہمی کے لیے عملی اور فوری اقدام کی ضرورت ہے۔

کراچی میں قومی کی ایک اور صوبائی کی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے کاغذات نام زدگی جمع کرانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ قومی کے حلقے 254 پر عوامی نیشنل پارٹی اور صوبائی حلقے 95 میں مہاجر قومی موومنٹ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شکیل احمد کے قتل بعد انتخاب التوا کاشکار ہوا تھا۔ جب کہ صوبائی حلقہ 103 کی نشست متحدہ کے رکن ساجد قریشی کے قتل کے بعد خالی ہوئی۔ قومی اسمبلی کے حلقے 254 پر متحدہ کی جانب سے محمد حسین اور نواز لیگ کی جانب سے نوید سحر بھٹی نے کاغذات داخل کیے۔ صوبائی اسمبلی کے حلقے95 پر عبدالرؤف صدیقی اور نواز لیگ کے راحت حسین صدیقی نے کاغذات نام زدگی جمع کرائے ہیں۔ کاغذات نام زَدگی کی جانچ پڑتال وغیرہ کے مراحل کے بعد امیدواروں کی حتمی فہرست 31 جولائی تک جاری ہوگی۔ جس کے بعد 22 اگست کو ان حلقوں میں پولنگ کا عمل ہوگا۔

مصر میں فوج کی جانب سے صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے خلاف جماعت اسلامی کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ گلشن اقبال میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا کہ ہم آج بھی مرسی کو ہی صدر سمجھتے ہیں۔مصر کے اندر اس وقت تک امن و سکون نہیں آئے گا جب تک مرسی حکومت کو بحال نہ کردیا جائے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی ترکی کی طرح مصر کی فوجی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرے۔
Load Next Story