تحریک انصاف کے حکومتی ارکان پارٹی عہدے چھوڑنے سے گریزاں
تحریک انصاف جونہی اقتدار میں آئی اس کی قیادت کو چاہیے تھا کہ پارٹی کے وہ عہدیدار جن کو حکومتی عہدے دیئے گئے ہیں۔۔۔
تحریک انصاف جونہی اقتدار میں آئی اس کی قیادت کو چاہیے تھا کہ پارٹی کے وہ عہدیدار جن کو حکومتی عہدے دیئے گئے ہیں ان کو فوری طور پر ہدایت کرتی کہ وہ پارٹی عہدے چھوڑ دیں ۔
تاکہ وہ حکومت چلانے سے متعلق امور پر توجہ دیں اور پارٹی عہدے دیگر کو دے دیئے جاتے تاکہ پارٹی کے امور کو بھی درست طریقہ سے چلایاجاسکتا تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اپنی بیماری کی وجہ سے پوری طرح منظر میں شامل نہ ہونے کے باعث یہ فیصلہ نہ کیا جاسکا جس کی وجہ سے آج صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب پی ٹی آئی کی سنٹرل ایگزیکٹوکمیٹی کے اجلاس میں خود ہی پارٹی کے عہدیدار اپنی ہی ٹیم کے وہ ساتھی جن کے پاس پارٹی کے عہدوں کے علاوہ حکومتی عہدے بھی ہیں، ان پر تنقید اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پارٹی یا حکومتی عہدوں میں سے ایک چھوڑدیں ۔
خود ہی یہ خبریں باہر پھیلاتے ہیں اور پھر تردیدیں شروع ہوجاتی ہیں جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پی ٹی آئی معاملات کو ابھی تک پوری طرح سنبھال نہیں پارہی ،گوکہ وزیراعلیٰ کا عہدہ یقینی طور پر سب سے اہم ہوتا ہے اور دوسری جانب پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری کا عہدہ بھی انتہائی سے بھی کچھ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بھی پارٹی عہدہ چھوڑتے ہوئے حکومتی معاملات کی جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے کیونکہ انہوں نے تبدیلی کے جس ایجنڈے پر کام شروع کر رکھا ہے وہ کوئی آسان نہیں اور پھر بقول ان کے ان کا ٹکراؤ جمود کی قوتوں سے ہے جو اس معاملہ کو مزید مشکل بھی بنادیتا ہے لیکن وزیراعلیٰ دونوں عہدے اپنے ہی پاس رکھنے پر بضد ہیں ۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے صوبائی صدر اسد قیصر ، سپیکر بننے کے بعد وزیراعلیٰ سے بھی زیادہ مشکل صورت حال سے دوچار ہیں کیونکہ وزیراعلیٰ کا عہدہ یقینی طور پر سب سے اہم ہوتا ہے تاہم وزیراعلیٰ کا کام اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت میں توازن رکھتے ہوئے معاملات کو چلانا نہیں ہوتا کیونکہ بہرکیف وزیراعلیٰ ایک پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے تاہم جہاں تک سپیکر کا تعلق ہے تو سپیکر کے عہدہ کا تو تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو ، اسد قیصر جنھیں سپیکر کا عہدہ سنبھالے اب ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے وہ اب تک پارٹی کی صوبائی صدارت بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔
حالانکہ ایک مرتبہ اپوزیشن جماعتیں ان کے پاس موجود پارٹی صدارت کے عہدہ کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ بھی کرچکی ہیں اور اس واک آؤٹ کو اس یقین دہانی پر ختم کرایاگیا تھا کہ اس سلسلے میں جلد مشاورت کے ذریعے فیصلہ کرلیاجائے گا ۔
پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کونسل جیسے اہم فورم پر بھی اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکا جس کے باعث سپیکر صوبائی اسمبلی بدستور پارٹی کے صدر بھی ہیں جس کے باعث اپوزیشن جماعتوں کو ایوان میں احتجاج کرنے کے لیے ایشو ہروقت دستیاب ہے اور اپوزیشن جماعتیں یہ منصوبہ بندی کررہی ہیں کہ اسمبلی کے آنے والے اجلاس میں وہ اس معاملہ کو ایک مرتبہ پھر نہ صرف اٹھائیں بلکہ اس پر ایوان میں بھرپور احتجاج بھی کریں اور اپوزیشن جماعتیں یہ بھی غور کررہی ہیں کہ اسمبلی کا اگلا اجلاس وہ ریکوزیشن کے ذریعے اپنے ایجنڈے پر بلائیں اس لیے اگر سپیکر اس صورت حال سے بچنا چاہتے ہیں تو ان کو پارٹی عہدہ کو چھوڑنے کے حوالے سے بہرکیف کوئی فیصلہ فوری طور پر کرنا ہی ہوگا اور اس سلسلے میں انھیں وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کے دیگر ارکان کے اس بارے میں فیصلہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کی پوزیشن سپیکر سے الگ ہے۔
2008 ء کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی برسراقتدار آئیں تھیں ، اے این پی نے جب وزارت اعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے لیے ٹیم تشکیل دی تو فوری طور پر مذکورہ ارکان کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے پارٹی عہدے چھوڑدیں اور قارئین کو یاد ہوگا کہ سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے پارٹی کے جائنٹ سیکرٹری ،میاں افتخار حسین نے جنرل سیکرٹری اور سید عاقل شاہ نے پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدوں سے استعفے دے دیئے تھے جبکہ حاجی غلام احمد بلور نے پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر کا عہدہ چھوڑ دیا تھا ۔
تاکہ وہ حکومتی ذمہ داریوں سے بہتر طریقہ سے عہدہ برآ ہوسکیں تاہم ان کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے اس معاملہ میں بروقت فیصلہ نہ کیا جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی یکے بعد دیگر ے پارٹی صدور تبدیل کرتی رہی اور رحیم داد خان سے صدارت سید ظاہر علی شاہ ، ان سے سردار علی خان اور پھر انور سیف اللہ کے پاس آگئی جبکہ پارٹی کے مرکزی چیئرمین کا عہدہ اپنے پاس رکھنے پر صدر آصف علی زرداری کو جس تنقید اور عدالتی احکامات کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی سامنے کی بات ہے ، پارٹی عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے خود تحریک انصاف کی اتحادی جماعت جماعت اسلامی کی بھی مثال موجود ہے ۔
جس کے ایم ایم اے دور حکومت میں اس وقت کے مرکزی امیر قاضی حسین احمد کی ہدایت پر سراج الحق نے وزارت سے مستعفی ہوکر پارٹی کی امارت سنبھال لی تھی تاہم پی ٹی آئی کے پارٹی عہدیدار جو حکومتی ٹیم میں بھی شامل ہیں وہ سردست پارٹی اور حکومتی عہدے الگ کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہے جس کے حوالے سے وہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ اس کا فائدہ ان کی حکومت کو ہوگا یا ان کی پارٹی کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ضمنی انتخابات کے حوالے سے جہاں خیبرپختونخوا میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان مل کر چلنے کے تاحال کوئی آثار نظر نہیں آرہے وہیں پر اپوزیشن جماعتیں بھی قریب آتے ،آتے دور ہوگئی ہیں ۔ اے این پی اور جے یو آئی جو صوبہ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نو نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے حوالے سے اصل دعویدار پارٹیاں ہیں ان کے درمیان 6/3 پر بات طے ہونے کے بعد اچانک معاملہ پھر خراب ہوگیا ہے کیونکہ اے این پی پانچ نشستوں پر تو جے یو آئی کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار ہے تاہم مردان سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 27 پر معاملہ آکر اٹک گیا ہے۔
کیونکہ اے این پی مذکورہ نشست پر عام انتخابات میں منتخب ہونے والے آزاد رکن عمران مہمند کے خود کش دھماکے میں جاں بحق ہونے کی وجہ سے ان کے بھائی کی حمایت کا اعلان کرچکی ہے اور اے این پی اپنے اعلان پر قائم بھی ہے جبکہ دوسری جانب جے یو آئی دیگر پانچ نشستوں کی طرح اس نشست پر بھی اپنے امیدوار مولانا محمد قاسم کے لیے اے این پی کی حمایت چاہتی ہے اور اس معاملے میں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کے بعد اچانک ایک دوسرے سے روٹھ کر دور جاکھڑی ہوئی ہیں۔
جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) جو ان نو نشستوں میں کسی ایک پر بھی نہ تو فاتح تھی اور نہ ہی رنر اپ اس لیے اے این پی اور جے یو آئی انھیں اس دوڑ میں شامل نہیں سمجھ رہیں تاہم وہ دونوں پارٹیاں کھیل کا حصہ ہیں اور اگر اپوزیشن مشترکہ امیدوار میدان میں لانے کی خواہاں ہے تو اس صورت میں اے این پی اور جے یو آئی دونوں کو ایک ،ایک سیٹ کی قربانی دینی ہوگی تاکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو ایڈجسٹ کیا جاسکے لیکن دونوں پارٹیاں اس موڈ میں نظر نہیں آرہیں جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر چاروں اپوزیشن پارٹیاں الگ ،الگ ہی میدان میں اتر سکتی ہیں ۔
پیپلزپارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ صوبائی صدر انور سیف اللہ کا استعفیٰ منظور بھی نہیں کیا گیا اور ان کی موجودگی میں پارٹی کے معاملات چلانے کے لیے چھ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جسے نہ تو پارٹی کے منتخب ارکان تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی پارٹی ورکر کیونکہ ان کے بقول یہ کمیٹی شکست خوردہ امیدواروں پر مشتمل ہے جسے کسی بھی طور تسلیم نہیں کیا جاسکتا ، مذکورہ کمیٹی تخت وتاج کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال کی وجہ سے پارٹی کے اندر ایک مرتبہ پھر نیا صدر لانے کی تیاریاں جاری ہیں۔
جس کے لیے سابق صدر سید ظاہرعلی شاہ کا نام بھی لیاجارہا ہے لیکن ان کے ساتھ سابق سپیکر صوبائی اسمبلی کرامت اللہ چغرمٹی بھی دوڑ میں شامل ہیں جو گزشتہ دور میں اکثر اسلام آباد یاترا کے دوران اقتدار کے ایوانوں میں مقیم مکینوں کے قریب ہوتے تھے اورانہی قربتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ صوبہ میں پارٹی کی کمان سنبھالنا چاہتے ہیں تاہم اس وقت صوبہ میں پیپلزپارٹی کی جو حالت ہے اس میں جو بھی پارٹی کی صدارت سنبھالے گا اسے روایتی کی بجائے غیر روایتی طور طریقے اپنانا پڑیں گے تبھی وہ پیپلزپارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالنے میں کامیاب ہو پائیں گے ورنہ پیپلزپارٹی کے ورکرتلاش برائے موزوں صدر ہی میں لگے رہیں گے۔
تاکہ وہ حکومت چلانے سے متعلق امور پر توجہ دیں اور پارٹی عہدے دیگر کو دے دیئے جاتے تاکہ پارٹی کے امور کو بھی درست طریقہ سے چلایاجاسکتا تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے اپنی بیماری کی وجہ سے پوری طرح منظر میں شامل نہ ہونے کے باعث یہ فیصلہ نہ کیا جاسکا جس کی وجہ سے آج صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب پی ٹی آئی کی سنٹرل ایگزیکٹوکمیٹی کے اجلاس میں خود ہی پارٹی کے عہدیدار اپنی ہی ٹیم کے وہ ساتھی جن کے پاس پارٹی کے عہدوں کے علاوہ حکومتی عہدے بھی ہیں، ان پر تنقید اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پارٹی یا حکومتی عہدوں میں سے ایک چھوڑدیں ۔
خود ہی یہ خبریں باہر پھیلاتے ہیں اور پھر تردیدیں شروع ہوجاتی ہیں جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پی ٹی آئی معاملات کو ابھی تک پوری طرح سنبھال نہیں پارہی ،گوکہ وزیراعلیٰ کا عہدہ یقینی طور پر سب سے اہم ہوتا ہے اور دوسری جانب پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری کا عہدہ بھی انتہائی سے بھی کچھ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بھی پارٹی عہدہ چھوڑتے ہوئے حکومتی معاملات کی جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے کیونکہ انہوں نے تبدیلی کے جس ایجنڈے پر کام شروع کر رکھا ہے وہ کوئی آسان نہیں اور پھر بقول ان کے ان کا ٹکراؤ جمود کی قوتوں سے ہے جو اس معاملہ کو مزید مشکل بھی بنادیتا ہے لیکن وزیراعلیٰ دونوں عہدے اپنے ہی پاس رکھنے پر بضد ہیں ۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے صوبائی صدر اسد قیصر ، سپیکر بننے کے بعد وزیراعلیٰ سے بھی زیادہ مشکل صورت حال سے دوچار ہیں کیونکہ وزیراعلیٰ کا عہدہ یقینی طور پر سب سے اہم ہوتا ہے تاہم وزیراعلیٰ کا کام اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت میں توازن رکھتے ہوئے معاملات کو چلانا نہیں ہوتا کیونکہ بہرکیف وزیراعلیٰ ایک پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے تاہم جہاں تک سپیکر کا تعلق ہے تو سپیکر کے عہدہ کا تو تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو ، اسد قیصر جنھیں سپیکر کا عہدہ سنبھالے اب ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے وہ اب تک پارٹی کی صوبائی صدارت بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔
حالانکہ ایک مرتبہ اپوزیشن جماعتیں ان کے پاس موجود پارٹی صدارت کے عہدہ کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ بھی کرچکی ہیں اور اس واک آؤٹ کو اس یقین دہانی پر ختم کرایاگیا تھا کہ اس سلسلے میں جلد مشاورت کے ذریعے فیصلہ کرلیاجائے گا ۔
پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کونسل جیسے اہم فورم پر بھی اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکا جس کے باعث سپیکر صوبائی اسمبلی بدستور پارٹی کے صدر بھی ہیں جس کے باعث اپوزیشن جماعتوں کو ایوان میں احتجاج کرنے کے لیے ایشو ہروقت دستیاب ہے اور اپوزیشن جماعتیں یہ منصوبہ بندی کررہی ہیں کہ اسمبلی کے آنے والے اجلاس میں وہ اس معاملہ کو ایک مرتبہ پھر نہ صرف اٹھائیں بلکہ اس پر ایوان میں بھرپور احتجاج بھی کریں اور اپوزیشن جماعتیں یہ بھی غور کررہی ہیں کہ اسمبلی کا اگلا اجلاس وہ ریکوزیشن کے ذریعے اپنے ایجنڈے پر بلائیں اس لیے اگر سپیکر اس صورت حال سے بچنا چاہتے ہیں تو ان کو پارٹی عہدہ کو چھوڑنے کے حوالے سے بہرکیف کوئی فیصلہ فوری طور پر کرنا ہی ہوگا اور اس سلسلے میں انھیں وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم کے دیگر ارکان کے اس بارے میں فیصلہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کی پوزیشن سپیکر سے الگ ہے۔
2008 ء کے انتخابات کے نتیجے میں صوبہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی برسراقتدار آئیں تھیں ، اے این پی نے جب وزارت اعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے لیے ٹیم تشکیل دی تو فوری طور پر مذکورہ ارکان کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے پارٹی عہدے چھوڑدیں اور قارئین کو یاد ہوگا کہ سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے پارٹی کے جائنٹ سیکرٹری ،میاں افتخار حسین نے جنرل سیکرٹری اور سید عاقل شاہ نے پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدوں سے استعفے دے دیئے تھے جبکہ حاجی غلام احمد بلور نے پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر کا عہدہ چھوڑ دیا تھا ۔
تاکہ وہ حکومتی ذمہ داریوں سے بہتر طریقہ سے عہدہ برآ ہوسکیں تاہم ان کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے اس معاملہ میں بروقت فیصلہ نہ کیا جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی یکے بعد دیگر ے پارٹی صدور تبدیل کرتی رہی اور رحیم داد خان سے صدارت سید ظاہر علی شاہ ، ان سے سردار علی خان اور پھر انور سیف اللہ کے پاس آگئی جبکہ پارٹی کے مرکزی چیئرمین کا عہدہ اپنے پاس رکھنے پر صدر آصف علی زرداری کو جس تنقید اور عدالتی احکامات کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی سامنے کی بات ہے ، پارٹی عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے خود تحریک انصاف کی اتحادی جماعت جماعت اسلامی کی بھی مثال موجود ہے ۔
جس کے ایم ایم اے دور حکومت میں اس وقت کے مرکزی امیر قاضی حسین احمد کی ہدایت پر سراج الحق نے وزارت سے مستعفی ہوکر پارٹی کی امارت سنبھال لی تھی تاہم پی ٹی آئی کے پارٹی عہدیدار جو حکومتی ٹیم میں بھی شامل ہیں وہ سردست پارٹی اور حکومتی عہدے الگ کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہے جس کے حوالے سے وہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ اس کا فائدہ ان کی حکومت کو ہوگا یا ان کی پارٹی کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ضمنی انتخابات کے حوالے سے جہاں خیبرپختونخوا میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان مل کر چلنے کے تاحال کوئی آثار نظر نہیں آرہے وہیں پر اپوزیشن جماعتیں بھی قریب آتے ،آتے دور ہوگئی ہیں ۔ اے این پی اور جے یو آئی جو صوبہ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نو نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے حوالے سے اصل دعویدار پارٹیاں ہیں ان کے درمیان 6/3 پر بات طے ہونے کے بعد اچانک معاملہ پھر خراب ہوگیا ہے کیونکہ اے این پی پانچ نشستوں پر تو جے یو آئی کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار ہے تاہم مردان سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 27 پر معاملہ آکر اٹک گیا ہے۔
کیونکہ اے این پی مذکورہ نشست پر عام انتخابات میں منتخب ہونے والے آزاد رکن عمران مہمند کے خود کش دھماکے میں جاں بحق ہونے کی وجہ سے ان کے بھائی کی حمایت کا اعلان کرچکی ہے اور اے این پی اپنے اعلان پر قائم بھی ہے جبکہ دوسری جانب جے یو آئی دیگر پانچ نشستوں کی طرح اس نشست پر بھی اپنے امیدوار مولانا محمد قاسم کے لیے اے این پی کی حمایت چاہتی ہے اور اس معاملے میں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے اور گلے ملنے کے بعد اچانک ایک دوسرے سے روٹھ کر دور جاکھڑی ہوئی ہیں۔
جبکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) جو ان نو نشستوں میں کسی ایک پر بھی نہ تو فاتح تھی اور نہ ہی رنر اپ اس لیے اے این پی اور جے یو آئی انھیں اس دوڑ میں شامل نہیں سمجھ رہیں تاہم وہ دونوں پارٹیاں کھیل کا حصہ ہیں اور اگر اپوزیشن مشترکہ امیدوار میدان میں لانے کی خواہاں ہے تو اس صورت میں اے این پی اور جے یو آئی دونوں کو ایک ،ایک سیٹ کی قربانی دینی ہوگی تاکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو ایڈجسٹ کیا جاسکے لیکن دونوں پارٹیاں اس موڈ میں نظر نہیں آرہیں جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر چاروں اپوزیشن پارٹیاں الگ ،الگ ہی میدان میں اتر سکتی ہیں ۔
پیپلزپارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ صوبائی صدر انور سیف اللہ کا استعفیٰ منظور بھی نہیں کیا گیا اور ان کی موجودگی میں پارٹی کے معاملات چلانے کے لیے چھ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جسے نہ تو پارٹی کے منتخب ارکان تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی پارٹی ورکر کیونکہ ان کے بقول یہ کمیٹی شکست خوردہ امیدواروں پر مشتمل ہے جسے کسی بھی طور تسلیم نہیں کیا جاسکتا ، مذکورہ کمیٹی تخت وتاج کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال کی وجہ سے پارٹی کے اندر ایک مرتبہ پھر نیا صدر لانے کی تیاریاں جاری ہیں۔
جس کے لیے سابق صدر سید ظاہرعلی شاہ کا نام بھی لیاجارہا ہے لیکن ان کے ساتھ سابق سپیکر صوبائی اسمبلی کرامت اللہ چغرمٹی بھی دوڑ میں شامل ہیں جو گزشتہ دور میں اکثر اسلام آباد یاترا کے دوران اقتدار کے ایوانوں میں مقیم مکینوں کے قریب ہوتے تھے اورانہی قربتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ صوبہ میں پارٹی کی کمان سنبھالنا چاہتے ہیں تاہم اس وقت صوبہ میں پیپلزپارٹی کی جو حالت ہے اس میں جو بھی پارٹی کی صدارت سنبھالے گا اسے روایتی کی بجائے غیر روایتی طور طریقے اپنانا پڑیں گے تبھی وہ پیپلزپارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالنے میں کامیاب ہو پائیں گے ورنہ پیپلزپارٹی کے ورکرتلاش برائے موزوں صدر ہی میں لگے رہیں گے۔