اپوزیشن کو حکومت کے 100دن پورے ہونے کا انتظار
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے ابھی بمشکل تیس دن ہوئے ہیں ، اپوزیشن جماعتیں،قومی میڈیا اور...
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے ابھی بمشکل تیس دن ہوئے ہیں ، اپوزیشن جماعتیں،قومی میڈیا اور عوام انہیں ایک سو دن تک کا گریس پیریڈ انتہائی صبر آزما مراحل سے گزرکردے رہے ہیں۔
اس لئے وہ بجٹ کے بعد آنے والی مہنگائی اور حسب معمول جاری لوڈشیڈنگ کے عذاب کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کررہے ہیں۔ مگر ہیوی مینڈیٹ کے بوجھ تلے دبے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی حکومت کے ابتدائی ایک سو دن پورے ہوتے ہی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، تحریک انصاف کے عمران خان،جماعت اسلامی کے منور حسن اور دلچسپی کا رنگ بھرنے کیلئے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد بانہوں میں بانہیں ڈالے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔گذشتہ ایک ماہ کی کارکردگی دیکھی جائے تو میاں نوازشریف اب تک اپنی ترجیحات واضح کرنے میں مٖصروف ہیں اور انھوں نے بیوروکریسی کو نشانے پر رکھتے ہوئے ان پر عوامی توقعات کے عین مطابق واضح کردیا ہے کہ اب نااہل اور بد عنوان افسران کی حکومتی مشینری میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بیوروکریسی میں تطہیر کا عمل کب شروع کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف چین پہنچے تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس دورے سے پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے رفقاء زیادہ خوش ہیں یا چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ اور ان کی ٹیم زیادہ مسرور ہیں۔ چین کے وزیر اعظم کے پھولے نہ سمانے کی وجہ صرف ایک مثال سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگر خنجراب سے گوادر تک ہم ٹرین ٹریک اور سڑک بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو چین کو اپنا تجارتی سامان پندرہ ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرکے بحری جہاز تک پہنچانے کی بجائے محض تین ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا، ہمارے لئے راہ داری اور روزگار کے بے پناہ مواقع ہی حقیقی خوشی کی وجہ ہیں۔
وزیر اعظم کے دورے کے دوسرے روز دونوں ممالک کے درمیاں ہونے والے معاہدوں پر دستخطوں کے موقع پر جب وفاقی وزیر احسن اقبال نے پاکستان کی جانب سے چھ میں سے چار معاہدوں پر دستخط کئے تو چین کے وزیر اعظم نے انہیں ہیرو آف دی ڈے قرار دیا۔ چین کے سیاسی و حکومتی سیٹ اپ میں یہ سارا احترام اور محبت معمول سے ہٹ کر غیر معمولی عزت افزائی تھی جسے اقوام عالم باالخصوص چین کے دوسرے بڑے تجارتی و کاروباری شراکت دار امریکہ اور بھارت بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نوازشریف اپنی کامیاب سفارت کاری سے نہیں بلکہ محض ذاتی جذبے اور لگن سے چینی سرمایہ کاروں سے نو سو انہتر میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے منصوبے نیلم جہلم پاور پراجکٹ کے رکے ہوئے کام کو دوبارہ شروع کرنے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان سے اس منصوبے کیلئے چار سو چھیالیس ملین ڈالر کی فراہمی کی یقین دہانی بھی حاصل کرلی۔ نندی پور پاورپراجیکٹ گزشتہ کئی سالوں سے بند پڑا تھا، ذمہ دار سابق حکمران تھے یا روایتی سستی نااہلی اور بدانتظامی کی شکار ہماری اپنی بیوروکریسی تھی۔
پاکستان کے وزیر اعظم کو چین کے سرمایہ کاروں کے سامنے انتہائی شرمندگی سے یہ کہنا پڑا کہ یہ ہماری (پاکستان کی)نااہلی اور غفلت سے ایسا ہوا، چین کی طرف سے مختلف منصوبوں کے حوالے سے رابطے کئے جاتے رہے مگر ہم نہ تو ان سے جوابی رابطے کرسکے اور نہ ہی منصوبوں کے حوالے سے کوئی پیشرفت۔ وزیر اعظم نے معذرت کرتے ہوئے آئندہ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی مگر چین میں موجود پاکستان کے سفارتی عملے کی مسلسل بد انتظامی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی بیوروکریسی پر مزید تکیہ کرنے کی بجائے وزیر اعظم آفس میں چائنا سیل بنانے کا اعلان کردیا ۔ چینی سرمایہ کاروں کے سامنے وزیر اعظم اس حد تک بے بس اور شرمندہ ہوئے کہ انھوں نے اپنا ذاتی ٹیلی فون نمبر اور ای میل ایڈریس انھیں دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ آپ براہ راست مجھ سے رابطہ کریں ۔
چینی سرمایہ کاروں نے وزیر اعظم پاکستان سے اپنا دوسرا سب سے اہم مسئلہ ساورن گارنٹی کے ساتھ ساتھ چھ فیصد کی شرح سے رسک پریمیم انشورنس کی لازمی خریداری کی شرط کی صورت میں پیش کیا۔ میاں نوازشریف نے جب اس مسئلے کا ذکر وزیر اعظم چین سے کیا تو دونوں رہنماؤں نے باہمی اتفاق رائے سے سرمایہ کاروں کیلئے ساورن گارنٹی یا رسک پریمیم دونوں میں سے صرف ایک کا حصول لازمی قرار دیدیا۔ یہ چینی سرمایہ کاروں کیلئے ایک بڑا ریلیف ثابت ہوگا۔ میاں شہباز شریف چین کے دورے سے جس روز واپس آئے اسی دن وہ قطر کے نئے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملنے دوحہ چلے گئے ۔
مائع گیس کے منصوبوں کے حوالے سے دوطرفہ تعاون کی بات کی گئی جس کے نتائج بھی بہت جلد سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف دیگر صوبوں کی قیادت کو ساتھ ملا کر اسی برق رفتاری سے پاکستان کی صنعتی تجارتی و کاروباری ترقی کیلئے سرگرداں رہے تو بہت جلد پاکستان توانائی، بیروزگاری اور بدامنی جیسے مسائل سے انشاء اللٰہ باہر نکل آئے گا۔
ڈروں حملے رکوانے اور ملک میں انتہا پسندی و عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے وزیر اعظم نوازشریف کی طرف سے بلائی جانے والی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی کانفرنس بھی خوش آئند ابتدا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ 12 جولائی کی بجائے بیس جولائی کے بعد اس کانفرنس کے انعقاد کی بحث کے معاملے میں حکومتی ٹیم عمران خان کو قائل نہ کرسکی۔ تحریک انصاف کی ٹیم کے دلائل زیادہ وزن دار تھے اور اب امکان یہی ہے کہ یہ کانفرنس عمران خان کی بیس جولائی کو لندن سے وطن واپسی پر ہی منعقد ہوگی۔
ایبٹ آباد کمیشن کی تحقیقات منظر عام پر آنے کی وفاقی حکومت نے علیحٰدہ سے تحقیقات شروع کردی ہیں کہ یہ رپورٹ باہر کیسے نکلی۔ اب حکومتی سیانوں کو کون سمجھائے کہ اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے اس دور میں یہ بحث اور تحقیقات بے معنی ہیں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی پوری رپورٹ صفحہ بہ صفحہ انٹرنیٹ پر موجود ہے ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اس رپورٹ میں جہاں ذمہ داران کا تعین کردیا گیا ہے۔
وہاں اب حکومت وقت ان ذمہ داران کے خلاف ایکشن لے اور آئندہ سے ہماری عالمی جگ ہنسائی کا راستہ بند ہو۔ مگر ہم مصلحتوں کے شکار لوگ،ہمارے جیسے حکمران اور مصلحت زدہ قوم کہاں اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی جیسے بھاری بھرکم الفاظ کا بوجھ سہارسکتے ہیں ، البتہ کمیٹیوں پہ کمیٹیاں اور کمیشنوں پر کمیشن بٹھانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں اور یہ کام ہم حسب معمول پوری تندہی سے کئے جارہے ہیں۔
اس لئے وہ بجٹ کے بعد آنے والی مہنگائی اور حسب معمول جاری لوڈشیڈنگ کے عذاب کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کررہے ہیں۔ مگر ہیوی مینڈیٹ کے بوجھ تلے دبے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی حکومت کے ابتدائی ایک سو دن پورے ہوتے ہی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، تحریک انصاف کے عمران خان،جماعت اسلامی کے منور حسن اور دلچسپی کا رنگ بھرنے کیلئے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد بانہوں میں بانہیں ڈالے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔گذشتہ ایک ماہ کی کارکردگی دیکھی جائے تو میاں نوازشریف اب تک اپنی ترجیحات واضح کرنے میں مٖصروف ہیں اور انھوں نے بیوروکریسی کو نشانے پر رکھتے ہوئے ان پر عوامی توقعات کے عین مطابق واضح کردیا ہے کہ اب نااہل اور بد عنوان افسران کی حکومتی مشینری میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بیوروکریسی میں تطہیر کا عمل کب شروع کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف چین پہنچے تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس دورے سے پاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے رفقاء زیادہ خوش ہیں یا چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ اور ان کی ٹیم زیادہ مسرور ہیں۔ چین کے وزیر اعظم کے پھولے نہ سمانے کی وجہ صرف ایک مثال سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگر خنجراب سے گوادر تک ہم ٹرین ٹریک اور سڑک بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو چین کو اپنا تجارتی سامان پندرہ ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرکے بحری جہاز تک پہنچانے کی بجائے محض تین ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا، ہمارے لئے راہ داری اور روزگار کے بے پناہ مواقع ہی حقیقی خوشی کی وجہ ہیں۔
وزیر اعظم کے دورے کے دوسرے روز دونوں ممالک کے درمیاں ہونے والے معاہدوں پر دستخطوں کے موقع پر جب وفاقی وزیر احسن اقبال نے پاکستان کی جانب سے چھ میں سے چار معاہدوں پر دستخط کئے تو چین کے وزیر اعظم نے انہیں ہیرو آف دی ڈے قرار دیا۔ چین کے سیاسی و حکومتی سیٹ اپ میں یہ سارا احترام اور محبت معمول سے ہٹ کر غیر معمولی عزت افزائی تھی جسے اقوام عالم باالخصوص چین کے دوسرے بڑے تجارتی و کاروباری شراکت دار امریکہ اور بھارت بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نوازشریف اپنی کامیاب سفارت کاری سے نہیں بلکہ محض ذاتی جذبے اور لگن سے چینی سرمایہ کاروں سے نو سو انہتر میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے منصوبے نیلم جہلم پاور پراجکٹ کے رکے ہوئے کام کو دوبارہ شروع کرنے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان سے اس منصوبے کیلئے چار سو چھیالیس ملین ڈالر کی فراہمی کی یقین دہانی بھی حاصل کرلی۔ نندی پور پاورپراجیکٹ گزشتہ کئی سالوں سے بند پڑا تھا، ذمہ دار سابق حکمران تھے یا روایتی سستی نااہلی اور بدانتظامی کی شکار ہماری اپنی بیوروکریسی تھی۔
پاکستان کے وزیر اعظم کو چین کے سرمایہ کاروں کے سامنے انتہائی شرمندگی سے یہ کہنا پڑا کہ یہ ہماری (پاکستان کی)نااہلی اور غفلت سے ایسا ہوا، چین کی طرف سے مختلف منصوبوں کے حوالے سے رابطے کئے جاتے رہے مگر ہم نہ تو ان سے جوابی رابطے کرسکے اور نہ ہی منصوبوں کے حوالے سے کوئی پیشرفت۔ وزیر اعظم نے معذرت کرتے ہوئے آئندہ ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی مگر چین میں موجود پاکستان کے سفارتی عملے کی مسلسل بد انتظامی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی بیوروکریسی پر مزید تکیہ کرنے کی بجائے وزیر اعظم آفس میں چائنا سیل بنانے کا اعلان کردیا ۔ چینی سرمایہ کاروں کے سامنے وزیر اعظم اس حد تک بے بس اور شرمندہ ہوئے کہ انھوں نے اپنا ذاتی ٹیلی فون نمبر اور ای میل ایڈریس انھیں دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ آپ براہ راست مجھ سے رابطہ کریں ۔
چینی سرمایہ کاروں نے وزیر اعظم پاکستان سے اپنا دوسرا سب سے اہم مسئلہ ساورن گارنٹی کے ساتھ ساتھ چھ فیصد کی شرح سے رسک پریمیم انشورنس کی لازمی خریداری کی شرط کی صورت میں پیش کیا۔ میاں نوازشریف نے جب اس مسئلے کا ذکر وزیر اعظم چین سے کیا تو دونوں رہنماؤں نے باہمی اتفاق رائے سے سرمایہ کاروں کیلئے ساورن گارنٹی یا رسک پریمیم دونوں میں سے صرف ایک کا حصول لازمی قرار دیدیا۔ یہ چینی سرمایہ کاروں کیلئے ایک بڑا ریلیف ثابت ہوگا۔ میاں شہباز شریف چین کے دورے سے جس روز واپس آئے اسی دن وہ قطر کے نئے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملنے دوحہ چلے گئے ۔
مائع گیس کے منصوبوں کے حوالے سے دوطرفہ تعاون کی بات کی گئی جس کے نتائج بھی بہت جلد سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف دیگر صوبوں کی قیادت کو ساتھ ملا کر اسی برق رفتاری سے پاکستان کی صنعتی تجارتی و کاروباری ترقی کیلئے سرگرداں رہے تو بہت جلد پاکستان توانائی، بیروزگاری اور بدامنی جیسے مسائل سے انشاء اللٰہ باہر نکل آئے گا۔
ڈروں حملے رکوانے اور ملک میں انتہا پسندی و عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے وزیر اعظم نوازشریف کی طرف سے بلائی جانے والی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی کانفرنس بھی خوش آئند ابتدا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ 12 جولائی کی بجائے بیس جولائی کے بعد اس کانفرنس کے انعقاد کی بحث کے معاملے میں حکومتی ٹیم عمران خان کو قائل نہ کرسکی۔ تحریک انصاف کی ٹیم کے دلائل زیادہ وزن دار تھے اور اب امکان یہی ہے کہ یہ کانفرنس عمران خان کی بیس جولائی کو لندن سے وطن واپسی پر ہی منعقد ہوگی۔
ایبٹ آباد کمیشن کی تحقیقات منظر عام پر آنے کی وفاقی حکومت نے علیحٰدہ سے تحقیقات شروع کردی ہیں کہ یہ رپورٹ باہر کیسے نکلی۔ اب حکومتی سیانوں کو کون سمجھائے کہ اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے اس دور میں یہ بحث اور تحقیقات بے معنی ہیں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی پوری رپورٹ صفحہ بہ صفحہ انٹرنیٹ پر موجود ہے ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اس رپورٹ میں جہاں ذمہ داران کا تعین کردیا گیا ہے۔
وہاں اب حکومت وقت ان ذمہ داران کے خلاف ایکشن لے اور آئندہ سے ہماری عالمی جگ ہنسائی کا راستہ بند ہو۔ مگر ہم مصلحتوں کے شکار لوگ،ہمارے جیسے حکمران اور مصلحت زدہ قوم کہاں اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی جیسے بھاری بھرکم الفاظ کا بوجھ سہارسکتے ہیں ، البتہ کمیٹیوں پہ کمیٹیاں اور کمیشنوں پر کمیشن بٹھانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں اور یہ کام ہم حسب معمول پوری تندہی سے کئے جارہے ہیں۔